لاہور (رپورٹنگ ٹیم) وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ زندہ قومیں بھیک کے سہارے زندہ نہیں رہ سکتیں بلکہ انہیں اپنے پاﺅں پر کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ جب تک ملک میں لوٹ کھسوٹ بند نہیں ہو گی، عدل و انصاف کا بول بالا نہ ہو گا، تھانوں میں چور کو چودھری اور چودھری کو چور کہنے کا رواج ختم نہ ہوگا تب تک یہ ملک قائداعظمؒ کا پاکستان نہ بن سکے گا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے یوم قائداعظمؒ کے موقع پر الحمرا ہال نمبر ایک میں ممتاز صحافی اور چیئرمین نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ مجید نظامی کی زیر صدارت خصوصی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ تقریب کا اہتمام نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ نے تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے اشتراک سے کیا تھا۔ اس موقع پر صدر آزاد جموں و کشمیر راجہ ذوالقرنین خان، چیئرمین تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کرنل (ر) جمشید احمد ترین‘ وائس چیئرمین نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد‘ سینیٹر ایس ایم ظفر‘ جسٹس (ر) بیگم ناصرہ جاوید اقبال‘ ماہر اقبالیات اور دانشور زید حامد‘ معروف دانشور و ماہر قانون پروفیسر ہمایوں احسان اور صاحبزادہ سلطان احمد علی نے بھی خطاب کیا۔ پروگرام کا باقاعدہ آغاز قاری نور محمد کی تلاوت کلام پاک ‘سرور حسین نقشبندی کی نعت رسول مقبول اور قومی ترانے سے ہوا۔ الحاج مرغوب احمد ہمدانی نے کلام ا قبال ؒ ”لوح بھی تو قلم بھی تو“ اور الحاج اختر حسین قریشی نے میاں بشیر احمد کی نظم ”ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناحؒ “ پڑھی۔ تقریب کی نظامت کے فرائض نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ کے سیکرٹری شاہد رشید نے انجام دیئے۔ تحریک پاکستان کے ممتاز کارکنوں جسٹس (ر) آفتاب فرخ‘ احمد سعید کرمانی‘ کرنل ظہور الحق‘ انور حسین قادری‘ ایم کے انور بغدادی‘ بشیر موجد‘ چودھری محمد اشرف‘ خان اعجاز سکندر‘چوہدری ظفر اﷲ خان‘ کرنل اکرام اﷲ خان‘ سردار شجاع الدین‘ کرنل سلیم ملک‘ عبدالعزیز قریشی اور ملک حامد سرفراز نے بطور مہمانان گرامی تقریب میں شرکت کی۔ مرکزی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ ہماری بقا سلامتی‘ تعمیر و ترقی اور خوشحالی کا انحصار آج کے پاکستان کو قائداعظم کا پاکستان بنانے میں ہے اور قائداعظم جیسی مخلص اور دیانتدار قیادت ہی ملک کو درپیش اندرونی و بیرونی چیلنجز سے نمٹتے ہوئے قوم و ملک کی کشتی کو منجدھار سے نکال سکتی ہے۔ یہ قائداعظمؒ کی پرعزم اور جرا¿ت مند قیادت تھی جس نے اقبال کے خواب کو جدوجہد کے ذریعہ اور حقیقت کا رنگ دیا اور قربانیوں کی عظیم داستانیں رقم کرتے ہوئے دنیا میں پہلی نظریاتی اسلامی مملکت وجود میں آئی جو بعد ازاں ایک ایٹمی طاقت بنی لہٰذا آج کے پاکستان کو قائداعظمؒ کا پاکستان بنانے کیلئے بیرونی قرضوں پر انحصار کرنے کی بجائے اپنے قوت بازو کے بل پر آگے بڑھنا اور جدوجہد کے ذریعہ استحکام کی منزل پر پہنچنا ہو گا۔ تقریب کی صدارت وزیراعلیٰ شہباز شریف نے کی جبکہ مہمان خاص آزادکشمیر کے صدر راجہ ذوالقرنین تھے۔ تقریب ہر حوالے سے پرجوش تھی اور آخری وقت تک ہال قائداعظمؒ زندہ باد، جیوے جیوے پاکستان اور نعرہ تکبیر سے گونجتا رہا۔ شہباز شریف نے قائداعظمؒ کی عظیم قیادت کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہی وہ شخص تھا جس نے ہندو لالہ اور انگریز سامراج کے گھناﺅنے عزائم کے خلاف ایک ایسی تحریک کی قیادت کی جس کے نتیجہ میں چٹاگانگ سے کراچی تک کے کروڑوں عوام ایک جھنڈے تلے متحد اور متحرک ہوئے‘ پھر لاکھوں جانوں کی قربانیوں کی تاریخ رقم کرتے ہوئے اقبالؒ کے خواب کو حقیقت کا رنگ ملا تو انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ اس پاکستان کی بنیادوں میں شہدا کا خون ہے ہماری لاکھوں ماﺅں بہنوں بیٹیوں کی عزتےں قربان ہوئیں‘ یہ قربانیاں ایسی مملکت کیلئے تھیں جہاں عدل و انصاف کا بول بالا ہو جہاں امیر غریب کو ترقی کے برابر مواقع ملیں اور دیانت اور جدوجہد کے نتیجہ میں ہم ایسی مملکت کو ناقابل تسخیر بنا سکیں لیکن بدقسمتی سے آج کہنا پڑ رہا ہے کہ قربانیوں کی عظیم جدوجہد کے نتیجہ میں بننے والا پاکستان قائداعظمؒ اور اقبالؒ کی آرزوﺅں اور تمناﺅں کا پاکستان نہیں بن سکا۔ جس پاکستان میں غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوتا جائے جہاں قومی دولت لوٹنے والے دندناتے پھریں جس پاکستان سے لوٹی گئی رقوم سوئس بنکوں، لندن، پیرس، دبئی سے واپس نہ لائی جا سکے جہاں چینی کے بحران کے ذریعہ قوم کو لوٹا جاتا ہو جہاں حاجیوں کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالا جاتا ہو جہاں ترقیاتی منصوبوں کے ذریعہ اربوں کی لوٹ کھسوٹ کی جائے۔ ایسا پاکستان قائداعظمؒ کا پاکستان ہے اور نہ ہی یہ جمہوریت ہے اور جس جمہوریت میں لوٹ کھسوٹ ہو ہم ایسی جمہوریت سے باز آئے ایسے جمہوری نظام کو عوام پاﺅں تلے روندنے کیلئے تیار ہیں۔ کیا ایسے جمہوری نظام کیلئے فوجی ڈکٹیٹر کے خلاف تاریخ ساز جدوجہد کی گئی تھی کیا ایسے جمہوری سسٹم کیلئے وکلا کے کالے کوٹ پھٹے تھے کیا ایسی جمہوریت کیلئے کیمرے ٹوٹے تھے، سیاسی کارکنوں پر جیلوں کے دروازے کھولے گئے تھے جدوجہد کرنے والوں کے سر پھٹے تھے۔ آج قائداعظمؒ کے یوم پیدائش پر مجھے کہنے دیں کہ اگر اس تاریخ ساز جدوجہد کے بعد بھی یہ لوٹ مار کا بازار گرم ہے تو پھر ایسے جمہوری نظام سے ہم باز آئے۔ انہوں نے کہا کہ یوم قائداعظمؒ پر مجھے قائد کی روح کو مخاطب کرنا ہے کہ آپ نے ہم پر عظیم احسان کیا اور ہمیں ایک جدوجہد کے نتیجہ میں ایک مملکت بنا کر دی جو ایک جانب ایٹمی طاقت ہے تو دوسری جانب ہم چند ٹکوں کی خاطر افیون کی گولیوں کیلئے اپنی جھولیاں پھیلا رہے ہیں بھیک مانگ رہے ہیں کیا زندہ قومیں اس طرح زندہ رہ سکتی ہیں۔ مجھے آج کے دن یہ بھی کہنا ہے کہ آج آخر کیوں ہمیں قائدؒ اور اقبالؒ کے خوابوں کی تعبیر نہیں ملی آج کیوں تھانوں میں ظالم کو مظلوم اور مظلوم کو ظالم بنا دیا جاتا ہے‘ چوروں کو چودھری قرار دے دیا جاتا ہے غریب امیر کے درمیان اتنا فرق کیوں قائم کر دیا گیا ہے۔ آج آخر لوگ کیوں انصاف کیلئے کچہریوں میں دھکے کھانے پر مجبور ہیں۔ ہمارے لئے یہ امر لمحہ فکریہ ہے کہ پاکستان نے ہمیں کیا کچھ نہیں دیا ہم پاکستان کو جتنا دیں کم ہے۔ ایک طرف پاکستان کیلئے لوگوں کے گھر بار لٹے متاع حیات لٹ گئی ان کو گھر بار چھوڑنے پڑے ایک قیامت کا سفر تھا جو پاکستان کیلئے برداشت کیا۔ دوسری جانب پاکستان میں اربوں روپے کے ڈاکے ڈالے جاتے ہیں‘ کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں۔ اغیار کی افیون اور بھیک آتی ہے تو اس کا پتہ نہیں چلتا۔ انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ غزوہ خندق میں جب صحابہؓ نے کہا کہ بھوک کے مارے ہمارے پیٹ پر پتھر بندھے ہوئے ہیں تو حضور اکرم کے اپنے پیٹ پر دو پتھر بندھے ہوئے تھے۔ جدوجہد کیلئے ہمیں وہی راہ اپنانا ہو گی جو قرآن مجید نے ہمیں بتائی۔ آج کی تقریب میں آزادکشمیر کے صدر بھی ہمارے درمیان موجود ہیں۔ بلاشبہ کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے۔ اس شہہ رگ کے حصول کیلئے ہمیں خود انحصاری کی منزل پر پہنچنا ہے کشمیر کو پاکستان کا حصہ بنانے کیلئے ہمیں ترقی کے مراحل طے کرنا ہے لیکن ہم جو کر رہے ہیں یہاں جو لوٹ مار ہو رہی ہے اس رحجان کے باعث تو ہم رہا سہا پاکستان بھی گنوا لیں گے۔ قائداعظمؒ ایسی شخصیت تھے جنہوں نے ہندوﺅں کے گھناﺅنے عزائم‘ انگریز سامراج اور پاکستان کے مخالفین کے خلاف بھرپور جنگ لڑی اور مسلمانانِ ہند چٹاگانگ سے کراچی تک ان کے جھنڈے تلے جمع ہو گئے۔ انہوں نے مسلمانوں کو عظیم نصب العین کے لئے اس قدر متحرک کر دیا کہ انہوں نے دیوانہ وار اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ لاکھوں مسلمان ماﺅں‘ بہنوں نے اپنا گھر بارچھوڑ کر بچوں سمیت ہجرت کی اور راستے میں ہندوﺅں اور سکھوں کے سنگین مظالم برداشت کئے۔ قافلے لوٹے گئے‘ دوپٹے چھینے گئے‘ تب کہیں جا کر اللہ تعالیٰ نے ہمیں پاکستان انعام کے طور پر عنایت فرمایا۔ قائداعظمؒ ایسا پاکستان چاہتے تھے جہاں اسلام کا بول بالا ہو‘ عدل و انصاف ہو‘ کرپشن نہ ہو‘ جہاںامانت و دیانت کا دور دورہ ہو اور جہاں تمام افراد کو اپنی قابلیت کے بل بوتے پر آگے بڑھنے کے مواقع حاصل ہوں‘ جہاں مسلمانوں کو ہندو بنیے کے استحصال سے نجات ملے گی اور جو ایک جدید اسلامی‘ فلاحی اور جمہوری مملکت ہوگی‘ جہاں مسلمان آئین و قانون کے مطابق زندگی بسر کر سکیں گے۔ افسوس آج 63 سال گزرنے کے باوجود وہ خواب شرمندہ¿ تعبیر نہیں ہو سکا۔ پاکستان کے طول و عرض میں اڑھائی سال قبل ایک ڈکٹیٹر کے خلاف‘ اس کے عدلیہ مخالف اقدام کے خلاف تحریک چلائی گئی اور معاشرے کے تمام طبقات نے اس میں اپنا حصہ ڈالا۔ لوگوں کو مارا پیٹا گیا‘ میڈیا کے کیمرے توڑے گئے۔ کالے کوٹ پھاڑے گئے‘ سر پھٹے‘ محنت کشوں کے ننگے پاﺅں سے خون بہا۔ یہ سب قربانیاں اس لیے نہیں دی گئی تھیں کہ حاجیوں کی جیبیں کاٹی جائیں‘ اس لئے نہیں کہ امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جائے اور قوم کی دولت لوٹ کر دبئی‘ سوئٹزر لینڈ اور نہ جانے کہاں کہاں کے بنکوں میں جمع کروا دی جائے۔ ابھی تک لوٹی ہوئی دولت سوئٹزر لینڈ کے بنکوں میں سے واپس پاکستان نہیں لائی جا سکی۔ چندہ ماہ قبل چینی کا بحران پیدا کر کے مخصوص طبقے کو نوازا گیا۔ مشرف کے دور میں مختلف ترقیاتی منصوبوں کے ضمن میں قومی دولت کو بے حد و حساب لوٹا گیا۔ لاہور تا قصور سڑک اور لاہور رنگ روڈ اس کی زندہ مثالیں ہیں۔ لوٹ مار کا یہ پیسہ دبئی میں انویسٹ کر دیا گیا مگر چونکہ یہ پاکستان کے غریب عوام اور مزدوروں کی امانت تھی‘ اسی لیے یہ رقوم وہاں ڈوب گئیں۔ گذشتہ روز میں نے پاکستان بھر سے پوزیشن ہولڈرز طلبا و طالبات کو مدعو کیا گیا جس میں کوئٹہ سے کراچی اور خیبر سے رحیم یار خان تک کے طلبہ شامل تھے۔ ان کے والدین نے اپنا پیٹ کاٹ کر ان کو تعلیم دلوائی تھی اور ان کے اساتذہ¿ کرام نے انہیں اپنے بچے سمجھ کر تعلیم دی تھی۔ اساتذہ¿ کرام ہمارے سر کے تاج ہیں۔ وہ بہت ہی پروقار تقریب تھی جس میں ہم نے پوری قوم کے روبرو ان کا احترام کیا، انہیں اور ان کے معزز اساتذہ¿ کرام جو ہمارے سروں کے تاج ہیں‘کو نقد انعامات دئیے۔میں نے طلبہ کو بتایا کہ میں آپ کو پچھلے برسوں میں کئی کئی لاکھ روپے کے انعامات دیتا رہا مگر اس مرتبہ بڑی عاجزی اور انکساری سے صرف ایک ایک لاکھ روپے پیش کر رہا ہوں کیونکہ سیلاب زدگان کی امداد کےلئے ہمیں پیسوں کی اشد ضرورت ہے۔ ان میں سے کچھ بچوں نے انتہائی کسمپرسی کے حالات میں تعلیم حاصل کی تھی۔ کیا یہ وہ پاکستان ہے جس کا خواب قائداعظمؒ اور علامہ اقبالؒ نے دیکھا تھا جہاں کسی یتیم کو کوئی پوچھنے والا نہیں، جن کو پوچھنا چاہئے وہ حاجیوں کی جیبیں کاٹنے والے ہیں‘ قومی دولت لوٹ کر سوئس بنکوں میں جمع کروانے والے ہیں۔ ابھی میں مظفرگڑھ میں پاکستان کی تاریخ کے پہلے موبائل ہسپتال کا افتتاح کرنے جا رہا ہوں۔ میں اس ہسپتال کے سامنے کھڑا ہو کر حضرت قائداعظمؒ کی روح سے مخاطب ہو کر کہوں گا کہ آپ نے تو ہمیں پاکستان بنا کر دیا تھا مگر یہ ایٹمی ملک ہونے کے باوجود غیروں کے آگے ہاتھ پھیلا رہا ہے‘ بھیک مانگ رہا ہے۔ زندہ قومیں بھیک کے سہارے زندہ نہیں رہ سکتیں۔ انہیں اپنے پاﺅں پر کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ میں کہوں گا کہ ہم نے بہت خطائیں کیں۔ دیہاتی عوام کی فلاح و بہبود کے لئے قائم کئے جانے والے یہ ہسپتال آپ کے خواب کو تعبیر دینے کے لیے ہیں۔ جب تک اس ملک میں لوٹ کھسوٹ بند نہ ہوگی‘ انصاف کا بول بالا نہ ہو گا‘ تھانے میں چور کو چودھری اور چودھری کو چور کہنے کا رواج ختم نہ ہو گا تب تک یہ ملک قائداعظمؒ کا پاکستان نہیں بن سکے گا۔ میں آج تک جتنے بھی سرکاری دوروں پر بیرونِ ملک گیا ہوں‘ ان کے اخراجات کا بوجھ سرکاری خزانے پر نہیں ڈالا۔ ذاتی پیسہ خرچ کیا اور میرے ساتھ جتنے ممبران اسمبلی گئے‘ انہوں نے بھی اپنی جیب سے ٹکٹ خریدے۔ صوبے میں ون ڈش کو رواج دیا اور اگر وزیرِاعظم آئے تو انہیں بھی ون ڈش ہی پیش کی تاکہ مالی وسائل کی بچت ہو سکے۔ سرکاری دفتروں میں چینی کے استعمال پر پابندی اس لئے عائد کی کہ اس سے ہونے والی بچت کو سیلاب زدگان کی امداد کے لئے استعمال کیا جا سکے۔ جن لوگوں نے سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کیا ہے‘ وہ جانتے ہیں کہ وہاں کیا قیامت برپا ہوئی ہے۔ دوسری طرف ملک میں روزانہ کروڑوں‘ اربوں روپے کے گھپلے ہو رہے ہیں اگر ہمیں ترقی کرنی ہے تو اسوہ¿ رسول پاک کے مطابق وہ کام کرنے ہیں جن کا حکم قرآن حکیم نے ہمیں دیا ہے۔ آزاد کشمیر کے صدر راجہ ذوالقرنین خان سے میں کہنا چاہتا ہوں کہ کشمیر جسے قائداعظمؒ نے پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا ‘ہم اسے آزادی دلا کر رہیں گے۔ یہ بات غور طلب ہے کہ اگر ہم خود لوٹ مار کریں گے اور غیروں سے بھیک مانگیں گے تو کس طرح کشمیر پاکستان کا حصہ بنے گا ۔ اگر یہی روش رہی تو خدانخواستہ بچا کھچا پاکستان بھی گنوا دیں گے۔ کشمیر کی آزادی کی خاطر ہمیں اپنے آپ کو مضبوط کرنا ہوگا اور اپنے پاﺅں پر کھڑا ہونا ہو گا۔ کشمیر کو پاکستان کا حصہ بنانے کیلئے ہمیں اپنے وقت بازو کے ذریعہ استحکام کی منزل حاصل کرنی ہے ترقی کے مراحل طے کرنا ہےں۔ صدر آزاد کشمیر راجہ ذوالقرنین خان نے کہا کہ اگر پاکستان نہ بنتا تو ہم غلام در غلام ہوتے۔ پاکستان میں کشمیر کے لئے جذبات سرد نہیں پڑنے چاہئیں۔ پاکستان کشمیر کی آزادی کے بغیر نامکمل ہے اگر کشمیر آزاد نہ ہوا تو پاکستان کی مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔ بھارت نے جموں و کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے‘ بھارتی فوج پر پتھر برسانے والے نوجوان کشمیری اپنے بزرگوں کا قائداعظمؒ سے کیا گیا وعدہ نبھا رہوے ہیں۔ آج کشمیریوں کی تیسری نسل مسلح بھارتی افواج کے سامنے سینہ سپر ہے کیونکہ وہ قائداعظمؒ کے فرمان کو نہیں بھولی۔ قائداعظمؒ کے افکار ہمارے لئے رول ماڈل ہیں۔ کشمیریوں اور پاکستانیوں کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں، پاکستان کے دریا¶ں کا سرچشمہ مقبوضہ کشمیر ہے وہ جب چاہے پانی روک کر اسے خشک سالی کا شکار کر سکتا ہے۔ بھارت اب پھر دریائے سندھ اور جہلم پر سرنگیں بنا کر آبی جارحیت کر رہا ہے جب تک پاکستان اُسکے ساتھ برابری کی سطح پر آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہیں کرتا مسئلہ کشمیر حل نہیں ہو گا۔ کشمیر آزاد نہ ہوا تو پاکستان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گا۔ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کا دائرہ پنجاب سے نکال کر آزادکشمیر تک وسیع کیا جائے میں ٹرسٹ کو دورہ آزادکشمیر کی دعوت دیتا ہوں۔ پاکستانی قوم یوم قائد مناتے وقت کشمیر کاز کو بھی یاد رکھا کرے تبھی کشمیر آزاد ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ میں مجید نظامی کا بہت شکرگزار ہوں کہ انہوں نے مجھے تقریب میں مدعو کیا اگرچہ پاکستان بہت سے مسائل میں گھرا ہوا ہے تاہم نظریہ پاکستان کے علمبرداروں کے طفیل یہ قائم و دائم ہے اور انشاءاللہ یہ قائم و دائم رہے گا۔ مجید نظامی نے ہی سب سے پہلے نظریہ پاکستان کے فروغ کی ذمہ داری اٹھائی ہوئی ہے۔ مذہبی سکالر زید حامد نے کہا کہ گذشتہ 63 برس میں ہم نے قائداعظم کے ساتھ بہت ظلم و زیادتی کی ہے اور ہم یہ کہتے رہے کہ وہ لادین اور سکیولر پاکستان چاہتے تھے حالانکہ وہ مرد آزاد تھے اور امیر ملت پیر جماعت علی شاہؒ نے انہیں قرآن پاک، تسبیح اور جائے نماز بھجوائی تھی جبکہ علامہ شبیر عثمانیؒ جیسے عالم اُنکی شخصیت کو دیکھ کر راتوں رات اُنکے گرویدہ ہو گئے تھے۔ آج کا دن پاکستانی ملت پر قرض ہے جس کا جواب ہم ملک میں خلافت راشدہ کا نظام نافذ کر کے دے سکتے ہیں۔ پاکستان پر گذشتہ 63 برس سے مغرب کا غلام طبقہ قابض ہے جسے اُنکی کرسیوں سے بے دخل کرنا ہو گا۔ پاکستان کا عربی ترجمہ مدینہ طیبہ ہے، ہمیں اب ملکر جدوجہد تیز کرنا ہو گی کیونکہ آنے والے دنوں میں شاندار تاریخ ہماری منتظر ہے۔ سینیٹر ایس ایم ظفر نے کہا ہے کہ قائداعظمؒ کی ولادت کا دن ہو یا ان کے حوالے سے اور کوئی تقریب ہواس میں جذبہ نہ ہو یہ ممکن نہیں۔ اگر میں پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالوں تو ان کے بعد پوری 63 سالہ تاریخ میں قائداعظمؒ کے علاوہ کوئی رول ماڈل نظر نہیں آتا ہے یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے بعد ہمیں کوئی رول ماڈل نہیں مل سکا۔ قائد اعظمؒ نے عدلیہ کی عزت کی۔ رواداری اور مساوات کا سبق قائد اعظمؒ کی زندگی میں نظر آتا۔ ہے آج ہمیں 63 سالہ تاریخ میں کسی میں نظر نہیں آتاہے۔ قائد اعظمؒ گورنر جنرل بنے تو مسلم لیگ کی قیادت سے علیحدہ ہو گئے آج ہمیں یہ سب کچھ نہیں ملتا ہے ۔ آج کے سیاست دان مشاورت کی بجائے خود کا فیصلہ مسلط کرتے ہیں۔ قائد اعظمؒ جیسی صداقت کہیں نظر نہیں آتی‘ ان کو گاندھی نے کہا کہ اپ مجھ سے بلینک چیک لے لیں اور صدر بن جائیں تو انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ کیا آج ہمیں یہ سب کچھ ہماری سیاست میں ملتا ہے۔ جسونت سنگھ جیسا کٹڑ ہندو بھی اب یہ کہنے پر مجبور ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں ایک ہی قائد ہے وہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ ہیں۔ بہت کم سیاست دان ہیں جنہوں نے تاریخ کا رخ موڑا، یا اپنی تاریخ بنائی لیکن قائد اعظمؒ وہ واحد رہنما ہیں جنہوں نے یہ سب کچھ کیا۔ قائداعظمؒ کے قول فعل میں کوئی فرق نہیں تھا اس لئے کہا کہ پاکستان کو فرقہ واریت ، اقراءپروری اور کرپشن سے پاکستان کو بچا¶ آج یہی چیزیں ہمیں تباہ کر رہی ہیں‘ کرپٹ یہاں پر معتبر ہو چکا ہے، کرپشن قانون کے تابع ہو نی چاہیے تھی لیکن اب یہ ہوا ہے کہ این آر او کے ذریعے کرپشن کو قانون کی گردن پر بیٹھا دیا گیا ہے۔ اگر قائد اعظم محمد علی جناحؒ بیرون ملک کے شہری کو اپنے ملک میں گورنر جنرل بنانے پر تیار نہےں ہو ئے اسی فلسفہ کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں یہ کہہ دینا چاہیے کہ امریکہ ہم پر ڈورن حملے بند کر دے کیا ہمارے سیاست دان ایسا کہہ سکتے ہیں‘ ان کو جس بات پر تکلیف ہوگی اس میں آج مسلم لیگ متحد نہیں ہے اس لئے میں مجید نظامی صاحب سے درخواست کروں گا کہ مسلم لیگ کو ایک کرنے کےلئے اپنا کردار ادا کر یں۔ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے چیئرمین مجید نظامی نے کہا کہ علامہ اقبالؒ نے ہمیں دو قومی نظریہ دیا اور آپ نے ہی قائد اعظمؒ کو لندن میں خط لکھا کہ وہ ملک میں تشریف لائیں اور مسلم لیگ کی قیادت سنبھالیں۔ قائداعظمؒ نہ ہوتے تو پاکستان نہ ہوتا، قائد اعظمؒ کی قیادت میں ہی 1940ءمیں قرار داد منظور ہوئی جس کے نتیجہ میں چودہ اگست 1947ءکو برصغیر کے مسلمانوں کو پاکستان نصیب ہوا۔ ہماری نالائقی اور جرنیل شاہی کی وجہ سے مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بنا، بنگالی کہتے تھے کہ اگر فوج نے ہی حکومت کرنی ہے، جنرل ایوب خان کے بعد جنرل یحییٰ آتے ہیں تو اکثریت کے باوجود ہماری باری نہیں آئےگی۔ ہماری جرنیل شاہی نے اس سانحہ کا موقع فراہم کیا۔ مجید نظامی نے کہا کہ وہ ملک کو اسلامی جمہوری فلاحی پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں خدا کرے کہ ارض پاک فلاحی مملکت بنا جائے۔ آپ سب کو قائدؒ و اقبالؒ کا دن مبارک ہو۔ صاحبزادہ سلطان احمد علی نے کہا کہ کسی کے یوم ولادت کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ آپ سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھائیں بلکہ اس کے اقدام اور اصولوں کے ساتھ تجدید عہد کرنا ہوتا ہے۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے جو نظریاتی سرحدیں، اور جغرافیائی سرحدیں فراہم کی ہیں ان کی حفاظت پوری قوم کی ذمہ داری ہے۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ پاکستان نے پوری امت مسلمہ کی قیادت کرنی تھی آج وہ کس حال میں کھڑا ہے۔ جس طرح غزوہ احد میں تیر اندازوں نے حضور کی بات نہیں مانی تھی اسی طرح جب پاکستان بنا تو ہم اپنے کاموں میں لگ گئے اور نظریہ کو بھول گئے جس کی وجہ سے دشمن نے ہماری پیٹھ میں چھڑا گھونپ دیا۔ ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ جب بھی ہم نظریہ پاکستان سے روح گردانی کریں گے اس وقت ہمیں شکست کھانی پڑے گی۔ آج پورے عالم اسلام کو ایک نظریہ کی ضرورت ہے کیونکہ تمام طاغوتی طاقتیں ایک طرف کھڑی ہیں اور مسلمان ایک طرف کھڑے ہیں۔ اس ملک میں اس وقت چوری ، رشوت ستانی کی بھرمار ہے اور ہمیں یہ عہد کرنا پڑے گا کہ رشوت چور بازاری میں حصہ نہیں لیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک میں سیاست دانوں نے اپنا ضمیر بیچا، جرنیلوں نے زمین بیچی‘ دانشور نے قلم بیچا اور پیروں نے مزار بیچے اور ہر کسی نے کچھ نہ کچھ کیا ہے اس لئے ہمیں عہد کرنا پڑے گا کہ جب تک زندہ ہیں قائد اعظمؒ کے اصولوں کی روشنی میں زندگی گزاریں گے۔ پروفیسر ہمایوں احسان نے کہا کہ ہمیں خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے ہمیں قائداعظم محمد علی جناحؒ کی شکل میں عظیم لیڈر دیا۔ میں مجید نظامی کو خراج تحسین پیش کرنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے اپنی جدوجہد کے ذریعے نظریہ پاکستان کو زندہ رکھا۔ قومیں قرضوں سے نہیں قوت ارادی اور عزم و استقبال سے زندہ رہتی ہیں۔ جسٹس (ر) بیگم ناصرہ جاوید اقبال نے کہا کہ قائد اعظم اسلامی تصورات کے مطابق خواتین کو معاشرے میں کردار دینے کے حق میں تھے اسی لیے انہوں نے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو خواتین کو حوصلہ اور اعتماد دینے کے لیے اپنے ساتھ رکھا لیکن سوال ہے کہ کیا آج خواتین کو وہ مرتبہ ملا جس کی قائد اعظمؒ خواہش رکھتے تھے۔ آئین میں خواتین کو برابر کے حقوق دیئے گئے ہیں اور اسمبلیوں میں بھی خواتین موجود ہیں مگر گھریلو تشدد کا شکار 80 فیصد خواتین کے لئے قانون نجانے کب بنے گا۔ 4کروڑ پاکستانی پڑھے لکھے نوجوان بے روزگار ہیں، جعلی ڈگری والوں کی اسمبلیوں میں ان کو کس طرح حق ملے گا۔ ملک میں آئین و قانون کی پاسداری ہو ہی نہیں رہی‘ ہم نے اڑھائی سال آزاد عدلیہ کی جدوجہد کی آج عدلیہ آزاد ہے مگر اس کے فیصلوں پر عمل نہیں ہوتا، کوئی سیاسی جماعت بے لاگ احتساب نہیں چاہتی۔ انہوں نے احتساب کے قانون کی منظوری میں تاخیر کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے چیئرمین کرنل (ر) جمشید ترین نے کہا کہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ ہمیں قائد اعظم جیسا زیرک رہنما ملا جس نے اپنی جدوجہد سے ہمیں پاکستان دلایا۔ قائداعظمؒ نے ہمیں اتحاد ، ایمان اور تنظیم کے ساتھ کام کام اور بس کام کی تاکید کی ہے اس پر عمل پیرا ہو کر ہی ملک کو قائد کا پاکستان بنا سکتے ہیں۔ میں اس معاملے میں نہیں پڑتا کہ قائد کے بعد کیا ہوا، لیڈر شپ کیسی آئی، میں جھوٹ نہیں بولتا اور سچ بولنے کی مجھ میں ہمت نہیں لیکن ان کے بعد جس شخصیت نے قائد کی تعلیمات کو عام کرنے اور اس پر عمل کرنے میں سب سے اہم کردار ادا کیا وہ مجید نظامی اور ان کا ادارہ نوائے وقت ہی ہے۔ ملک میں چھوٹے چھوٹے لیڈروں کی موت پر تحقیقاتی کمیٹیاں بن جاتی ہیں لیکن آج کیا وجہ ہے کہ بیمار قائداعظمؒ کو کراچی لے جانے والی ٹوٹی پھوٹی کار کس نے بھیجی اور اس کے لیے آج تک کوئی انکوائری نہیں ہوئی۔ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے وائس چیئرمین ڈاکٹر رفیق احمد نے کہا کہ قائداعظمؒ نے جنوبی ایشیاءکے تین چوتھائی مسلمانوں کو آزادی دلائی، آزادی کے وقت ہمارے پاس کچھ نہیں تھا جس پر بعض لوگ مایوسیاں پھیلاتے تھے مگر دنیا نے دیکھا کہ ہم نے کئی میدانوں میںترقی کی اور مسلمانوں کی پہلی ایٹمی قوت کا بھی اعزاز حاصل کیا۔ قیام پاکستان کے وقت شرح خواندگی 10فیصد تھی تعلیمی ادارے نا ہونے کے برابر تھے، قائد اعظمؒ نے تعلیم کی اہمیت کو جانتے ہوئے ہی سب سے پہلی جو کانفرنس بلائی وہ تعلیمی کانفرنس ہی تھی۔ لیکن آج ہم 129یونیورسٹیاں قائم کر چکے ہیں۔ قائداعظمؒ نے معاشرے کی تشکیل کا جو ویژن دیا اور ہماری ذمہ داری تھی کہ قائد کے ویژن کے مطابق کام کریں مگر ہم وہ عہد مکمل طور پر پورے نہیں کر سکے، بانی¿ پاکستان مملکت خداداد کو فلاحی ریاست بناناچا ہتے تھے۔ ماﺅنٹ بیٹن نے قائداعظمؒ سے کہا کہ اکبر کی پالیسیوں کو اپنائیں تو آپ نے کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نظام اپنائیں گے جو چودہ سو سال پہلے آ چکا۔