ایشیائی ترقیاتی بینک نے ترسیلاتِ زر کو پاکستانی معیشت کا اہم ممکنہ ستون قرار دیتے ہوئے سمندر پار پاکستانیوں کی رغبت بڑھانے کے لیے اقدامات کی سفارش کر دی ہے۔ بیرون ممالک موجود پاکستانیوں کی طرف سے پاکستان میں بھجوائی جانے والی رقوم مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کے 10 فیصد کے برابر ہیں اور یہ پاکستان کے زرِ مبادلہ میں اضافے کا مستقل ذریعہ ہیں۔ جہاں یہ ترسیلات زرِ مبادلہ کے ذخائر میں اضافے کا باعث ہیں وہیں ان سے پاکستان کا تجارتی خسارہ کم کرنے میں بھی مدد ملتی ہے۔ کورونا کی وبا کے دوران بڑے بڑے ممالک کی معیشتیں ڈوب گئیں۔ پاکستان میں کورونا کے دوران ترسیلات اور برآمدات میں کمی کا امکان تھا۔ کورونا نے برآمدات پر تو اثر ڈالا لیکن ترسیلات کم ہونے کی بجائے بڑھ گئیں۔ تارکینِ وطن کی پاکستان میں ترسیلات کو ہمیشہ تحسین کی نظر سے دیکھا گیا ہے۔ حکومتوں کی طرف سے ان پاکستانیوں کو کبھی ماتھے کا جھومر قرار دیا جاتا ہے تو کبھی پاکستان کا فخر کہا جاتا ہے مگر جب ان کے مسائل کی بات آتی ہے تو ان کے حل کی طرف حکمران طبقہ توجہ نہیں دیتا۔ ملک کے اندر تارکینِ وطن کے ساتھ طرح طرح فراڈ ہوتے ہیں۔ ان کی جائیدادوں پر قبضے کر لیے جاتے ہیں۔ کئی تو جان جانے کے خطرے کے باعث پاکستان کا رخ ہی نہیں کرتے۔ جو پاکستان آتے ہیں وہ عدالتی جھمیلوں میں پھنسے رہتے ہیں۔ تارکینِ وطن کو جن مسائل کا عام طور پر سامنا کرنا پڑتا ہے ان میں سے ایک بیرونِ ملک امیگریشن کے لیے پولیس کریکٹر سرٹیفکیٹ کا حصول ہے۔اس مسئلے کو حل کرنا چنداں مشکل نہیں ہے مگر اس طرف بھی حکومت کی توجہ نہیں جاتی۔ یورپ میں شہریت یا مستقل سٹیٹس کے لیے پولیس کریکٹر سرٹیفکیٹ لازمی قرار دیا گیا ہے۔ یہ سسٹم بیرونِ ملک پاکستان کے سفارت خانوں میں اور ملک کے اندر صوبائی سطح پر موجود ہے۔ سفارت خانوں سے رجوع کیا جاتا ہے تو ان کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ ہمارے پاس امیگریشن کی کیٹیگری موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے اس سرٹیفکیٹ کے حصول کے لیے تارکینِ وطن کو پاکستان میں اپنے کسی عزیز کے ذریعے سرٹیفکیٹ بنوانا پڑتا ہے جس کے لیے متعلقہ عملے کی طرف سے مختلف طرح کے مسائل پیدا کیے جاتے ہیں۔ سفارت خانوں میں موجود سسٹم میں امیگریشن کی کیٹیگری شامل کرنا کیوں مشکل ہے ؟ اس کے لیے اقوام متحدہ سے منظوری لینے کی ضرورت نہیں پڑتی۔حکومت کی تھوڑی سی توجہ سے تارکینِ وطن کے ایسے مسائل آسانی اور خوش اسلوبی سے حل ہوسکتے ہیں۔