صحابی درخت؟

مکرمی! نوائے وقت میں ’’صحابی درخت‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون شائع ہوا ہے۔ اس میں اُس درخت کا تذکرہ ہے جس نے بصری الشام میں بحیرا راہب کی ضیافت کے وقت اپنی شاخیں نبیﷺ کے سر مبارک پر جھکا دی تھیں۔ وہ درخت اگر آج بھی موجود ہے تو جنوبی شام کے شہر بُصریٰ یا بُصری الشام ہی میں ہوسکتا ہے نہ کہ ’’اردن کے علاقہ صفویٰ میں وادیٔ سرہان کے قریب‘‘ جیسا کہ خود مضمون نگار خورشید ربانی صاحب نے لکھا ہے (وادی کا درست نام سرحان ہے نہ کر سرہان)۔ وادیٔ سرحان تو بُصریٰ سے دو اڑھائی سو کلو میٹر جنوب مشرق میں سعودی عرب کے اندر واقع ہے جو اردن کی سرحد تک پھیلی ہوئی ہے۔ اب بُصریٰ کے معجزاتی درخت کو وادیٔ سرحان کے چھتنار درخت پر منطبق کرنا کسی طرح درست نہیں۔ مضمون نگار نے اس تضاد پر توجہ دینے کے بجائے اردن میں بننے والی دستاویزی فلم، شاہ عبداللہ ثانی، شہزادہ غازی بن محمد اور دیگر شیوخ کے حوالے دے کر اپنی بات کو ثقہ بنانے کی کوشش کی ہے مگر جنوبی شام (بصریٰ) اور جنوب مشرقی اردن (وادیٔ سرحان) کے زمانی بُعد سے ’’صحابی درخت‘‘ کا معاملہ حامد کی ٹوپی محمود کے سر والا ہوگیا ہے۔(محسن فارانی۔ لاہور)

ای پیپر دی نیشن