981  برس سے داتا گنج بخشؒ کی روشن شمع ارادت وعقیدت


گوشہ تصوف…  ڈاکٹر ظہیر عباس قادری الرفاعی 
drzaheerabbas1984@gmail.com


400 ہجری کو ولادت ہوئی‘ 465 ہجری کو مخلوق خدا کی خدمت‘ ہدایت اور رہنمائی کا فریضہ ادا کرکے خدا کی جناب میں پیش ہوگئے۔ 65 برس کی ریاضت‘ عبادت خدمت وسیادت میں دنیا انہیں مخدوم اولیاء اور شیخ الہند کے نام سے یاد کرتی ہے اور کرتی رہے گی۔ برصغیر میں آپ کا تعارف داتا گنج بخش ؒکے نام سے معروف ہے۔ 981 برس سے دنیا محبت ‘ عقیدت اور ارادت کے چراغ روشن کرنے لاہور کا رخ کر رہی ہے ۔ حضرت علی ہجویری داتا گنج بخشؒ کا سہ روزہ سالانہ عرس مبارک 24 اگست2024 سے جاری ہے۔ پاکستان اور پاکستان کے باہر سے ارادت مند محبتوں کی مالائیں لئے داتا کی نگری کا رخ کررہے ہیں۔ غریب نواز حضرت معین الدین چشتی اجمیری ؒنے کیا کہا اور خوب کہا!!
گنج بخشؒ فیض عالم مظہر نور خدا
ناقصاں راں پیرکامل کاملاں را رہنما
شیخ سیّد علی ہجویریؒکی زندگی کے حالات کا آپؒ کی معرکتہ لآراتصنیف کشف المحجوب سے پتہ چلتا ہے،آپؒ کی ولادت اُس دور میں ہوئی جب سلطان محمود غزنوی کی حکومت کے آخری دن تھے۔؎ آپؒ کا سلسلہ نسب حضرت حسنؓ سے جا کر ملتا ہے اس لئے آپؒ ہاشمی حسنی سادات ہیں۔ ابتدائی تعلیم گھر میں ہی حاصل کرنے کے بعد روحانی تعلیم و تربیت حاصل کرنے کے لئے دور دراز علاقوں اور ملکوں کا پیدل سفر اختیار کیا ۔ مختلف دینی مدرسوں، عالموں، بزرگوں اور اللہ کے نیک بندوں سے نہ صرف دینی تعلیم حاصل کی بلکہ اُن کی صحبت میں رہ کر اُن سے فیض بھی حاصل کیا۔ ایران، ترکستان، عراق، بغداد، شام اور عرب کے دور دراز علاقوں کا سفر اختیار کیا۔ اس دوران ہر قسم کی سفر کی صعوبتیں برضا و خوشی برداشت کیں۔ اس طرح اُن کے کردار میں پختگی اور شخصیت میں بزرگی اُبھر کر سامنے آ گئی۔ خراسان میں تین سو مشائخ کی خدمت میں حاضر ہو کر اکتسابِ فیض حاصل کیا۔ تحصیلِ علم کے بعد مرشد کامل کی تلاش میں دور دراز علاقوں کا پُرخطر سفر اختیار کیا اور آخر کار شیخ کامل کو پانے میں کامیاب ہو گئے۔ اور اُن کے حسنِ تربیت اور فیضِ نظر سے آفتابِ ہدایت بن کر طلوع ہوئے۔ آپؒ کے اُستاد شیخ کامل کا نام شیخ ابوالفضل بن حسن ختلی تھا جو سلسلئہ جنیدیہ سے منسلک تھے۔ شیخ علی ہجویریؒ لکھتے ہیں کہ "اُن کے شیخ تصوف میں حضرت جنید کا مذہب رکھتے تھے اور طریقت میں میری بیعت الہیٰ سے ہے"۔ آپؒ نے کئی سالوں تک اپنے مرشد کی خدمت کی۔ اور جب اُن کا انتقال ہوا تو اُن کا سر اپنے شاگرد سیّد علی ہجویریؒ کی گود میں تھا۔ آپؒ کے قابلِ ذکر اُستادوں میں ابوسعید ابوالخیر اور امام ابو القاسم قشیری شامل ہیں۔ جب آپؒ نے خود دینوی اور روحانی علوم پر دسترس حاصل کر لی تو دوسروں کی رہنمائی کے لئے ان صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا پختہ عزم کر لیا۔خواب میں ملنے والی پیر و مرشد کی ہدایات کے مطابق آپؒ نے لاہور کا سفر اختیار کیا۔ 431ہجری میں لاہور پہنچے تو خواجہ حسن زنجانی اس جہانِ فانی سے رحلت فرما گئے اور اُن کی نمازِ جنازہ آپؒ نے پڑھائی۔ لاہور میں مستقل سکونت اختیار کر لی اور سب سے پہلے ایک مسجد تعمیر کرائی۔ جب آپؒ بت کدہ ہند میں تشریف لائے تو آپؒ کے ساتھ دو مونس و غمخوار دوست بھی تھے جن کے نام شیخ احمد سرخئی اور شیخ ابو سعید ہجویری تھے۔ گو کہ آپؒ کی ہندوستان میں تشریف آوری سے پہلے شمالی ہندوستان میں اسلام کی کچھ کرنیں پہنچ چکی تھیں تا ہم اُس وقت ایک ایسے رہنما کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی تھی جو اپنی تعلیمات کے ساتھ ساتھ عملی زندگی سے لوگوں کو متاثر کر کے اسلام کو لوگوں کے دلوں میں پہنچا سکے۔ سیّد علی ہجویریؒ اور اُن کے ساتھی بظاہر تعداد میں بہت کم تھے لیکن تبلیغِ اسلام کا فریضہ سر انجام دینے میں نہ تو اُنہوں نے کسی مخالفت کی پرواہ کی نہ ہی نئے ملک نئے ماحول اور تہذیب و تمدن میں خود کو کبھی اجنبی محسوس کیا۔ آپؒ کی وفات کی تاریخ کا تعیّن حاجی لاہوری کے کتبہ سے کیا جاتا ہے۔ پروفیسر نکلسن نے آپؒ کے سنِ وفات کے بارے میںلکھا ہے کہ 456 تا 465ھ کے درمیان ہوئی۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ نے آپؒ کے مزار پر چلہ کشی کی تھی۔ حضرت نظام الدین اولیاؒ فرماتے ہیں کہ جس شخص کا کوئی اُستاد نہ ہو یہ کتاب اُس کے پاس ضرور ہونی چاہئیے کیونکہ یہ اُس کے لئے ایک اُستاد کی حیثیت رکھتی ہے۔ حضرت مولانا جامی نے سید علی ہجویریؒ اور اُن کی تصنیف کے بارے میں لکھا ہے کہ "آپؒ عالم بھی تھے اور موروز حقائق کے عارف بھی تھے۔کثیر التعداد مشائخ کی صحبت سے فیض یاب بھی ہوئے اور آپؒ کشف المحجوب کے مصنف ہیں۔اور یہ کتاب فنِ تصوف کی معتبر اور مشہور کتب میں سے ہے۔ آپؒ نے اس کتاب میں بے شمار حقائق کو جمع کر دیا ہے۔ نکلسن جونز جو کیمبرج یونیورسٹی میں عربی اور فارسی کے پروفیسر تھے اُنہوں نے کشف المحجوب کا انگریزی زبان میں ترجمہ کرنے کا اعزاز حاصل کیا ۔

ای پیپر دی نیشن