اگرچہ قائداعظمؒ نے اپنے اس خطبہ صدارت میں اسلامی جمہوریت کے دو بنیادی اصولوں یعنی مساوات اور ذاتی عقیدے کی آزادی کی وضاحت کردی تھی، اس کے باوجود انکے مخالفین نے انکے خلاف یہ مہم چلائی کہ وہ قوم پرست ہیں اور پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بناکر رکھ دینگے۔ قائداعظمؒ کو قدرتی طور پر اس غلط پروپیگنڈے سے رنج پہنچا‘ جیسا کہ انکے ایک اخباری انٹریو سے ظاہر ہے جو 25جنوری 1948ءکو اخبارات میں شائع ہوا تھا۔ ایم۔ اے جناحؒ نے فرمایاکہ:۔ ”وہ ان لوگوں کی ذہنیت کو نہیں سمجھ سکتے جو دیدہ و دانستہ اور شرارت سے یہ پرو پیگنڈہ کرتے رہتے ہیںکہ پاکستان کا دستور شریعت کی بنیادپر نہیں بنایا جائیگا۔۔۔۔“ پاکستان کے گورنر جنرل نے کہا:۔ ”میں ایسے لوگوں کو جو گمراہ ہوچکے ہیں‘ بتانا چاہتا ہوں کہ بعض تو محض پروپیگنڈے ہی سے گمراہ ہوجاتے ہیں۔ میں صاف صاف بتادینا چاہتا ہوں کہ نہ صرف مسلمانوں کو بلکہ یہاں غیر مسلموں کو بھی کوئی خوف نہیں ہونا چاہئے“۔ قائداعظم واضح طورپر مضبوط‘آزاد اور بے داغ عدلیہ کے حامی تھے کیونکہ ایسی عدلیہ کے بغیر انسانی حقوق کا تحفظ و نفاذ نہیں ہوسکتا۔ اس سلسلے میں بھی اُنہوں نے اسلامی جمہوریت کے بنیادی اصولوں میں سے ایک کی پیروی کی ۔ یعنی قضا (عدلیہ) کی روایتی آزادی اور علیحدگی ۔ اسلامی نظام سیاست و معاشرت میں قضا ایک آزاد اور جداگانہ ادارے کی حیثیت سے آنحضور کے زمانے ہی سے چلا آرہا ہے۔ بعد کی صدیوں میں قضاة (ججوں) کو ” خلفائے رسول“ قرار دیا جانے لگا کیونکہ وہ قانون الہی کی تشریح کرتے اور اسے نافذ کرتے تھے۔ جونہی قاضی کا تقرر ہوجاتا تھا‘ وہ عاملہ سے کلیتہً آزاد و ماوراءہوجاتا تھا۔ یہاں تک کہ صدر مملکت کو بھی سمن بھیج کر اپنی عدالت میں طلب کرسکتا تھااور اس کے خلاف الزامات کی سماعت و تحقیق کرسکتا تھا۔ ہر شخص‘ صدر مملکت سمیت قانون ربانی کی حاکمیت کے ماتحت تھا۔ اگر صدر عاملہ کی طرف سے کوئی ایسا فرمان جاری کردیا جاتا جو احکامات قرآنی سے متصادم ہوتو ایسے فرمان کو قاضی کا لعدم قرار دے سکتا تھا۔ اس میں شک نہیں کہ بہت سے قاضی اپنی دیانت اور آزادی کے باعث مطلق العنان اور ظالم و جابر حکمرانوں کے ہاتھوں سخت اذیتیں اٹھاتے تھے لیکن وہ قانون ربانی کی عظمت و برتری کو ہر قیمت پر برقرار رکھتے تھے۔ زندگی بھر قائداعظمؒ کو یقین رہا کہ ایک شہری کے بنیادی حقوق کے تصفیے کا اختیار عدالتوں اور صرف عدالتوں کو حاصل ہونا چاہئے۔ جب کبھی عدلیہ کو عاملہ کے ماتحت کرنے کا کوئی اقدام کیاگیا‘ قائداعظمؒ ہمیشہ جرات مندانہ آگے بڑھے اور اُنہوں نے ایسے اقدام اور ایسے فیصلے کیخلاف زبردست جنگ لڑی۔
قائداعظمؒ نے 8نومبر 1945ءکو ایسوسی ایٹڈ پریس آف امریکہ کے نمائندے کو انٹر ویو دیتے ہوئے پاکستان کے مختلف پہلوﺅں پر وضاحت سے روشنی ڈالی اورفر مایا:۔ ”نظریہ پاکستان اس امرکی ضمانت دیتا ہے کہ قومی حکومت کی وفاقی وحدتوں کو ویسی خود مختاری حاصل ہو جیسی آپ کو ریاست ہائے متحدہ امریکہ‘ کینیڈا اور آسٹریلیا کے دساتیر میںنظر آتی ہے لیکن چند اہم اختیارات مرکزی حکومت کے حوالے رہیں گے مثلاً نظام مالیات‘ قومی دفاع اور دیگر وفاقی ذمہ داریاں۔ہر وفاقی وحدت یا صوبے کا اپنا مقننہ‘ عاملہ اور عدلیہ کا نظام ہوگا۔ حکومت کے یہ تینوں شعبے اپنی آئینی ترکیب و تشکیل میں آزادوخود محتار ہونگے“۔ بلاشک وشبہ قائداعظمؒ مضبوط مرکز پر کامل یقین رکھتے تھے لیکن اس کے ساتھ وہ اسلامی تاریخ کے اس سبق سے بھی بخوبی آگاہ تھے کہ جو مرکز اپنی قوت کسی مضبوط آدمی کی طاقت اور مضبوطی سے حاصل کرتا ہے‘ وہ اس مضبوط آدمی کی برطرفی یاموت کے ساتھ ہی لازمی طور پر منہدم ہوجاتا ہے‘ اسکی بلندو بالا عمارت اچانک دھڑام سے گرپڑ تی ہے‘ اس لئے ان کو یقین کامل تھا کہ مرکز کی قوت کا منبع ”رائے عامہ “ ہونا چاہئے“۔ چنانچہ وہ پاکستان میں یک شخصی حکمرانی یا یک جماعتی حکومت کے سخت مخالف تھے۔ 8نومبر 1945ءکو ایسوسی ایٹڈ پریس آف امریکہ کے نمائندے کو انٹر ویو دیتے ہوئے آپ نے کہا:۔ ” مجھے توقع نہیں کہ پاکستان میں ایک جماعت کی حکومت ہوگی اور میں یک جماعتی حکمرانی کی مخالفت کرتاہوں۔مخالف سیاسی جماعت یا جماعتیں برسراقتدار جماعت کیلئے باعث برکت ثابت ہوتی ہیں‘ کیونکہ اسکے اقدامات کی خود بخود اصلاح کرتی رہتی ہیں“۔ قائداعظم کے نزدیک لوگوں کی رائے صرف بلاواسطہ انتخاب کے نظام ہی میں معلوم کی جاسکتی ہے۔ بالفاظ دیگر بلاواسطہ انتخاب ہی سے عوام کے صحیح نمائندے منتخب ہوسکتے ہیں۔ 1931میں لارڈ پیل نے کہا کہ ہندوستان کے ”نیٹو“ ناخواندہ ہیں، اس لئے وہ مرکزی اسمبلی کیلئے اپنے صحیح نمائندے منتخب کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ لارڈ پیل کے نزدیک بلاواسطہ انتخاب کا نظام ہندوستان کیلئے غیر موزوں او خطرناک تھا۔ اسکے بجائے اُنہوں نے ایوانِ زیریں کے نمائندوں کے انتخاب کیلئے بالواسطہ انتخاب کا طریقہ اختیار کرنے کی سفارش کی۔ لارڈ لوتھین نے یہ سکیم منظور کرتے ہوئے اپنی طرف سے یہ دلیل پیش کی کہ بالواسطہ انتخاب سے ایوان زیریں کے نمائندے چننے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ عوام الناس کے نمائندے نہیں ہیں۔لارڈ ریڈنگ نے رائے دی کہ یہ معاملہ ایک خصوصی کمیشن کے سپرد کیا جاناچاہئے۔ مگر قائداعظم نے بالواسطہ انتخاب کا طریقہ اختیار کرنے کی شدید مخالفت کی۔
قائداعظمؒ کے نزدیک اسلامی جمہوریت کے بنیادی اصول یہ ہیں: مساوات ِ انسانی‘ ہرایک سے انصاف وا حسان اور بلالحاظ و امتیاز ذاتی عقیدے کی آزادی۔ اللہ تعالٰی نے مسلمانوں کو حکم دیاہے کہ انصاف واحسان کو ملحوظ رکھیں۔ قرآن مجید میں آیا ہے: ”اے ایمان والو! انصاف پر قائم رہنے والے بنو۔ اللہ کیلئے گواہی دینے والے رہو خواہ یہ گواہی تمہاری اپنی ہی ذات کیخلاف ہو یا تمہارے والدین یا قریبی رشتہ داروں کیخلاف ہو‘ خواہ وہ شخص امیرہو یا غریب‘ دونوں کیساتھ اللہ پوری طرح سے نپٹ سکتا ہے۔ سوتم اپنی خواہشاتِ نفس کی پیروی مت کرو‘ مباداحق سے ہٹ جاﺅ لیکن اگر تم مڑو گے یا پہلوتہی کروگے تو بلاشبہ اللہ تمہارے سب اعمال کی پوری خبر رکھتاہے“ (135-4) صاف ظاہر ہے کہ اسلامی ریاست تھیوکر یسی نہیں ہوسکتی کیونکہ اسلام میں پاپائیت (پیشوائیت) کی ہرگز گنجائش نہیں ہے۔ مسلمانوں کو ترکِ دنیاسے منع کیا گیا ہے۔ اسلام نے روز مرہ کی دنیاوی زندگی بسر کرنے کیلئے مسلمانوں کیلئے باقاعدہ اصول وضع کئے ہیں۔ پس قائداعظمؒ کے الفاط میں اسلام محض روحانی نظریات کا مجموعہ ہی نہیں بلکہ ہر مسلمان کیلئے ضابطئہ حیات بھی ہے جس کے مطابق وہ اپنی روز مرہ زندگی‘ اپنے افعال واعمال اور حتٰی کہ سیاست اور معاشیات اور دوسرے شعبوں میں بھی عمل پیرا ہوتا ہے۔ (ختم شد)
قائداعظم ؒ اور اسلامی جمہوریت
قائداعظم ؒ اور اسلامی جمہوریت
Dec 26, 2013