اسلام آباد (قدسیہ اخلاق / دی نیشن رپورٹ) امریکہ کیلئے نامزد پاکستانی سفیر جلیل عباس جیلانی اپنے لئے نئے چیلنجز سے بھرپور ذمہ داریوں کے تناظر میں عہدے کا چارج سنبھالنے کیلئے کل واشنگٹن روانہ ہونگے۔ جلیل عباس جیلانی نے کہا ہے کہ نئے سفیر کی حیثیت سے ان کی اوّلین ترجیحات میں امریکہ کیساتھ تجارت، اقتصادی تعلقات کو فروغ دینا، قونصلر سروسز کو بہتر بنانا اور تعلقات کو مثبت سمت میں فعال کرنا شامل ہے۔ دی نیشن سے خصوصی انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ واشنگٹن میں ان کی اوّلین ترجیح پاکستان امریکہ تعلقات کو مزید بہتر بنانا ہے جو دونوں جانب سے باہمی تعاون، تجارت، تعلیم، صحت، توانائی، سائنس، ٹیکنالوجی کے شعبوں کو فروغ دینے کی خواہشات کا حقیقی اظہار ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم محمد نواز شریف کی تمام ممالک کے سفارتی مشنز کو پہلی ہدایت یہ ہے کہ وہ ان ممالک کے ساتھ تجارتی، اقتصادی تعلقات کو بہتر بنائیں اور میں اس ہدایت پر اس کی روح کے عین مطابق عمل کروں گا۔ امریکہ پہنچنے کے بعد وہ امریکی محکمہ خارجہ کو اپنی سفارتی دستاویزات دیں گے۔ وہ اس سے قبل آسٹریلیااور برسلز میں سفارتی ذمہ داریاں نبھا چکے ہیں، یہ انکی تیسری ذمہ داری ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ قونصلر سروسز بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ پاکستانی کمیونٹی کے ساتھ بہترین روابط کو فروغ دینا بھی انکی ترجیحات میں شامل ہے۔ جلیل عباس جیلانی 1995ء سے 1999ء تک واشنگٹن میں پہلے منسٹر اور پھر ڈپٹی ہیڈ آف دی مشن کے طور پر کام کرچکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی امریکن کمیونٹی نے پاکستان کا مثبت امیج ظاہر کرنے کیلئے اہم ترین کردار ادا کیا ہے۔ 58 سالہ جلیل عباس جیلانی آج 27ویں خارجہ سیکرٹری کے طور پر اپنے عہدے کا چارج چھوڑیں گے جس کے بعد نئے خارجہ سیکرٹری اعزاز احمد چودھری یہ منصب سنبھالیں گے۔ امریکہ میں سفیر کا عہدہ اس سال مئی میں اس وقت سے خالی ہے جب پی پی پی کی جانب سے مقرر کی گئی سفیر شیری رحمن نے عہدہ چھوڑ دیا تھا۔ 23 اکتوبر کو وزیراعظم نواز شریف کے دورئہ امریکہ سے قبل جلیل عباس جیلانی کی اس عہدہ پر نامزدگی ہوئی تھی۔ اس وقت انہوں نے بطور خارجہ سیکرٹری ان مذاکرات میں شرکت کی تھی۔ سفارتی اور سٹرٹیجک طور پر انکے سامنے بڑا چیلنج پاکستان اور امریکہ میں متعدد امور پر غلط فہمیوں کا ازالہ کرنا اور پاکستانی حکومت کی پالیسیوں سے ہم آہنگی قائم کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان اور دوسرے امور پر پاکستان کو پرانے نقطہ نظر (منشور) سے نہیں دیکھنا چاہئے، اب پاکستان کے بارے میں مثبت امور کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ انکی کوشش ہوگی کہ امریکی کانگرس کے نمائندوں سے روابط رکھ کر ان سے پاکستان کے حقیقی قومی سلامتی کے امور بالخصوص ڈرون حملوں کے بارے میں بات کریں اور ان سے اس حوالے سے حمایت حاصل کی جائے۔ جہاں تک ہمیں ان کے ساتھ ان معاملات پر انگیج رہنے کی ضرورت کا تعلق ہے، یہ بات بہت اہم ہے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کی حدود کے بارے میں ریڈ لائنز کا احترام کریں۔ 2012ء میں جب جلیل عباس جیلانی سیکرٹری خارجہ بنے، اس وقت پاکستان کو خارجہ پالیسی کے حوالے سے کئی طرح کے چیلنجز درپیش تھے۔ ان میں سلالہ چوکی پر امریکی حملہ، کابل سے کشیدہ تعلقات شامل تھے۔ وہ اعلیٰ سطح پر ہونے والے مذاکرات میں شریک رہے ہیں۔ 2012ء میں جلیل عباس جیلانی پاکستان امریکہ افغانستان کور گروپ کے اجلاس میں ان کا کہنا ہے کہ چین اور ترکی کے ساتھ تعلقات مزید گہرے ہوئے ہیں۔ انکا خیال ہے کہ آنیوالے دنوں میں ایران کی نئی حکومت کے ساتھ تعلقات مزید بہتر ہوں گے اور پاکستان ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی جانب پیشرفت ہوگی۔ شام کے حوالے سے پاکستان نے اصولی موقف اختیار کیا ہے۔ جلیل عباس جیلانی جولائی میں بھارت کے ساتھ جامع مذاکرات کے دوسرے دور میں بھی شریک رہے۔ انکا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے ڈی جی ایم اوز میں ملاقات بہت اہمیت کی حامل ہے۔ 2003ء میں بھارت کے سابق نائب وزیراعظم ایڈوانی نے جلیل عباس جیلانی کو بھارت سے نکال دیا تھا مگر گزشتہ سال نئی دہلی کے مذاکرات کے دوران انہوں نے انہیں اپنے گھر بلایا تھا۔ جب وہ ایڈوانی اور ان کے اہل خانہ کی میزبانی سے لطف اندوز ہورہے تھے تو بی جے پی کے سینئر رہنما یشونت سنہا جلیل عباس کے استقبال کے حوالے سے حکمران کانگرس کو ہدفِ تنقید بنا رہے تھے۔ جلیل عباس کی جگہ لینے والے اعزاز احمد چودھری ان کی وراثت آگے بڑھائیں گے۔ دفتر خارجہ کے ذرائع کے مطابق جلیل عباس جیلانی آج ہیٹی سے واپس آرہے ہیں جس کے بعد وہ باقاعدہ طور پر اعزاز احمد چودھری کو ذمہ داریاں دیکر امریکہ چلے جائینگے۔ اعزاز احمد چودھری جمعہ کو باقاعدہ طور پر سیکرٹری خارجہ کا عہدہ سنبھالیں گے۔ ذرائع کے مطابق جلیل عباس جیلانی کو عہدہ سنبھالنے کے بعد پشاور کے راستے سے نیٹو سپلائی کی بندش کے حوالے سے امریکی دبائو کا سامنا ہوگا۔ ان کیلئے پہلا مرحلہ ہی مشکل ہوگا۔ دوسری جانب اعزاز احمد چودھری انتہائی اچھے سفارتکار ہیں تاہم انہیں بھی بہت سے ملکی اور غیرملکی تعلقات کے حوالے سے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑیگا۔