ای پروکیورمنٹ منصوبہ فوری طور پر مکمل کیا جائے

دنیا بھر میں کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور مصنوعی ذہانت یا آرٹیفشل انٹیلی جنس کی مدد سے نہ صرف کاموں کو آسان بنانے کی کوشش کی جاتی ہے بلکہ اس کے ذریعے بدعنوانی کے سدباب کے لیے بھی اقدامات کیے جاتے ہیں۔ پاکستان میں بھی حکومت نے 2017ء میں تمام قسم کی سرکاری خریداریوںکے لیے الیکٹرانک پروکیورمنٹ (یعنی خریداری کے لیے برقی نظام ) اور ای پاک ایکویزیشن اینڈ ڈسپوزل سسٹم (ای پیڈز) کے نفاذ کا فیصلہ کیا تھا لیکن تاحال یہ منصوبہ مکمل نہیں ہوسکا۔ عالمی بینک کے تعاون سے شروع کیے جانے والے اس منصوبے کی کل لاگت 45 ملین امریکی ڈالرز ہے اور وفاقی حکومت کی 37 وزارتوں اور301 پروکیورنگ ایجنسیوں میں ای پروکیورمنٹ کا نفاذ ہو چکا ہے۔ پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی (پی پی آر اے) کی جانب سے پروکیورنگ ایجنسیوں کے 8988 افسران و اہلکاران کو ای پروکیورمنٹ کی تربیت دی جا چکی ہے ۔ وفاقی حکومت کا ای پروکیورمنٹ کے حوالے سے حجم تقریباً 1551 ارب روپے ہے۔ ای پروکیورمنٹ کے حوالے سے پنجاب، سندھ ، خیبر پختونخوا اور آزاد جموں و کشمیر کی حکومتوں سے مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط بھی کیے جاچکے ہیں۔
اس سلسلے میں وزیراعظم محمد شہباز شریف کی زیر صدارت منعقد ہونے والے اجلاس ہوا جس میں وزیراعظم کی اس سسٹم کے نفاذ میں تاخیر اور معیار کے معاملات سے متعلق ناگواری واضح تھی۔ اس موقع پر انھوں نے کہا کہ حکومت تمام قسم کی خریداریوں کے حوالے سے شفاف طریقہ کار رائج کرنے کے لیے بھرپوراقدامات کر رہی ہے۔ وزیراعظم نے اس پروجیکٹ کو اایک ماہ کے اندر مکمل کرنے کا حکم دیتے ہوئے پروکیورمنٹ کے عمل کے حوالے سے شکایات اور تحفظات کے حل کے نظام کو مؤثر بنانے کے لیے اس کی تھرڈ پارٹی ویلیڈیشن کی ہدایت کی۔ انھوں نے مزید کہا کہ شکایات اور تحفظات کے حل کے نظام کو پروکیورنگ ایجنسی کے ماتحت نہیں ہونا چاہیے، اس حوالے سے قواعد و ضوابط میں ترمیم کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ اجلاس کے دوران وزیراعظم کو ای پروکیورمنٹ پر بریفنگ دی گئی۔ شہباز شریف نے ہدایت کی کہ 2 ارب روپے سے زائد کے تمام ترقیاتی منصوبوں کی کسی غیر جانبدار ادارے سے توثیق کروائی جائے۔ 
یہ ایک کھلا راز ہے کہ پاکستان میں سرکاری اداروں کی خریداریوں میں بہت سے گھپلے ہوتے ہیں اور اربوں کھربوں روپے کی رقوم سرکاری افسران اور اہلکاران کی ملی بھگت سے سرکاری خزانے سے نکل کر ان کی اپنی جیبوں میں چلی جاتی ہیں۔ یہ بات صرف ہم پاکستانیوں کے ہی علم میں نہیں ہے بلکہ ہمیں امداد اور قرضے فراہم کرنے والے بین الاقوامی ادارے اور ممالک بھی اس سے اچھی طرح واقف ہیں۔ بدعنوانی کے اسی سلسلے کی روک تھام کے لیے ای پروکیورمنٹ کے نفاذ کا فیصلہ کیا گیا تھا اور بین الاقوامی ترقیاتی تنظیموں نے اس حوالے سے جو تحقیق کی ہے اس کے مطابق اس سسٹم کے نفاذ سے سرکاری خزانے کی 10 سے 25 فیصد رقم بچائی جاسکتی ہے۔ یہ اقدام حکومت کی جانب سے احتساب کو بہتر بنانے کی وسیع ترکوششوں کا حصہ ہے اور اس سے عوامی شعبے کے پروجیکٹس میں نقصانات میں تخفیف کے ساتھ ساتھ احتساب کی صورتحال بھی بہتر ہوسکے گی۔ 
یہ ایک افسوس ناک بات ہے کہ پاکستان میں عام سرکاری ملازم سے لے کر سرکاری خرچے پر بیرونِ ملک سے تعلیم اور تربیت حاصل کر کے آنے والے بابوؤں تک سبھی خائف ہیں، اسی لیے وہ ایسے کسی بھی نظام کے نفاذ میں روڑے اٹکاتے ہیں جس کا مقصد بدعنوانی کا سدباب ہو۔ ای پروکیورمنٹ کا منصوبہ تو سرکاری خریداریوں سے متعلق ہے جس سے اربوں کھربوں روپے کی خرد برد کا راستہ روکا جاسکتا ہے، لہٰذا اس کے نفاذ کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنا تو سمجھ میں آنے والی بات ہے۔ بیوروکریسی اور کلرک تو پیپر لیس آفس یعنی کاغذ اور فائلوں کے بغیر کمپیوٹر ریکارڈ کی مدد سے دفتری معاملات چلانے کے نظام کو بھی پوری طرح نافذ نہیں ہونے دے رہے کیونکہ انھیں لگتا ہے کہ ایسے ہونے سے عوام کی نظر میں ان کی ’اہمیت‘ بھی کم ہو جائے گی اور دفتری کاموں میں وہ جو سستی برتتے ہیں اس کا راستہ بھی بند جائے گا۔ اسی لیے آج بھی ایک میز سے دوسری میز تک فائل کے پہنچنے کا وہی طریقہ رائج ہے جو اس ملکِ خداداد کے وجود میں آنے سے پہلے نافذالعمل تھا اور اس کام میں وقت بھی اتنا ہی لگتا ہے جتنا اب سے تقریباً ایک صدی پہلے لگا کرتا تھا۔
ای پروکیورمنٹ اور ای پیڈز کے منصوبے کی تکمیل جلد از جلد ہونی چاہیے اور اس سلسلے میں جو بھی افسران رکاوٹیں کھڑی کررہی ہیں ان کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے۔ علاوہ ازیں، حکومت کو نہ صرف وفاقی سطح پر بلکہ تمام صوبوں، ڈویژنوں اور ضلعوں میں پیپر لیس آفس سسٹم کا نفاذ کرنا چاہیے اور ایک مربوط نظام کے ذریعے ہر درخواست، کاغذ اور فائل کو صرف کمپیوٹر کے ذریعے ہی پراسس کرنا چاہیے۔ اگر مختلف ممالک کے ویزوں سفارت خانوں اور قونصل خانوں میں جائے بغیر انٹرنیٹ کی مدد سے حاصل کیے جاسکتے ہیں تو پیپر لیس آفس سسٹم کے نفاذ میں کیا مسئلہ ہے؟ کیوں آج بھی سول سرکاری ملازمین کو اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد کئی کئی مہینے اور بعض صورتوں میں دو دو تین تین سال اپنی پنشن وغیرہ کے حصول کے لیے اکاؤنٹ جنرل کے دفتر میں ذلیل و خوار ہونا پڑتا ہے؟ اسی طرح، سرکاری ملازمین کے چھٹی حاصل کرنے کا طریقہ کار بھی اتنا ہی پیچیدہ اور پریشان کن ہے۔ عام آدمی کو بھی جہاں کسی سرکاری دفتر سے کوئی کام کرانا ہوتا ہے اسے اپنی فائل آگے بڑھانے کے لیے ملازمین کے ’بشری تقاضے‘ پورے کرنے پڑتے ہیں۔ میٹرک سے لے کر پی ایچ ڈی تک کی اسناد کی تصدیق کے سلسلے میں بھی لوگوں کو ایسی ہی پریشانی اور مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان تمام مسائل کو پیپر لیس آفس سسٹم کے نفاذ ذریعے بآسانی حل کیا جاسکتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ اس سسٹم کے نفاذ کے لیے سنجیدہ اور فوری اقدامات کرے۔

ای پیپر دی نیشن