یوم قائداعظمؒ، کرسمس اور ایوان پاکستان

ایوان کارکنان تحریک پاکستان میں یوم قائداعظمؒ کے حوالے سے شاندار اجتماع تھا۔ اس کی مثال پورے ملک میں نہیں ملتی۔ آج یہاں وہ لوگ موجود تھے جنہوں نے قائداعظمؒ کو دیکھا تھا۔ برادرم شاہد رشید نے اچھا کیا کہ ان سے درخواست کی کہ آپ کھڑے ہو جائیں تاکہ سب لوگ آپ کو دیکھ سکیں تاکہ وہ اگلی نسل کو بتا سکیں کہ ہم نے قائداعظمؒ کے ساتھیوں کو دیکھا ہوا ہے۔ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے اداروں اور آرزوﺅں کے اس مرکز کو میں ایوان پاکستان کہتا ہوں۔ مگر آج تو یہ ایوان کارکنان تحریک پاکستان تھا کہ وہ لوگ موجود تھے جنہوں نے تحریک پاکستان میں حصہ لیا تھا۔ قائداعظمؒ نے تحریک پاکستان چلا کے پاکستان بنایا تھا۔ آج ہمیں پاکستان کے اندر تحریک پاکستان چلا کے اسے قائداعظمؒ کا پاکستان بنا سکتے ہیں۔ مجید نظامی کی صدارت میں یہ اجتماع ایک فقیدالمثال اجتماع تھا۔ پورے ملک میں قومی سطح پر سرکاری طور پر یہ دن منانا چاہئے۔ یہ دن ہزاروں دنوں کا دن ہے۔ میں اس اجلاس کی تفصیل ابھی بیان کروں گا۔ وقت نیوز کے صبح کے ایک پروگرام میں ایک بزرگ خاتون محترمہ زینت ہارون مہمان تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ قائد کو شہر کراچی سے بڑی محبت تھی۔ وہ ان کا شہر تھا اور ہے۔ محترمہ کا یہ جملہ ان ظالموں کے لئے ایک پیغام ہے جہاں انہوں نے قتل و غارت کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ مزار قائد کے سائے میں ان کی اشیرباد اور امداد کے بغیر یہ ممکن نہیں ہے جو قائداعظمؒ کے عطا کردہ پاکستان کے حکمران بن کر ظلم کر رہے ہیں۔ صدر زرداری نے مزار قائد پر حاضری دی۔ کیا انہیں یقین ہے کہ یہ حاضری قبول کر لی گئی ہے۔ شہر قائد زرداری صاحب سے سوال کرتا ہے کہ کیا واقعی وہ صدر پاکستان ہیں۔ زینت ہارون قائداعظمؒ کے ساتھ تھیں جب انہوں نے ایک معمولی سے گھر کی طرف اشارہ کیا اور بتایا کہ میں یہاں پیدا ہوا تھا۔ وہ عظمت امارت شجاعت عدالت دیانت سیاست جرات قیادت کی انتہا پر پہنچے ہوئے تھے مگر ان کی اپنی ابتدا یاد تھی۔ کیا آج حکمرانوں سیاستدانوں اور امیر کبیر انسانوں کو بھی یاد ہے کہ وہ کہاں پیدا ہوئے تھے۔ انہیں تو یہ بھی یاد نہیں کہ وہ پاکستان میں پیدا ہوئے ہیں۔ وقت نیوز کے پروگرام میں محترمہ زینت ہارون نے یہ بھی بتایا کہ قائداعظمؒ نے لا آف لینڈ، (قانون ریاست) کے مطابق زندگی بسر کی۔ وہ انگریزوں اور ہندوﺅں کے سامنے ڈٹ گئے شاید وہ واحد لیڈر تھے جنہوں نے اپنا مقصد (پاکستان) پا لیا مگر ایک دن بھی جیل نہ گئے۔ اس طرح کی مثال پاکستان میں مجید نظامی کی ہے جنہوں نے جابر سلطانوں کے سامنے کلمہ¿ حق بلند کیا۔ اور ایک دن جیل نہ گئے۔ ایسی کوئی دوسری مثال پاکستان میں نہیں ہے۔ مجید نظامی نے یوم قائداعظمؒ کے موقعے پر اپنی صدارتی تقریر میں کہا کہ میں آپ کو مبارکباد دیتا ہوں اور اپنے آپ کو بھی مبارکباد دیتا ہوں۔ انہوں نے قائداعظمؒ کے اس فرمان کا ذکر کیا کہ کشمیر ہماری شہ رگ ہے۔ اس کے بغیر قائداعظمؒ کا پاکستان مکمل نہیں ہو سکتا۔ اس سے پہلے محمد شفیع جوش نے کہا کہ ابھی تک پوری طرح کشمیر کے معاملے میں کچھ نہیں کیا گیا۔ مجید صاحب نے مزاحیہ انداز میں کہا کہ ہم نے قائداعظمؒ کے یوم ولادت پر سالگرہ کیک سب دوستوں کو کھلایا۔ اس کے بعد انہیں کشمیری چائے پیش کی۔ علامہ اقبالؒ کے پوتے ولید اقبال نے دلچسپ باتیںکیں۔ مگر اس میں قائداعظمؒ کے سیکولر ہونے کا اشارہ تھا۔ وہ تحریک انصاف جائن کر چکے ہیں۔ مجید صاحب نے ولیداقبال کو مخاطب کیا اور کہا۔ اقبالی بنو عمرانی نہ بنو۔ بھارت کشمیر میں ڈیم بنائے جا رہا ہے۔ مجید صاحب نے کہا کہ حکمران ڈیم فول ہیں جو بھارت دوستی کے دھوکے میں مبتلا ہیں۔ آج کرسمس بھی ہے۔ 25 دسمبر کی ساری دنیا اور پاکستان کے مسیحی حضرت یسوع مسیح کا یوم ولادت مناتے ہیں۔ حضرت یسوع مسیح اسلامی عقیدے کے مطابق مسلمانوں کے بھی پیغمبر ہیں۔ حضرت قائداعظمؒ برصغیر کے مسلمانوں کے مسیحا تھے۔ فیصل آباد کے ایک جلسے میں مسیحیوں نے قائداعظمؒ کو استقبالیہ دیا اور کہا کہ آپ مسلمانوں کے علاوہ ہمارے بھی لیڈر ہیں۔ وہ برصغیر کی ساری اقلیتوں کے لیڈر ہیں۔ تب مسلمان بھی برصغیر میں اقلیت تھے۔ مسیحی ہمارے پاکستانی بھائی ہیں۔ میرے عزیز دوست ولسن نے مجھے کرسمس کے لئے دعوت دی تھی مگر جا نہ سکا۔ ایک مسیحی ادیب شاعر اور لیڈر کنول فیروز بہت محترم شخصیت ہیں۔ وہ نامور شاعر وحیدالحسن ہاشمی کے جنازے میں میرے ساتھ کھڑے تھے۔ انہوں نے بڑے ذوق و شوق کے ساتھ نماز پڑھی۔ ایک ممتاز مسیحی شاعر تخلیقی کیفیتوں والے نذیر قیصر کی خوبصورت اور ولولہ انگیز نعتوں کا مجموعہ ”اے ہوا موذن ہو“ شائع ہوا ہے۔ یہ سب دوست کرسمس کے ساتھ ساتھ یوم قائداعظمؒ بھی جوش و خروش کے ساتھ مناتے ہیں۔ پی ٹی وی کے صبح کے پروگرام میں شاندار اینکر پرسن جگن نے مہمان بشپ آف لاہور الیگزینڈر بات کی تو انہوں نے کہا کہ میں نے عالمی سطح پر کشمیریوں کے لئے آواز اٹھائی ہے۔ ہم پاکستانی ہیں۔ سبز ہلالی پرچم تلے ہم سب ایک ہیں۔ ہمارا پاسپورٹ پاکستانی ہے ہماری پہچان پاکستانی ہے ایک مسیحی بشپ کی یہ باتیں پاکستان کے مسلمان سیاستدانوں اور حکمرانوں سے اچھی ہیں جگن نے خوبصورت بات کہی کہ کئی باتیں یاد ہوتی ہیں مگر وہ دلوں میں سو جاتی ہیں۔ یوم قائداعظمؒ اور کرسمس کے موقعے پر وہ باتیں بیدار ہو گئی ہیں۔ اس کی گواہی بشپ آف لاہور کا یہ پیغام ہے۔ یہ ملک قائداعظمؒ نے ہمارے لئے بنایا۔ ایک بہت حوصلہ افزا بات مسیحی اے آر کارنیلس چیف جسٹس آف پاکستان نے کہی تھی کہ میں آئینی مسلمان ہوں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان زندہ باد قائداعظمؒ زندہ باد۔ بشپ نے کہا کہ ہمیں قائداعظمؒ کا پاکستان بنانے کے لئے جدوجہد کرنا چاہئے۔ اس کے بعد ناصرہ جاوید اقبال اور قیوم نظامی نے قائداعظمؒ کے ساتھ علامہ اقبالؒ کو بھی یاد کیا۔ اس اہم پروگرام کے پروڈیوسر قیصر شریف ہیں۔ جو قومی دنوں کے حوالے سے بہت نمائندہ پروگرام پیش کرتے ہیں۔ آجکل نئے بشپ آف لاہور جناب عرفان جمیل ہیں۔ وہ بھی ایسے ہی خیالات رکھتے ہیں۔ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی تقریب میں محترمہ ثریا خورشید نے قائداعظمؒ کے ساتھ مادر ملتؒ کو یاد کیا۔ انہوں نے تمام مسلمان عورتوں کی نمائندگی کی۔ آج عورتیں جس طرح آگے آ رہی ہیں۔ اس موقعے پر ثریا خورشید کی باتیں بہت بامعنی تھیں۔ معروف نعت خواں سرور نقشبندی نے جب یہ ترانہ دل و جاں کی نسبتوں کے ساتھ سنایا تو ساری محفل ان کے ساتھ شریک ہو گئی ع ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناحشاہد رشید نے یہ خوشخبری بھی سنائی کہ مجید نظامی کی سرپرستی میں ایوان قائداعظمؒ مکمل ہونے والا ہے۔ ہم اگلا یوم قائداعظمؒ وہاں منائیں گے۔ پروگرام کے آغاز میں قائداعظمؒ کی آواز میں ان کے چند جملے سنوائے گئے۔ اردو زبان میں اس تقریر کے اندر ایک لفظ بھی انگریزی کا نہیں ہے۔ آج غیر ضروری انگریزی لفظوں کی ملاوٹ نے اردوکا چہرہ بگاڑ دیا ہے۔ قائداعظمؒ کا یہ جملہ آج بھی ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔مسلمان مصیبت میں گھبرایا نہیں کرتا۔

ای پیپر دی نیشن