عدالتوں اور ایوانوں کے دروازوں پر کْنِنْدَہ کروادیں      

Aug 26, 2024

رقیہ غزل


کالم : حسب موقع   ازقلم : رقیہ غزل 
ابھی تو ہم بھارتی ہسپتال میں لیڈی ڈاکٹر کے بہیمانہ اور لرزہ خیز ریپ و تشدد کی دلسوز واردات سن رہے تھے اور بھارت و پاکستان کے صحافی حقائق تلاش کر رہے تھے کہ وہ لڑکی جو مسیحائی کا لبادھا اوڑھے سینکڑوں افراد کی جانیں بچا رہی تھی اس کے ساتھ ایسا ہولناک سانحہ کیوں اور کیسے پیش آیا اور اتنے بڑے ہسپتال میں کسی کو بھنک بھی نہ پڑی کہ اک صدا ئے بے نوا نے ہمیں جھنجھوڑ دیا کہ’’ تجھے پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ توں ‘‘ پاکستان کے اہم سرکاری گنگا رام ہسپتال میں زیر علاج ۵ سالہ کمسن کلی کو ایک درندے نے مسل ڈالا۔۔قلم کانپ جاتا ہے اور الفاظ نہیں ملتے مگر افسوس۔!وحشی درندے بے خوف انسانی شکل میں گھوم رہے ہیں مگر کوئی آئینی ترمیم یا سخت قوانین ان درندوں کو لٹکانے کے لیے نہیں بنائے جاتے۔یہ سانحہ کیا کم روح فرسا تھا کہ ایک بڑے سرکاری ہسپتال میں زیر علاج چھوٹی سی بچی کو سویپر نے ہوس کا نشانہ بنا ڈالا چونکہ غریب بچی کا معاملہ تھا تو ینگ ڈاکٹرز کے احتجاج کے باوجود بہت زیادہ کوریج اور عوامی توجہ حاصل نہ کر سکا حالانکہ احتجاجی چیختے رہے کہ انتظامیہ مجرم کو بچانے کے لیے حفاظتی اقدام کر رہی ہے لیکن ہم انصاف لیں گے۔۔کیسا انصاف۔۔؟؟؟ ’’تو کہ ناواقف آداب غلامی ہے ابھی ‘رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے‘‘ رقص ہی تو ہے جو ہم سب کر رہے ہیں ‘ بظاہر آزاد ہیں مگر ایسے جکڑے ہوئے ہیں کہ آہ بھی کریں تو بد نام کر دیے جاتے ہیں اور اگر سر اٹھائیں تو اندھی گولیوں سے بھون دیے جاتے ہیں مزید طاقتوروں کو غصہ آجائے تو الٹا ہم مظلوموں کو عبرت بنا دیا جاتا ہے۔۔دیس کوئی بھی ہو۔۔’’ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات ‘‘اشرافیہ کے لیے غریب کیڑے مکوڑوں سے بھی بدتر ٹھہرے کہ سر عام دولت اور ہوس کے نشے میں اپنی عالیشان گاڑیوں میں کچل جاتے ہیں جیسا کہ گل احمد کے مالک کی بیوی نے نشے میںپانچ افراد کو کچل د یا اور ڈھٹائی سے پیسے پھینک کر لہو کی قیمت لگائی اور پانچ سے زائد کمپنیوں کی مالک مجرمہ نتاشا عدالت سے ذہنی مریضہ کا سرٹیفکیٹ لیکر بیرون ملک جا چکی ہے۔۔منصفوں کے دوہرے معیارکا کیا کہنا جو طاقتوروں کو ذہنی مریض کہہ کر ان کی طاقت دوگنی کر دیتے ہیں اور کمزوروں کو دہشت گرد کہہ کر کمزور بنا دیتے ہیں۔تبھی تو اب تو ہمارے معیارات دیکھ کر یہود و ہنود بھی پوچھتے ہیں کہ تم مسلمان ہو ؟؟؟ 
میرا ارادہ اس موضوع پر لکھنے کا بالکل نہیں تھا لیکن مجھے ایسا لگا کہ ریپ و تشدد جرائم غریب پر جاری معاشی ظلم و ستم جیسے ہیں کہ اس کو طاقتوروں کی تقسیم درندوں کی طرح بھنبھوڑ رہی ہے اور اس کی چیخ و پکار سے وطن کی فضائیں بین کرتی ہیں مگر کرتا دھرتا آوا ز نہیں سنتے بلکہ بھوک و ننگ سے لتھڑی تصویریں اور زخم خوردہ احتجاجی لاشیں خبریں بنا کر بیچی جاتی ہیں۔۔ایسی بے حسی کہ دل چیخ کر کہتا ہے ’’زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے‘ ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے ‘‘ لیکن دوسرے لمحے خیال آتا ہے کہ ’’مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے ‘‘اب تو لاشیں بھی ہوس زندہ درندوں سے محفوظ نہیںکیونکہ مجرم دندناتے پھرتے ہیں اور کسی کو بھی عبرت نہیں بنایا جاتا بلکہ ایسے مجرموں کو محفوظ راستہ فراہم کیا جاتا ہے بایں وجہ زیادتی و تشد کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔بھارت تو پہلے ہی خواتین کے لیے سب سے زیادہ غیر محفوظ ملک ہونے کی بنا پر ’’ریپستان‘‘کا خطاب پاچکا ہے پھر بھی ڈاکٹر مومیتا کا بیہمانہ قتل بھارتی تاریخ کا سب سے زیادہ ہولناک سانحہ ہے کہ ایک جوان بچی کو تقریباً بیس سے زیادہ افراد نے اپنی ہوس کا نشانہ بنایا اور اس کے بعد موت کے گھاٹ اتار دیا جو کہ ایک اہم سرکاری ہسپتال کی ڈاکٹر بھی تھی اور اسی ہسپتال کے سیمینار ہال میں درندوں کی وحشت اور حیوانیت کا شکار ہوگئی جہاں وہ سینکڑوں افراد کی زندگیاں بچا چکی تھی اور اس رات بھی مسیحائی کے فرائض ادا کرنے کے بعد تھک کر چند لمحوں کے لیے سوگئی تھی۔وہ کیاجانتی تھی کہ یہ نیند اس کے لیے ہمیشہ کی نیند ثابت ہوگی۔۔یقینا یہ سانحہ اس قدر ہولناک اور لرزہ خیز ہے کہ پورے بھارت میں احتجاج ہورہا ہے مگر انتظامیہ اور اثر و رسوخ رکھنے والے اس واردات کے مرکزی مجرم کو ذہنی مریض قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں اس لیے اس کی تفتیش بھی اسی انداز میں ہورہی ہے۔جہاں پورا ملک سراپا احتجاج ہو وہاں بھی مجرموں کے بچا? کے لئے ہتھکنڈے استعمال ہو رہے ہوں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ بے دین معاشرہ ہے اسلئے انصاف کی موت ہورہی ہے لیکن کیا ہمارے مسلم معاشرے میں عصمتوں کے لٹیروں کیلیے شرعی سزائیں موجود ہیں اور کیا کبھی کسی کو عبرت بنایا گیا ہے جو کہ اسلامی ریاست کا فرض تھا۔۔ہر گز نہیں !ہم بس نوحے لکھ سکتے ہیں جو تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں اور حکمرانوں اور منصفوں کی بے حسی پر سوالیہ نشان رہیں گے۔۔
 جنسی استحصال ایک پرتشدد انتہائی ظالمانہ نا قابل معافی فعل ہے جو سخت سے سخت سزا کا متقاضی ہے مگر دیکھا گیا ہے کہ اس پر جب بھی بات ہوتی ہے توبحث و مباحثے میں الجھا کر مجرمان کو جواز فراہم کر تے ہوئے شرعی سزا سے پہلو تہی اختیار کی جاتی ہے سمجھ نہیں آتی کہ ہمارے ملک میں ایسے خوفناک جرم پر شرعی سزا دینے میں کیا رکاوٹ ہے اور کونسی ایسی انسانیت ہے جو ایسی حیوانیت پر بھی مجرمان کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے جبکہ ایسے مجرم ملک و قوم کیلئے ناسور ہوتے ہیں اورماہرین نفسیات کے مطابق بھی ان کے پاس کسی کے درد کا احساس نہیں ہوتا، اپنے تئیں مفروضے گھڑ تے ہیں اورانھی کی بنیاد پر جنس مخالف کو چیلنج سمجھ لیتے ہیں پھر اپنے ہر جرم کی کوئی نہ کوئی دلیل بھی تلاش لیتے ہیں جس سے خود کو مطمئن کر لیتے ہیں۔ مختلف واقعات کا جائزہ لیں تو یہی سامنے آتا ہے کہ ہر سرکش ریپ جنسی جذبات کی تسکین کے لیے کم بلکہ طاقت کے اظہار کے لیے زیادہ کرتا ہے اور اسے یہ طاقت قانونی کمزوری دیتی ہے یعنی اس کے ذہن میں سزا کا خوف نہیں ہوتابلکہ یقین ہوتا ہے کہ وہ دے دلا کرچھوٹ جائے گا اگر آپ ریپ کیسسز ڈیل کرنے والے تفتیشی افسران سے ملیں تو وہ آپ کو لازماً بتائیں گے کہ ایسے کیسسز کو سنجیدہ نہیں لیاجاتا جس کیوجہ سے مجرمان پکڑے نہیں جاتے اور سزا بھی نہیں پاتے بالفرض سزا ہو بھی جائے تو اچھا وکیل کر کے ساز باز کر کے چھوٹ جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جوہمارے ملک میں جو ایک بار جیل چلا جاتا ہے پھر وہ گینگسٹر بن کر نام پاتا ہے کچھ انصاف کا معاملہ بھی مشکوک ہے کہ دیکھا گیا ہے کہ پھانسی کی سزا انھیں ہوئی جنھیں فوت ہوئے کافی سال گزر چکے تھے تو ایسے میں اس جرم کے سد باب کے لیے عبرتناک شرعی سزاہی وقت کی ضرورت ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو پاکستان بھی ریسپستان لسٹ میں شامل کر دیا جائے۔
میں نے کل بھی لکھا تھا آج پھر لکھ رہی ہوں کہ ہمارا سیاسی و ملکی نظام کرپشن اور لاقانونیت کا ایساگڑھا بن چکا ہے جو تبتک نہیں بھرے گا جبتک ہماری عدالتوں اور ایوانوں کی دیواروں پر یہ فرمان رسولکنندہ نہیں کئے جائیں گے کہ :تم سے پہلی قومیں اس لئے تباہ ہوگئیں کہ کوئی معززچوری کرتا تواسے چھوڑ دیتے اوراگر کمزور چوری کرتا تواسے سزا دیتے۔۔۔۔۔۔

مزیدخبریں