فاروق ستار تقریر کے دوران غلط نعرے سن کر گھبرا گئے
مگرفورا میڈیا والوں سے کہا کے اسے زیادہ اہمیت نہ دیں انھوں نے۔ سارے کیے کرائے پر پانی پھیر دیا۔فاروق بھائی پریشان ہوں، ایسا تو ہوتا رہتا ہے۔ کبھی کبھی پرانی یادیں ذہن کے نہاں خانوں سے نکل کر زبان تک آ ہی جاتی ہیں۔ جبھی تو شاعر کہتا ہے۔
یادِ ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
اب جس تنظیم کے ساتھ عرصے کا ساتھ رہا ہو جس کے نعرے لگاتے عمر گزری ہو، اچانک کسی جلسے میں اس کا نام یا نعرہ گونجنا کوئی بڑی بات نہیں۔ بارہا دیکھا گیا ہے کہ نواز شریف کے جلسے میں کپتان کے نعرے اچانک پھسل پڑتے تھے۔ اسی طرح کپتان کے جلسے میں شیر کی گونج سنائی دیتی تھی۔ یہی کچھ گزشتہ روز فاروق بھائی کی تقریر کے دوران ہوا۔ جلسہ گاہ یہ معاملہ دیکھ کر یکدم فاروق ستار کچھ گھبرا سے گئے اور قدر ہاتھ ماتھے پر مارا اور لوگوں کی توجہ ان کی غلطی کی طرف کرائی۔ یہ قدرتی انداز بلکہ کسی فلمی سین کی طرح تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فاروق بھائی میں بھی اداکاری کے جراثیم موجود ہیں ورنہ عرصہ ہوا۔ ایم کیو ایم کے ایک مسخرے اداکار کے بعد تو کارکنوں کو ہنسانے اور رلانے والا ٹیلنٹ لگتا ہے کسی کے پاس رہا ہی نہیں۔ ویسے تو اب فاروق بھائی بھی سنجیدہ ہی نظر آتے ہیں۔ کھل کر ہنستے ہوئے انھیں گزشتہ روز دیکھا تو اچھا لگا۔ سیاست اپنی جگہ زندگی اپنی جگہ ہم اپنی زندگی کی حقیقی اور چھوٹی چھوٹی خوشیاں بھی کبھی ہنگامہ سیاست کی نظر کر دیتے ہیں۔ مقبول صدیقی اور مصطفی کمال تو مسکرانے میں بھی بخل سے کام لیتے ہیں ورنہ متحدہ کے ایک سفاک رہنما کی قاتل ہنسی تو لوگوں کو آج بھی یاد ہے۔ ان کے علاوہ سیاست میں مرحوم ضیاء الحق اور موجودہ صدر آصف علی زرداری کی پراسرار مسکراہٹ بھی خاصی معنی خیز ہے جو واقعی
حیا سمجھوں ادا سمجھوں کے اظہار وفا سمجھوں
تمھاری مسکراہٹ مجھ سے پہچانی نہیں جاتی
٭٭٭٭٭
بیٹے کی پیدائش پر شاہین نے جشن کا انداز تبدیل کر لیا
بے شک یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ شاہین آفریدی باپ اور شاہد آفریدی نانا بن گئے۔ گزشتہ روز شاہین آفریدی کو اس خوشخبری پر کرکٹ ٹیم کے تمام کھلاڑیوں اور پی سی بی کے علاوہ ان کے عزیز و اقارب اور دوستوں نے بہت بہت مبارکباد دی۔ وہاں ایک خوبصورت چیز جو شاہین آفریدی کے کھیل میں دیکھنے کو ملی۔ وہ شائقین کرکٹ کے دلوں کو بھا گئی۔ جی ہاں راولپنڈی میں بنگلہ دیش کے خلاف کرکٹ میچ میں جب انھوں نے باپ بننے کے بعد پہلی وکٹ لی تو انھوں نے اپنا روایتی جشن فتح کا اظہار کرتے ہوئے دونوں ہاتھ بلند کرنے کی بجائے اچانک بچے کو جھولا دینے یعنی گود میں لے کر ہلانے کا انداز اپنایا جس پر دیکھنے والے بے ساختہ مسکرا اٹھے۔ خوشی منانے کا انداز سب کے دلوں کو چھو گیا۔ ویسے بھی باپ بننے کی خوشی کس کو نہیں ہوتی مگر اظہارِ مسرت کا یہ دلکش انداز بتارہاہے کہ اب وہ کھیل کے ساتھ بچے کو سنبھالنے پر بھی توجہ دیں گے۔خوشی کا یہ سٹائل بہت کم کوئی اپناتا ہے۔ استاد ذوق نے کیا خوب کہا تھا:
نہ ہوا پر نہ ہوا میر کا انداز نصیب
ذوق یاروں نے بہت زور غزل میں مارا
اور بھی کئی کھلاڑیوں کی زندگی میں باپ بننے کی خوشی کا لمحہ آئے گا مگر جو انداز شاہین نے اپنایا ہے وہ یادگار رہے گا۔ کسی کے تصور میں نہیں تھا کہ شاہین آفریدی ہنستے مسکراتے ہوئے اس سٹائل میں حرکت لینے کی خوشی کو باپ بننے کی خوشی کے ساتھ ملا کر اسے دو آتشہ بنا دیں گے۔ نانس بننے پر شاہد آفریدی کی خوشی بھی دیدنی ہے۔
٭٭٭٭٭
عدالت کا بانی پی ٹی آئی کو ایکسرسائز کے لیے ڈمبل فراہم کرنے کا حکم
عدالت نے کمال مہربانی سے قیدی کپتان کی یہ خواہش بھی پوری کر دی وہ بھی بہت تیزی سے۔ دیکھ لیں ایک طرف جیل سے باہر ساری دنیا میں یہ شور مچایا جاتا ہے کہ قیدی کے لیے حالات بہت سخت ہیں ایک کھولی میں انھیں رکھا گیا ہے۔ جہاں کوئی اچھی سہولت نہیں مگر حقیقت کیا ہے۔ پہلے ورزش کا سامان منگوایا۔ اب تن سازی کے سامان کی فرمائش کی وہ بھی پوری ہو گئی۔ ایسے قسمت کے دھنی تو بہت کم ہوتے ہیں۔ یہاں فرمائش کی وہاں وہ پوری ہو گئی۔ دوسرے قیدی تو اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ویسے عجیب بات ہے کہ کپتان کوئی عام قیدی نہیں وہ خود بھی کہتے ہیں کہ وہ سابق وزیر اعظم ہیں۔ اس کے علاوہ کوئی غریب یا سفید پوش بھی نہیں۔ بنی گالہ کا محل ہو یا زمان پارک کا بنگلہ اربوں کی پراپرٹی ہے۔ لاکھوں ر وپے ان کے کتوں کا خرچہ ہے کیا وہ ڈمبل ازخود اپنے پیسوں سے نہیں منگوا سکتے تھے کہ اتنے پاپڑ پیلنے پڑے رہے۔ وہ چاہیں تو اپنے خرچے پر ساری جیل کے قیدیوں کے لیے اے سی اور ورزش کا سامان منگوا سکتے ہیں۔ چلو اس طرح یہ تو پتا چلا کہ وہ جیل میں قدرے آرام سے ہیں انھیں ہر وہ سہولت میسر ہے جس کا عام قیدی تصور بھی نہیں کر سکتے۔ چلیں اب اس قید کے دوران وہ فراغت میں ورزش کر کے جم ایکسرسائز کر کے اپنی فٹنس بحال رکھ سکیں گے اور جو لوگ روتے دھوتے ہیں کہ ظلم ہو رہا ہے، ان کا منہ بھی بند ہو جائے گا۔ اس سے ایک ہی ملک میں عام آدمی اور مراعات یافتہ طبقے کے درمیان ہر سطح پر زمین آسمان کاجو فرق پایا جاتا ہے اور تو اور قانون بھی دونوں کے ساتھ یکساں سلوک کرتا نظر آتا اور مثالیں دیتے ہیں ہم عدل فاروقی کی۔
٭٭٭٭٭
وزیر اعظم کی بنگلہ دیشی سیلاب متاثرین کے لیے امداد کی پیشکش
یہ ایک عمدہ بات ضرور ہے مگر اس سے خود پاکستان میں سیلاب متاثرین کی خاصی دل شکنی ہو رہی ہے۔ بحیثیت مسلم ہم سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں ہمیں ان کی مدد ضرور کرنی چاہیے مگر اس سے پہلے ’دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا کو‘ ہمارے ملک میں کئی علاقے گوڈوں گوڈوں پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ متاثرین بے سروسامانی کے عالم میں پڑے ہیں۔ اس حالت میں بھی یہ جذبہ مدد قابل تعریف ہے۔ 71 ء سے پہلے بھی جب مشرقی پاکستان میں ہر سال سیلاب آتا تو پورے پاکستان میں امدادی مہم شروع کی جاتی اور وہاں کے بھائیوں کی امداد کی جاتی۔ آج بھی ہم یہی اخوت دہرا رہے ہیں تو بڑی اچھی بات ہے مگر اب حالات بدل چکے ہیں۔ بنگلہ دیش کی حالت بقول ناقدین ہم سے بہتر ہے۔ وہاں البتہ پاکستان مخالف جذبات گرچہ موجود ہیں مگر شدت میں کمی آ رہی ہے۔ اس وقت ویسے بھی پاکستانی عوام دوسروں کے بہت زیادہ توجہ اور حسن سلوک کے مستحق ہیں۔ ویسے بھی کہتے ہیں نا ’اول خویش بعد درویش‘ ہمیشہ پہلے اپنوں کو پھر دوسروں کو دینے کا حکم ہے۔ آفات میں دنیا بھر کے ممالک بنگلہ دیش کی بھرپور مدد کر رہے ہیں۔ ہم بھی سیلاب کی آفت سے بچنے کے لیے دنیا کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ اس کے باوجود بنگلہ دیش کو مدد کی پیشکش واقعی لائق تحسین ہے۔ اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ ہم پاکستانیوں کی یہی ادا تو دنیا بھر سے نرالی ہے کہ ہم خواہ کتنی ہی تکلیف میں کیوں نہ ہوں ، دوسروں کی مدد میں کبھی بخل سے کام نہیں لیتے۔
٭٭٭٭٭