خبر ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ق) کے صدر چودھری شُجاعت حسین نے ”جولائی 2007ءمیں اسلام آباد کی لال مسجد کے خلاف فوجی آپریشن کے دوران مسجد کے نائب خطیب غازی عبداُلرشید اور اُن کی والدہ کے قتل کے مقدمے میں شہادت (گواہی) ریکارڈ کرانے سے انکار کر دیا ہے۔ اِس مقدمے میں "Principal Accused" ( بڑے ملزم) سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف ہیں اور مُدعّی ہے غازی عبداُلرشید کا بیٹا مسمّی ہارون رشید غازی، عبداُلرشید کی والدہ لال مسجد کے خطیب مولانا عبداُلعزیز کی بھی والدہ تھیں۔ مولانا عبداُلعزیز اپنی والدہ کے مقدمہ¿ قتل میں خود مُدعّی کیوں نہیں بنے؟ یہ بات ابھی تک صِیغہ¿ راز میں ہے۔ اِسی مقدمہ میں کراچی کے قاری حنیف جالندھری کو بھی شاہد (گواہ) بنایا گیا تھا لیکن جالندھری صاحب نے بھی گواہی دینے سے انکار کر دیا ہے اور کہا ہے کہ ”میرا نام میری رضا مندی کے بغیر گواہوں میں شامل کیا گیا ہے۔“ مقدمہ¿ قتل کی تفتیش کرنے والی جے آئی ٹی کے رُکن مسٹر افتخار چٹھہ کا کہنا ہے کہ ”چودھری شُجاعت حسین نے اِس مقدمہ¿ قتل میں اپنا بیان ریکارڈ کرانے سے انکار کر دیا ہے اور کہا ہے کہ ”مَیں ابھی فارغ نہیں ہُوں۔ جب فارغ ہوں گا، تو سوچوں گا“ یعنی ع
”اور بھی غم ہیں زمانے میں ’شہادت‘ کے سِوا“
اُدھر ”لال مسجد شُہدا فاﺅنڈیشن“ نے چودھری صاحب کے بیان پر شدید ردِعمل کا اظہار کرتے ہُوئے کہا کہ ”چودھری شُجاعت حسین نے شُہدائے لال مسجد و جامعہ حفصہ کے خون سے غداری کا ثبوت اور جنرل (ر) پرویز مشرف سے محبت کا اظہار کِیا ہے۔“ اِس فاﺅنڈیشن نے قاری حنیف جالندھری کے خلاف اِس طرح کے شدید رِدعمل کا اظہار کیوں نہیں کیا؟ یہ بات بھی فی الحال صِیغہ¿ راز میں رکھی گئی ہے۔ مسمّی ہارون رشید نے اپنے والد اور دادی کے مقدمہ¿ قتل میں نامزد کئے گئے 15ملزمان میں سے 7 کے نام واپس کیوں لے لئے ہیں؟ باقی 8 نامزد ملزمان میں جنرل (ر) پرویز مشرف اور سابق وزیرِاعظم شوکت عزیز سمیت آفتاب احمد شیر پاﺅ، خورشید محمود قصوری، سینیٹر طارق عظیم، سیّد کمال احمد، کامران لاشاری اور محمد ظفر عباسی شامل ہیں۔ چودھری شُجاعت حسین کا گواہ کی حیثیت سے بیان ریکارڈ کرنے سے اور قاری حنیف جالندھری کے گواہی دینے سے انکار سے مقدمہ¿ قتل میں بڑے ملزم جنرل پرویز مشرف کو کیا فائدہ ہوگا؟ اِ س کا فیصلہ تو عدالت نے ہی کرنا ہے۔ حضرت امِیر مینائی نے تو اپنی کیفیت یوں بیان کی تھی جب کہا
”دِل و جگر بھی طرف دار ہو گئے، اُن کے
مرے حرِیف سے جا کر مِلے، گواہ مرے“
ا ب رہا چودھری شُجاعت حسین پر ”لال مسجد کے شُہدا“ کے خون سے غدّاری اور جنرل (ر) پرویز مشرف سے محبت کا اظہار کا الزام؟ تو اِس بارے میں بھی شاعر نے کہا تھا
”پرانی صحبتیں یاد آرہی ہیں
چراغوں کا دُھواں دیکھا نہ جائے“
محبت کتنی ہی پرانی کیوں نہ ہو کبھی نہ کبھی جوش تو مارتی ہی ہے۔ 20 اپریل 2012ءکو فیڈرل شریعت کورٹ کے جسٹس شہزادو شیخ پر مشتمل یک رُکنی ”لال مسجد کمشن“ کی رپورٹ شائع ہُوئی، جِس میں لال مسجد آپریشن (Opertaion Sunrise) کا ذمہ دار سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف، سابق وزیرِاعظم شوکت عزیز، اُس وقت برسرِ اقتدار مسلم لیگ ق اور اُس کی اتحادی جماعتوں کو ٹھہراتے ہُوئے پاک فوج کو آپریشن سے بری اُلذّمہ قرار دِیا گیا تھا اور یہ بھی تجویز کِیا گیا تھا کہ ”لال مسجد آپریشن کے ذمہ داروں کے خلاف قتل کے مقدمات درج کئے جائیں۔“ مسمّی ہارون رشید نے جسٹس شہزادو شیخ صاحب کی رپورٹ کی اشاعت کے بعد ہی جنرل (ر) پرویز مشرف اور اُن کے ساتھیوں (چودھری شُجاعت حسین کے سوا) کے خلاف اپنے والد اور دادی کے قتل کا مقدمہ درج کرانے کے لئے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
جسٹس شہزادو شیخ نے اپنی رپورٹ میں لال مسجد آپریشن کے دوران جاں بحق ہونے والے پاک فوج کے 11 افسروں اور جوانوں کو ”شہید“ قرار دیا تھا لیکن اِس سے قبل لال مسجد آپریشن کے بعد 12 جولائی 2007ءکو اسلام آباد میں (اُن دِنوں فعال اور محترک) متحدہ مجلسِ عمل کے صدر قاضی حسین احمد (مرحوم) سیکریٹری جنرل مولانا فضل اُلرحمن اور رکن مولانا عبداُلغفور حیدری نے 12جولائی کو اسلام آباد میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہُوئے کہا تھا کہ ”لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر بمباری اور امریکی مفادات کی حفاطت کرنے والے پاک فوج کے افسروں اور جوانوں کو ”شہید“ نہیں کہا جا سکتا۔“ اُس وقت کی حکومت خاص طور پر پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر نے قاضی حسین احمد، مولانا فضل اُلرحمن اور مولانا عبداُلغفور حیدری کے بیان کا نوٹس نہیں لِیا۔ چار سال بعد جب جماعتِ اسلامی کے موجودہ امیر سیّد منور حسن نے دہشت گردوں کے خلاف لڑتے ہُوئے پاک فوج کے افسروں اور جوانوں کو ”شہید“ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور 50 ہزار فوجیوں اور معصوم شہریوں کو قتل کرنے والوں کے سرغنہ حکیم اللہ محسود کو ”شہید“ ہونے کا سرٹیفیکیٹ جاری کر دیا تو آئی ایس پی آر حرکت میں آیا۔ وہ بھی محض ایک بیان کی حد تک۔
کیوں نہ جنرل (ر) پرویز مشرف اور اُن کے ساتھیوں کے خلاف غازی عبداُلرشید اور اُن کی والدہ کے مقدمہ¿ قتل میں مولانا فضل اُلرحمن، مولانا عبداُلغفور حیدری اور قاضی حسین احمد مرحوم کے جانشین سیّد منور حسن کو بھی گواہوں کے طور پر طلب کر لیا جائے اور انہیں قُرآن اور حدیث کی رُو سے ثابت کرنے کا موقع دیا جائے کہ ”کیا واقعی لال مسجد کے خلاف آپریشن میں شریک پاک فوج کے افسران اور جوان ”شہید“ نہیں تھے؟“ سپریم کورٹ یا فیڈرل شریعت کورٹ میں اِس بات کا بھی فیصلہ ہو جائے کہ لال مسجد کے خطیب مولانا عبداُلعزیز اور نائب خطیب غازی عبداُلرشید تو مسجد میں سرکاری ملازم تھے پھر اُنہیں پاکستان بھر میں اپنی مرضی کی شریعت نافذ کرنے اور شرعی عدالتیں قائم کرنے کا اختیار کِس نے دیا تھا؟ کیا مولانا عبداُلعزیز اور اُن کے مقتول بھائی نے پاکستان کے آئین سے غدّاری نہیں کی تھی؟ چودھری شُجاعت حسین نے 12 جولائی 2007ءکو ہی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر بیان جاری کر دیا تھا کہ ”میرے مولانا عبداُلعزیز اور غازی عبداُلرشید سے کئی بار مذاکرات ہُوئے۔ اُن کا اصرار ہے کہ صدر جنرل (ر) پرویز مشرف فوری طور پر مُلک میں شریعت نافذ کر دیں۔“ کیا دونوں بھائیوں کو پاکستان کے آئین کی توہین کرنے کا مجرم ثابت کرنے کے لئے چودھری صاحب کی یہی ”شہادت“ کافی نہیں؟