ہم پاکستانی تہذیب کی قدامت پر گفتگو کرتے ہوئے پوٹھوہار سے ڈیڑھ کروڑ سال پرانے ڈھانچے \\\"SHE\\\" کی دریافت تک جا پہنچے اور اس سلسلے میں لکھی گئی کتاب کے حوالے سے ابتدائی انسانی زندگی کا آغاز پاکستان سے ہونے کے امکان پر بات شروع کرنے ہی والے تھے کہ ایک بچے نے یہ کہہ کر ہمیں چکرا دیا کہ یہ کون سی ایسی بات ہے جس پر اتنا سر کھپایا جائے! یہ تو صاف ظاہر ہے کہ انسانی زندگی کی ابتدا پاکستان کے سوا کسی اور جگہ ہو ہی نہیں سکتی تھی! بچے کے ایقان نے ہمیں پوچھنے پر مجبور کر دیا ’وہ کیسے؟‘ تو وہ بولا دیکھیں! اس کے پاس گھر نہیں تھا، روٹی نہیں تھی، کپڑا نہیں تھا! حتیٰ کہ ایندھن بھی نہیں تھا مگر وہ زندہ تھا! اور آج تک یہ خطہ آباد ہے جبکہ آج بھی ہمیں ’گھر‘ میسر نہیں.... ’روٹی‘ کا وعدہ اپنی جگہ ہے، ’کپڑا‘ پٹھے پر ہاتھ نہیں دھرنے دیتا، گیس نہیں، بجلی نہیں مگر ہم زندہ ہیں! لہٰذا ثابت ہوا کہ ہم ڈیڑھ کروڑ برس کے تجربے کی بنا پر چلتے چلے جا رہے ہیں! اگر آپ تحقیق کریں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ پاکستان میں ابتدائی زندگی کے ساتھ ساتھ ابتدائی سیاسی زندگی کا آغاز بھی پاکستان پیپلز پارٹی کے ہاتھوں ہی ہوا ہو گا!
بچے اتنی دور کی کوڑی بھی لا سکتے ہیں! ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے! لہٰذا ہم نے محض حوصلہ افزائی کی خاطر اس کے شانے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ’میاں بچتے نظر نہیں آتے!‘ تو اس نے ہمارا ہاتھ جھٹک دیا اور کہا ’میں آپ سے دو سال بڑا ہوں! تمیز سے بات کریں! قد چھوٹا رہ جانے کا مطلب یہ نہیں کہ میری عمر نہیں بڑھی! آپ سے کہیں زیادہ کتابیں پڑھ کر پھینک چکا ہوں!‘
’بھائی جان! کتابیں پڑھنے کے بعد پھینکنا نہیں چاہئے تھیں، آپ کو!‘ ہم نے بڑی عاجزی سے کہا تو وہ بولے ’حضرت! میں جو صفحہ پڑھ لیتا ہوں اسے کتاب سے پھاڑ کر پھینک دیتا ہوں! میری یادداشت ’فوٹوگرافک‘ ہے، آپ میری پڑھی ہوئی کسی کتاب کا صرف صفحہ نمبر بولیں، میں اُس صفحے کو یوں پڑھنے لگوں گا، گویا میرے سامنے کھلا ہوا ہے!‘
ہم نے ایسے لوگوں کے بارے میں سن تو رکھا تھا مگر کوئی ایسا آدمی پہلی بار دیکھ رہے تھے! ہم بھول ہی چکے تھے کہ بات کہاں سے شروع ہوئی تھی اور یہ ’حضرت‘ کب بیچ میں آن ٹپکے تھے! کیونکہ اب وہ ہمیں گھور رہے تھے اور ہم مجسمہ¿ حیرت بنے انہیں دیکھ رہے تھے!
اور پھر، ہمیں ہوش آ گیا، ہمیں لگا کہ ہمارا قد گھٹتے گھٹتے دوبارہ تین فٹ ہو گیا ہے! اور ہمیں اصل قد تک آنے میں دوبارہ کم از کم پچپن یا ساٹھ سال تو درکار ہی ہونگے! پھر ہم نے اپنے آپ کو رعایتی نمبر دینا شروع کئے حتیٰ کہ ہمیں مادر ملتؒ اور ایوب خان کے درمیان ’انتخابی معرکہ‘ گرم ہوتا نظر آیا! ہم سڑک پر ”مادر ملت زندہ باد“ کے نعرے لگاتے پھر رہے تھے! کہ ایک دم ایک دھماکہ ہوا، ایوب خان جیت گئے، محترمہ فاطمہ جناحؒ نے ’دھاندلی‘ کے خلاف تحریک چلانے کا ارادہ ظاہر کیا تو سب گھروں میں ’دبک‘ گئے ’ایک اور قائداعظمؒ‘ کے آگے سرنگوں ہونا انہیں کیونکر پسندِ خاطر ہو سکا تھا! ایک مضبوط سیاسی شخصیت خواہ وہ ’قائداعظمؒ کی ہمشیرہ‘ ہی ہو، کیسے قبول ہو سکتا تھا؟
جناب ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف ’دھاندلی تحریک‘ چلی تو جناب بھٹو بار بار پوچھتے کہ انہوں نے ایوب خان کے خلاف تحریک کیوں نہیں چلائی؟ حالانکہ یہ تحریک صرف ’مضبوط سیاسی شخصیت‘ بھٹو کے خلاف تھی! اب جناب نواز شریف کے ساتھی بھی کہہ رہے ہیں ’جنرل مشرف کو غلط انداز میں برطرف کیا گیا! اور جناب نذر محمد گوندل کہہ رہے ہیں کہ ’جناب نواز شریف نے جنرل پرویز مشرف کا طیارہ اغواءکر کے ہمیں بھی مصیبت میں مبتلا کیا اور خود بھی مصیبت میں گرفتار ہوئے!‘
’میرے مولا! یہ کیا ہو رہا ہے؟ ایک ٹھنڈی سانس لے کر ہم نے کہا اور لگا ہم دوبارہ پورے قد کاٹھ کے ہو گئے ہیں اور ہماری عمر بھی ہمارے ہاتھ آ گئی ہے! شاید ہم پیدا ہی یہ جملہ بولنے کیلئے کئے گئے ہیں! قوم کی ساری جدوجہد صرف ایک جملے میں برباد کر دینے والے یہ لوگ ہمارے ’راہ نما‘ ہیں! مگر یہ ’راہ نما‘ نہیں جانتے کہ امریکہ سے بات کرنے کے لئے ایک ’سول شیلڈ‘ یا ’شہری ڈھال‘ کی ضرورت ہے! اور جنرل پرویز مشرف نے ’آخری فوجی حکمران‘ کی حیثیت سے یہ ’امر‘ پایہ¿ ثبوت تک پہنچا دیا ہے کہ ’ایک شخص‘ عقل کُل نہیں ہو سکتا! اس کے لئے ’اجتماعی ذہن‘ کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ غلطی کا امکان کم سے کم ہو جائے! جمہوریہ ترکیہ‘ امریکی فرمائشیں، محض ترکیہ پارلیمان کی عدم منظوری، کے بہانے ہی اپنا ملک امریکی مفادات کی بھینٹ چڑھ جانے سے بچانے میں کامیاب ہوا!
اگر ہم دستور ساز اسمبلی کے صدر منتخب ہونے کے بعد حضرت قائداعظمؒ محمد علی جناح کے خطاب مورخہ 11 اگست 1947ءکے ’اردو ترجمے‘ میں چودھری محمد علی کا ہاتھ تلاش کرتے کرتے جناب چودھری محمد علی کی طرف سے 1956ءمیں ’نظام اسلام پارٹی‘ کے قیام کے دن تک نہ پہنچیں تو ہمیں کبھی معلوم ہی نہیں ہو سکے گا کہ وہ اور ان جیسے سب لوگ ذاتی مفاد سے بالا ہونا جانتے ہی نہیں تھے! ان کے اپنے ایجنڈے تھے اور وہ قائداعظمؒ کے آگے محض ہتھیار رکھے ہوئے تھے! اور انہوں نے یہ ہتھیار قائداعظمؒ کی آنکھیں بند ہوتے ہی اٹھا لئے تھے! سب سے پہلے دوسری مضبوط سیاسی شخصیت ڈھیر کی گئی، دستور منسوخ کیا گیا، مارشل لاءلگایا گیا، پاکستان دولخت کیا، بھٹو کو پھانسی چڑھایا، نواز شریف کو جلاوطن کیا اور شہید بے نظیر کی تدفین تک کا عمل مکمل کر دکھایا گیا! آج بھی وقت ہے کہ ہوش کے ناخن لے لئے جائیں!
ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ پاکستان کی محبت ہمارا بہترین دفاع ہے اور ’امریکی ضمانتیں‘ کسی وقت بھی منسوخ یا ضبط ہو سکتی ہیں۔ پاکستانی سیاسی جماعتیں، یہ بات جب بھی سمجھ لیں ان کے حق میں بھی بہتر ہو گا اور ہمارے ’وجود‘ کے لئے بھی یہی بہتر ہے! تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے! خواہ ’رقاصہ‘ رقص کے لئے آ رہی ہو یا رقص کر کے جا رہی ہو!