سراغرساں کتے

اندر کی بات
شہباز اکمل جندران

ہر ملک  کا اپنا ایک نظامِ جاسوسی ہے۔ جو اس جدید دور میں اب سائینٹفک بنیادوں پر کام کرتا ہے۔ پرانے وقتوں میں چوری چکاری کا ارتکاب کرنے والوں کی تلاش کے لیے ماہر کھوجیوں کی خدمات حاصل کی جاتی تھیں۔ جو جائے وقوعہ پر قدموں کے نشانات سے چور کا سراغ لگا لیتے تھے۔ کْھرا ڈھونڈتے ہوئے اُس کے گھر تک جا پہنچتے تھے۔ ہندوستان میں راجے مہاراجے بھی محلوں میں قیمتی اشیاء کی چوری پر شہر کے نامور کھوجیوں کو بلاتے جو کْھرا تلاش کرتے ہوئے چور تک پہنچ جاتے تھے۔
ڈکشنری میں سراغ رسانی کا مطلب جستجو کر کے کسی چیز کا پتہ چلانا بیان کیا گیا ہے۔ سراغ رسانی سے مراد اصل حقیقت یا کسی ٹھکانے کا دریافت کرنا لینا بھی ہے۔ موجودہ دور میں سراغرسانی کی بڑی اہمیت ہے۔ بین الاقوامی سطح پر ہر ملک کے خفیہ ادارے ہیں جو اپنے ملک کے لیے ہر طرح کی معلومات اکٹھی کرنے کے لیے جاسوسی یا سراغرسانی کا کام انجام دیتے ہیں۔ امریکی سی آئی اے دنیا بھر میں سراغرسانی کے لیے مشہور ہے۔ ’’را‘‘ انڈیا ، ’’موساد‘‘ اسرائیل جبکہ  آئی ایس آئی پاکستان میں انٹیلی جنس کے خفیہ ادارے ہیں۔ آئی ایس آئی ایسا خفیہ ادارہ ہے جس کی پاکستان کے لیے بڑی خدمات ہیں۔ حکومت اور سیکورٹی فورسز اس کے ذریعے دشمن کی مذموم سرگرمیوں سے آگاہ رہتے ہیں۔ خفیہ اطلاعات پر جہاں ملک دشمن عناصر کے خلاف کارروائی ضروری ہو، وہاں کارروائی بھی کی جاتی ہے۔
سراغ رساں درحقیقت ایسا انسان ہوتا ہے جو عام الفاظ میں کھوجی یا محقق کہلاتا ہے۔ یہ سراغ رساں پولیس، کسی خفیہ ادارے یا نجی ایجنسی سے وابستہ ہوتے ہیں۔ بعض اوقات، ان کی خدمات انفرادی طور پر بھی لی جاتی ہیں۔ بیشتر سراغ رساں افسانوں کی زینت بھی بنتے آئے ہیں۔ کچھ سراغ رساں ایسے بھی ہیں جو پولیس کے لیے خفیہ طور پر کام کرتے ہیں۔ ویسے پولیس میں ایک محکمہ ’’سپیشل برانچ‘‘ کا بھی ہے ، اس میں پولیس ہی کے لوگ ہوتے ہیں لیکن سادہ کپڑوں میں ملبوث اپنی شناخت ظاہر کئے بغیر معلومات تک رسائی کے لیے انٹیلی جنس کا کام سرانجام دیتے ہیں۔ ان کے پاس مختلف شخصیات کی فائلیں اور ڈیٹا ہوتا ہے۔ ان سے متعلق جو بھی ضروری معلومات درکار ہوں۔ سپیشل برانچ کے سراغ رساں خفیہ طریقے سے وہ ’’معلومات‘‘ حاصل کر کے اپنے افسران اور حکومت کے مختلف اداروں تک پہنچاتے ہیں۔ ایسا کرنا سرکاری طور پر سپیشل برانچ کے اہلکاروں اور افسروں کی ذمہ داری اور فرائض منصبیِ میں شامل ہے۔ کچھ پرائیویٹ سراغ رساں ایسے بھی ہیں جو سپیشل برانچ کے لیے معاوضے کے عوض کام کرتے ہیں۔ ان کا تعلق مختلف شعبہ ہائے زندگی سے ہوتا ہے۔ دیگر ممالک میں سراغ رساں کے طور پر کام کرنے کے لیے لائسنس کی ضرورت پڑتی ہے۔ تاہم کچھ ممالک ایسے بھی ہیں جہاں جرائم کی گتھیاں سلجھانے کے لیے کسی لائسنس کی ضرورت نہیں ہوتی۔
مصنف سر آرتھر کوئن کے لکھے افسانوں میں شرلاک ہومز کو ایک مشورہ گیر سراغ رساں کے طور پر پیش کیا گیا ہے  جو سراغ رساں اپنے کام کے بدلے دیہاڑی کی اجرت مانگتا ہے۔ کوئن کی تحریروں کے مطابق ایک مشورہ گیر سراغ رساں مفت کام کر کے قانون دانوں کی مدد کرتا ہے۔ چنانچہ ’’ہولمز‘‘ کا کردار اپنی تحقیق کے بدلے اجرت نہیں مانگتا تھا۔
سائنس نے جہاں ترقی کی اور سراغ رسانی کے لیے حکومت اور اداروں کے پاس جدید آلات آ گئے وہاں اس جدید دور میں کتوں سے بھی اب سراغ رسانی کا کام لیا جا رہا ہے۔ سراغ رسانی کا کام انجام دینے والے یہ کتے بہت تربیت یافتہ ہوتے ہیں۔ ایف آئی اے،کسٹم،ایئر پورٹ کا سیکورٹی سٹاف، حتیٰ کہ سپیشل برانچ اور پولیس کے لوگ بھی سراغ رسانی کے لیے اب ان تربیت یافتہ سراغ رساں کتوں کا استعمال کرتے ہیں۔
سائنس کے مطابق دنیا کا کوئی بھی کتا، چاہے وہ کسی بھی نسل سے ہو، صرف خوشبو اور بدبو سونگھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس صلاحیت سے لیس کرنے کے لیے کسی بھی کتے کو بچپن سے ہی کچھ مخصوص اور کچھ مشکل مراحل سے گزار کر اس کی تربیت کی جاتی ہے۔ کسی بھی کتے کو ایک صلاحیت کے علاوہ کسی دوسری صلاحیت کے لیے تربیت نہیں دی جا سکتی۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں جاسوس کتے جن مقاصد کے لیے زیادہ استعمال کئے جاتے ہیں، اُن میں منشیات، بارود، لاش کی خوشبو یا بدبو سونگھ کر ملزم کا سراغ لگانا شامل ہے۔ جس کتے کو منشیات یا بارود کی بو سونگھنے کی ٹریننگ حاصل ہوتی ہے وہ لاش کی بو نہیں سونگھ سکتا۔ مطلب یہ کہ ایک کتے کے پاس ایک ہی مہارت ہوتی ہے۔ کتوں کے ذریعے چوروں اور ڈاکوئوں کو پکڑنا فلمی کہانیوں میں تو ہو سکتا ہے ، ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
ہمارے ہاں جب کسی علاقے میں جرم ہوتا ہے تو لوگ اپنے تئیں سراغ رساں کتوں کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔ یہ سراغ رساں ڈاگ سنٹر اوکاڑہ، ساہیوال، اور ملتان میں موجود ہیں۔ ان کھوجی کتوں کو بیس سے تیس ہزار روپے کے عوض جرم والے علاقوں میں لے جایا جاتا ہے۔ جائے وقوعہ پر ان کتوں کو کچھ کپڑے اور چند دیگر اشیاء سونگھائی جاتی ہیں۔پھر یہ کتے مخصوص اشاروںپر چلتے ہوئے علاقے کے ہی کسی گھر میں داخل ہوتے ہیں اور اندر جا کر گھر کے صحن یا کسی کمرے میں بیٹھ جاتے ہیں۔ یہ اس بات کا اعلان ہوتا ہے کہ مجرم کا تعلق اسی گھر سے ہے۔ اس امر کو یقینی بنانے کے لیے کہ کھوجی کتے سے کوئی غلطی تو نہیںہوئی اور کوئی بے گناہ نہ پکڑا جائے، ڈاگ سنٹر کا مالک ایک بار پھر متاثرہ شخص سے معاوضہ وصول کرتا  ہے۔ کتے کو دوبارہ چھوڑا جاتا ہے۔ نتیجہ اس بار بھی وہی پہلے جیسا ہوتا ہے۔ اب متاثرہ شخص ، علاقے کے معززین اور دیگر لوگوں کو مکمل یقین ہو جاتا ہے کہ مجرم اسی گھر کا کوئی فرد ہے۔ اس کے بعد اس گھر سے کسی ایسے نوجوان کو پکڑا جاتا ہے جس کی شہرت علاقے میں اچھی نہیں ہوتی۔ مدعی اور اہل علاقہ ’’مجرم‘‘ کی دریافت پر اکثر موقع پر ہی اُس کو ’’پھینٹی‘‘ لگانا شروع کر دیتے ہیں۔
کتوں کا یہ فراڈ ہے کیا، انہیں کس طرح ایک مخصوص گھر میں پہنچا کر بٹھا دیا جاتا ہے۔ اس پر بعد میں بات ہو گی۔ پہلے یہ بتا دوں کہ ان ’’جاسوس‘‘ کتوں کے نام پر پکڑے گئے ملزم کو عدالت ملزم نہیں مانتی۔ ان سراغ رساں کتوں کی شہادت کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ سپریم کورٹ اکتوبر 2016ء میں جاسوس کتوں کے نام پر چلنے والے اس کاروبار پر پابندی لگا چکی ہے۔ مطلب یہ کہ سراغ رساں کتوں کا کاروبار کرنے والے اور مختلف شہروں میں ’’کھوجی ڈاگ سنٹر‘‘ کے نام سے دفتر کھولنے والے ڈھونگی اور فراڈئیے ہیں۔
ہوتا کچھ یوں ہے کہ ان ڈاگ سنٹرز کے مالکان رابطہ کرنے پر متاثرہ شخص سے جرم کی تفصیلات پوچھتے ہیں۔ یہ بھی سوال کرتے ہیں، علاقے میں کس پر شک ہے؟ متاثر ہ شخص یا خاندان کو جس پر شک ہوتا ہے اُس کی تفصیلات لے لی جاتی ہیں۔
کارروائی کا آغاز کچھ اس طرح ہوتا ہے کہ کتے کو جائے وقوعہ سے مٹی اور کپڑے سونگھانے کی بوگس کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے۔ ٹرین کتے کی  رسی ڈاگ سنٹر کا مالک اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے۔ پھر کتا مجرم پکڑنے نکل کھڑا ہوتا ہے۔ یہ سدھائے ہوئے کتے مخصوص لفظ پر دائیں مڑتے ہیں۔ دوسرا مخصوص لفظ بولا جائے تو بائیں مڑتے ہیں۔ تیسرا مخصوص لفظ بولنے پر سیدھا چلنے لگتے ہیں۔ اسی طرح پھر ایک مخصوص لفظ بولنے پر جس جگہ ہوں، وہیں بیٹھ جاتے ہیں۔
یہ لفظ کیا ہیں؟
’’کام کرو‘‘ کے الفاظ پر کتے سیدھا چلتے ہیں۔
’’چیک کرو‘‘ بولنے پر دائیں مڑتے ہیں۔
’’دوبارہ چیک کرو‘‘ کے الفاظ پر بائیں مڑ جاتے ہیں۔
جبکہ ’’فائنل کرو یا تلاش کرو‘‘ کے الفاظ پر کتے جہاں ہوتے ہیں، وہیں بیٹھ جاتے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اوپر درج کئے گئے الفاظ میں ہی ان سراغ رساں کتوں کی ساری فنکاری چھپی ہوتی ہے۔ مخصوص کوڈورڈز پر سدھائے ہوئے کتوں سے کام لیا جاتاہے۔ لوگ بیوقوف بنتے ہیں اور ڈاگ سنٹر کے مالکان کے جھانسے یا فراڈ میں آ کر مزید رقم سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
تاہم یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ فوج، ایف آئی اے اور انٹیلی جنس اداروں کے پاس جو تربیت یافتہ کتے ہیں، اُن کے آگے جدید مشینیں بھی فیل ہو گئی ہیں۔ یہ سراغ رسانی کتے بہت ساری ٹریننگ و تربیت کے بعد بآسانی منشیات اور بارود وغیرہ کا سراغ لگا لتے ہیں۔ بوسونگھ کر اُس جگہ کی نشاندہی کردیتے ہیں جہاں بارود یا منشیات موجود ہوتی ہیں۔ ڈاگ سنٹر والے تو محض فراڈ ئیے ہوتے ہیں۔ ہر متاثرہ خاندان کو ان سے بچنے کی انفارمیشن ہونی چاہیے۔

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...