یہ الفاظ قائداعظم کے قرآن حکیم پر گہرے تدبر اور سچے ایمان کی غمازی کرتے ہیں اور یہ تقریر کسی جلسہ عام کی نہیں بلکہ مخصوص اجتماع کی گئی تھی۔ ذہن میں رہے کہ ابھی مسلم لیگ قرارداد پاکستان سے کوسوں دور تھی اور ابھی قائداعظم کی ملاقات حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی کے تبلیغی وفد سے نہیں ہوئی تھی۔ اس وفد سے قائداعظم کی پہلی ملاقات دسمبر 1938ءمیں ہوئی ۔ قائداعظم نے الگ وطن کا مطالبہ اس بنیاد پر کیا تھا کہ مسلمان ہر لحاظ سے ایک علیحدہ قوم ہیں اور ان کا مذہب‘ کلچر‘ تاریخ‘ معاشرت اور انداز فکر ہندو¶ں سے بالکل مختلف ہے۔ ان کی 1934ءسے لے کر 1948ءتک کی تقاریر پڑھی جائیں تو ان پر قرآن تعلیمات کا گہرا اثر نظر آتا ہے۔ پاکستانیوں کو تو نہ قائداعظم کی مستند اور معیاری سوانح عمری لکھنے کی توفیق ہوئی ہے اور نہ ہی ان کی سیاسی فکر کا تجزیہ کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی ہے لیکن ایک برطانوی شہری محترمہ سلینہ نے ”سیکولر جناح اینڈ پاکستان“ نامی کتاب لکھ کر یہ حق ادا کر دیا ہے۔ اس کتاب کے دوسرے ایڈیشن میں سلینہ نے قرآنی آیات کے حوالے دے کر تحقیق اور عرق ریزی کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ جناح کے اکثر تصورات اور افکار قرآن حکیم سے ماخوذ تھے اور یہ کہ کاو¿س جی سے لے کر پروفیسر پرویز ہود بھائی تک جتنے لکھاریوں نے انہیں سیکولر قراردیا ہے وہ بددیانتی کے مرتکب ہوئے ہیں کیونکہ انہوں نے اپنی تحریروں کی بنیاد جسٹس منیر کی کتاب میں دی گئی قائداعظم کی جس تقریر پر رکھی ہے وہ الفاظ قائداعظم کے نہیں بلکہ جسٹس منیر مرحوم کے اپنے ہیں اور ان کی ”انگریزی“ بھی غلط ہے جو قائداعظم کی نہیں ہو سکتی۔ وزیر آباد کے محمد شریف طوسی بنیادی طور پر مدرس تھے۔ انہوں نے انگریزی اخبارات میں پاکستان کے حق میں اتنے مدلل اور زور دار مضامین لکھے کہ قائداعظم نے متاثر ہو کر انہیں بمبئی بلایا اور چھ ماہ اپنے پاس رکھ کر ان سے ”پاکستان اینڈ مسلم انڈیا“ اور ”نیشنلزم کنفلکٹ ان انڈیا“ جیسی معرکة الآراءکتابیں انگریزی زبان میں لکھوائیں۔ طوسی صاحب نے اپنی چھ ماہ کے قیام کی یاداشتوں میں لکھا ہے کہ قائداعظم ہر روز صبح علامہ یوسف علی کے قرآن حکیم کے انگریزی ترجمے کا مطالعہ بھی کیا کرتے تھے اور سید امیر علی کی کتاب ”سپرٹ آف اسلام“ پڑھ کرتے تھے۔ انہوں نے شبلی نعمانی کی کتاب ”الفاروق“ کے انگریزی ترجمے کو بغور پڑھ رکھا تھا ۔ یہ ترجمہ مولانا ظفر علی خان نے کیا تھا۔ ان کی لائبریری میں سیرت نبوی اسلامی تاریخ اور قرآن حکیم کے تراجم پر بہت سی کتابیں موجود تھیں۔ جو ان کے زیر مطالعہ رہتی تھیں۔
میں ذکر کر چکا ہوں کہ جب حکیم الامت مولانا اشرف تھانوی نے محسوس کیا کہ انگریزوں کی رخصتی کے بعد اقتدار مغربی تعلیم یافتہ لیڈران کو ملے گا تو انہوں نے ان کی مذہبی تربیت کا پروگرام بنایا اور اس ضمن میں قائداعظم محمد علی جناح سے ملاقات کے لئے ایک وفد ترتیب دیا جس کے سربراہ مولانا مرتضیٰ حسن تھے اور اس روز میں مولانا شبیر علی تھانوی‘ مولانا عبدالجبار‘ مولانا عبدالغنی‘ مولانا معظم حسین اور مولانا ظفر احمد عثمانی شامل تھے۔ مولانا ظفر احمد عثمانی مولانا اشرف تھانوی کے بھانجے تھے جبکہ مولانا شبیر علی تھانوی مولانا اشرف تھانوی کے بھتیجے تھے۔ دسمبر 1938ءمیں مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس پٹنہ میں ہونا تھا۔ مولانا شبیر احمد عثمانی والدہ کی علالت کے سبب جا نہ سکے چنانچہ دوسرے حضرات وفد کی صورت میں پٹنہ پہنچے۔ نواب اسماعیل خان کے ذریعے قائداعظم سے رابطہ ہو چکا تھا۔ پٹنہ میں نوابزادہ لیاقت علی خان کے ذریعے قائداعظم سے پٹنہ جلسہ عام سے پہلے کا وقت مانگا گیا کیونکہ علماءقائداعظم سے ملے بغیر مسلم لیگ کے جلسے میں شامل نہیں ہونا چاہتے تھے۔ 25 دسمبر 1938ءکو شام پانچ بجے یہ وفد قائداعظم سے ملا۔ ملاقات ایک گھنٹہ جاری رہی جس کی تفصیل مولانا شبیر علی تھانوی کی ”روئیداد“ میں موجود ہیں اور اس کا ذکر منشی عبدالرحمن کی کتاب کے صفحات 61-62 میں بھی ملتا ہے۔ وفد کے تاثرات ان الفاظ میں جھلکتے ہیں ”ہم ان (قائداعظم) کے جوابات سے متاثر ہوئے۔ ان کے کسی دینی عمل کی کوتاہی کے متعلق عرض کیا گیا تو بغیر تاویل حجت اپنی کوتاہی کو تسلیم کیا اور آئندہ اصلاح کا بھی وعدہ کیا.... یہ صرف حضرت تھانوی کا روحانی فیض کام کر رہا تھا ورنہ جناح صاحب کسی بڑے سے بڑے کا اثر بھی قبول نہ کرتے تھے۔“ چنانچہ اس وفد نے پٹنہ میں مسلم لیگ کے سالانہ جلسے میں شرکت کی جہاں مولانا اشرف تھانوی کا تاریخی بیان پڑھا گیا۔ اس کے ذریعے ارباب و ارکان مسلم لیگ کو اسلامی شعائر کی پابندی کی تلقین کی گئی تھی۔ دوسری ملاقات 12 فروری 1939ءکو دہلی میں شام رات بھر ہوئی۔ اڑھائی گھنٹے کی اس ملاقات کے بعد قائداعظم نے کہا کہ ”میری سمجھ میں آگیا ہے کہ اسلام میں سیاست سے مذہب الگ نہیں بلکہ مذہب کے تابع ہے“ (بحوالہ روئیداد ازمولانا شبیر علی تھانوی صفحہ نمبر7) اس ملاقات میں مولانا شبیر علی تھانوی کے ساتھ مولانا مفتی محمد شفیع صاحب بھی تھے جن کا ذکر قیام پاکستان کے بعد آئین سازی اور علماءکے اتفاق رائے کے حوالے سے ملنا ہے۔ مولانا ظفر احمد عثمانی اپنی روئیداد میں لکھتے ہیں ”ایک مجلس میں قائداعظم سے کہا گیا کہ علماءکانگرس میں زیادہ ہیں اور مسلم لیگ میں کم تو قائداعظم نے فرمایا تم کن کو علماءسمجھتے ہو۔ جواباً مولانا معین احمد مدنی‘ مفتی کفایت اللہ اور مولانا ابوالکلام کا نام لیا گیا۔ قائداعظم نے جواب دیا۔ ”مسلم لیگ کے ساتھ ایک بہت بڑا عالم ہے جس کا علم و تقدس و تقویٰ سب سے بھاری ہے اور وہ ہیں مولانا اشرف تھانوی جو چھوٹے سے قصبے میں رہتے ہیں۔ مسلم لیگ کو ان کی حمایت کافی ہے۔“
یہی وہ پس منظر تھا جس میں قیام پاکستان کے وقت جب پندرہ اگست 1947ءکو پاکستان کے پرچم کے پہلی رسم کشائی ہوئی تو قائداعظم خاص طور پر مولانا شبیر احمد عثمانی کو ساتھ لے کر گئے۔ یاد رہے مولانا شبیر عثمانی مولانا اشرف تھانوی کے رشتے دار نہیں تھے۔ وہ مولانا تھانوی کو اپنا پیرو مرشد سمجھتے تھے۔ مولانا شبیر احمد عثمانی نے تلاوت اور دعا کی اور پھر پاکستان کا جھنڈا لہرایا جسے پاکستانی فوج نے سلامی دی۔ یہ رسم کراچی میں پاکستان کے وفاقی دارالحکومت میں ادا کی گئی جبکہ قائداعظم کی ہدایت لیکر مشرقی پاکستان کے صوبائی دارالحکومت میں مولانا اشرف تھانوی کے بھانجے مولانا ظفر احمد عثمانی نے تلاوت قرآن مجید کے بعد پاکستان کا پرچم لہرایا۔ یہ ایک طرح سے اعتراف تھا علماءکرام کی خدمات کا جنہوں نے تحریک پاکستان کو کامیابی سے ہمکنار کروایا۔ اس تحریر کا مقصد نوجوان نسل کو تحریک پاکستان کے ایک پہلو سے روشناس کرانا تھا جسے عام طور پر قابل ذکر نہیں سمجھا جاتا۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ میں اس مقصد میں کامیاب ہوا یا نہیں۔!!