خون بہا اور رشوت: پاکستان میں دولت مند کیسے انصاف سے بچتے ہیں


تحریر: محمد محسن اقبال
پاکستان کے قانونی نظام کے بارے میں یہ تاثر کہ یہ کمزوروں کو نشانہ بناتا ہے جبکہ طاقتوروں کو رعایت فراہم کرتا ہے، بدقسمتی سے درست معلوم ہوتا ہے۔ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ قانون کمزوروں کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتا ہے جبکہ بااثر افراد اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اس نقطہ نظر، جو متعدد واقعات کے ذریعے تشکیل پایا ہے جہاں انصاف کو غیر منصفانہ طور پر دیکھا گیا ہے، نے عوام کے عدالتی نظام کوٹھیس پہنچائی ہے اور معاشرے میں خطرناک تقسیم کو جنم دیا ہے۔
اس عدم مساوات کی ایک نمایاں مثال ریمنڈ ڈیوس کا کیس ہے، جو سی آئی اے کا کنٹریکٹر تھا اور جس نے 27 جنوری 2011 کو لاہور میں دو پاکستانیوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ اس کے جرم کی سنگینی کے باوجود، ڈیوس کو مبینہ طور پرمقتولین کے خاندانوں کو پاکستان کے قصاص اور دیت قانون کے تحت "دیت" قبول کرنے پر مجبور کیے جانے کے بعد رہا کر دیا گیا۔ ملک سے اس کا فوری طور پر نکل جانا، جسے غیر ملکی اثر و رسوخ اور سیاسی دباؤ نے ممکن بنایا، بہت سے پاکستانیوں کو ناراض کر گیا۔ اس واقعے نے اس تاثر کو مزید مضبوط کیا کہ طاقتور افراد انصاف سے بچ سکتے ہیں جبکہ عام شہریوں پر قانون کا پورا وزن پڑتا ہے۔
دیت، جسے خون بہا بھی کہا جاتا ہے، اسلامی قانونی تصور ہے جو قرآن و سنت سے جڑا ہوا ہے اور مقتول کے خاندان کو ادا کی جانے والے معاوضہ کی رقم کے طور پر جانا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں سورہ البقرہ (2:178) میں قصاص کا اصول بیان کیا گیا ہے، لیکن ساتھ ہی معافی اور دیت قبول کرنے کا اختیار بھی دیا گیا ہے۔ دیت کی رقم عام طور پر 100 اونٹ یا ان کی مالی قدر کے برابر ہوتی ہے، اگرچہ یہ حالات اور معاشی پس منظر کے لحاظ سے مختلف ہو سکتی ہے۔ سنت رسول اللہ (ﷺ) اس موضوع پر مزید روشنی ڈالتی ہے، جس میں انصاف، انصاف پسندی اور زندگی کے تحفظ کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔ دیت نہ صرف مالی معاوضہ ہے بلکہ یہ معاشرے میں مصالحت اور معافی کو فروغ دینے کا ذریعہ بھی ہے۔ تاہم، ریمنڈ ڈیوس جیسے کیسوں میں، دیت کے اطلاق کو بااثر افراد کی طرف سے استعمال کیا جاتا ہے، جس سے اس کے انصاف اور رحمت کے اصل مقصد کو نقصان پہنچتا ہے۔
ریمنڈ ڈیوس نے اپنی رہائی کے بعد "دی کانٹریکٹر" کے نام سے ایک کتاب لکھی، جس میں اس نے پاکستان میں اپنی قید کی تفصیلی کہانی بیان کی اور ملک کے قانونی اور عدالتی نظام کا مذاق اڑایا۔ ڈیوس نے بیان کیا کہ کس طرح دن دیہاڑے دو پاکستانی شہریوں کو قتل کرنے کے بعد وہ جلدی سے جیل سے رہا ہو گیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس نے نظام کو کتنی آسانی سے ہینڈل کیا۔ اس کی کتاب نے نہ صرف قانونی عمل میں موجود خامیوں کو بے نقاب کیا بلکہ اس بات کو بھی اجاگر کیا کہ طاقتور افراد کس طرح انصاف سے بچ سکتے ہیں۔ اس کی کتاب نظام میں گہرے نقائص کی واضح یاد دہانی ہے اور یہ کہ تمام افراد کے لیے انصاف کو برابر طور پر لاگو کرنے کے لیے اصلاحات کی فوری ضرورت ہے۔
اسی طرح، شاہ رخ جتوئی کا کیس بھی جو کہ ایک امیر نوجوان تھا اور جس نے 25 دسمبر 2012 کو یونیورسٹی کے طالب علم شاہ زیب خان کو قتل کر دیا، قانونی نظام کی غیر مساوی اطلاق کی ایک اور مثال ہے۔ موت کی سزا ملنے کے باوجود، جتوئی نے قانونی داؤ پیچ کے ذریعے اپنے سزا سے بچنے میں کامیابی حاصل کی، جس میں ایک مشتبہ طبی رپورٹ بھی شامل تھی جس میں اسے جرم کے وقت کم عمر قرار دیا گیا تھا اور آخر کار مقتول کے خاندان کے ساتھ عدالت سے باہر تصفیہ کر لیا گیا تھا۔ یہ کیس اس بات کو اجاگر کرتا ہے کہ کس طرح دولت اور اثر و رسوخ کے ذریعے قانونی نظام کو مبینہ طور پر ہیر پھیر کیا جا سکتا ہے، جتوئی کی رہائی کو وسیع پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا کیونکہ یہ اس بات کی مثال تھی کہ کس طرح امیر لوگ سزا سے بچنے کے لیے اپنا راستہ خرید سکتے ہیں۔
ایک اور حالیہ مثال نتاشہ کا کیس ہے، جو کراچی کی رہائشی اور ایک امیر تاجر کی بیوی ہے، جس کا نام ایک المناک ہٹ اینڈ رن حادثے کے بعد شدید تنقید کی زد میں ہے۔ رپورٹس کے مطابق نتاشہ نے چار یا پانچ افراد کی جان لے لی، لیکن وہ مبینہ طور پر اپنے مالی وسائل اور روابط کا استعمال کرتے ہوئے متاثرین کے خاندانوں کو دیت کی پیشکش کر رہی ہے تاکہ معاملہ عدالت سے باہر نمٹ جائے۔ مزید برآں، ایسی افواہیں ہیں کہ وہ جلد ہی ملک چھوڑنے کا ارادہ رکھتی ہے تاکہ قانونی کارروائیوں سے بچ سکے۔ یہ کیس بڑے پیمانے پر تشویش کا باعث بنا ہے، اور بہت سے لوگ اس نظام کی منصفانہہیت پر سوال اٹھا رہے ہیں جو امیر لوگوں کو اتنی آسانی سے انصاف سے بچنے کی اجازت دیتا ہے۔ نتاشہ کا کیس پاکستان میں قانون کے اطلاق میں موجود گہری عدم مساوات کی ایک اور واضح مثال ہے۔
ایسی عدم مساوات کا معاشرے پر گہرا اثر ہوتا ہے۔ جب عوام محسوس کرتے ہیں کہ قانون سب کے لیے یکساں طور پر لاگو نہیں ہوتا تو وہ عدالتی نظام اور ریاست پر مجموعی طور پر اعتماد کھو دیتے ہیں۔ اعتماد کی یہ کمی معاشرتی نظم و ضبط میں خلل ڈال سکتی ہے، کیونکہ افراد محسوس کر سکتے ہیں کہ انہیں اپنے معاملات خود نمٹانے پڑیں گے یا انصاف کے حصول کے متبادل ذرائع اپنانے پڑیں گے۔ دوہرے قانونی نظام کا تصور—ایک امیر اور طاقتور کے لیے اور دوسرا غریب اور کمزور کے لیے—ایک ایسی ناانصافی کا احساس پیدا کرتا ہے جو ناراضگی اور معاشرتی بدامنی کو جنم دے سکتا ہے۔
علاوہ ازیں، جب بااثر افراد کو آسانی سے انصاف سے بچتے ہوئے دیکھا جاتا ہے، تو یہ دوسرے بااختیار افراد کے لیے خطرناک مثال قائم کرتا ہے۔ یہ ان لوگوں کو ہمت دیتا ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ بے گناہی کے ساتھ کام کر سکتے ہیں، یہ جانتے ہوئے کہ قانون ان کی ضرورتوں کے مطابق مڑ سکتا ہے یا ٹوٹ سکتا ہے۔ یہ نہ صرف بدعنوانی اور قانون شکنی کی ثقافت کو فروغ دیتا ہے بلکہ ایک منصفانہ اور مساوی معاشرے کی بنیادوں کو بھی کمزور کرتا ہے۔
ایسی عدم مساوات کو فروغ دینے میں متعدد کرداروں کا عمل دخل ہوتا ہے، جس میں قانون نافذ کرنے والے ادارے، عدلیہ اور حتیٰ کہ بااثر شخصیات بھی شامل ہیں۔ ان اداروں میں بدعنوانی طاقتور افراد کو انصاف سے بچنے کے قابل بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ رشوت، دباؤ اور سیاسی دباؤ، سب قانون کے منتخب اطلاق میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں، اس یقین کو مزید تقویت دیتے ہیں کہ پاکستان میں انصاف سب کے لیے یکساں طور پر نہیں ہوتا۔
اس مسئلے کے حل کے لیے ضروری ہے کہ قانون کی حکمرانی کو مضبوط بنایا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ یہ تمام شہریوں پر یکساں طور پر لاگو ہو، قطع نظر ان کے سماجی مقام یا دولت کے۔ اس کے لیے نہ صرف قانونی نظام کی اصلاح ضروری ہے تاکہ بدعنوانی کا خاتمہ ہو اور غیر جانبداری کو یقینی بنایا جا سکے بلکہ ان لوگوں کو بھی جوابدہ ٹھہرانا ضروری ہے جو طاقت میں ہیں۔ عوام کے عدالتی نظام پر اعتماد کی بحالی کے لیے شفافیت اور احتساب کو ہر کوشش میں سر فہرست ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ، قانون کو کس طرح سمجھا جاتا ہے اور لاگو کیا جاتا ہے، اس میں ثقافتی تبدیلی کی بھی ضرورت ہے، جس میں انصاف، انصاف پسندی اور مساوات کے اصولوں پر زور دیا جائے۔
آخر میں، پاکستان میں یہ تاثر کہ قانون کمزوروں کو غیر متناسب طور پر متاثر کرتا ہے جبکہ طاقتوروں کو فرار کے راستے فراہم کرتا ہے، قانونی نظام کے اندر گہرے عدم مساوات کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ عدم مساوات نہ صرف معاشرے کو بگاڑتی ہے بلکہ انصاف کے تصور کو بھی کمزور کرتی ہے۔ ایک زیادہ منصفانہ اور مساوی معاشرہ بنانے کے لیے، ان عدم مساوات کو دور کرنا ضروری ہے اور یہ یقینی بنانا ضروری ہے کہ قانون تمام شہریوں پر یکساں اور غیر جانبدارانہ طور پر لاگو ہو، قطع نظر ان کے مقام یا اثر و رسوخ کے۔ صرف اسی صورت میں عدالتی نظام پر اعتماد بحال ہو سکتا ہے اور قانون کی حکمرانی واقعی برقرار رہ سکتی ہے۔
[1:56 PM, 8/25/2024] Gn But Sb: 

ای پیپر دی نیشن