خبر کا نوٹس

Dec 26, 2014

اعظم ملک

  قیام پاکستان سے لے کر آج تک پاکستان کے غریب عوام سول و ملٹری حکومتوں کے نعروں پر بھروسہ کرتے آئے لیکن اُن کی مُراد  بر نہ آسکی۔  پاکستان کے وڈیروں ، جاگیرداروں اور نوابوں نے ہمیشہ اقتدار پر گرفت مضبوط رکھی اور سول بیوروکریٹس کے ساتھ مل کر لوگوں کو غلام بنانے کی ذہنیت کے سبب علم کی روشنی کو پھیلنے سے روکا۔  1985ء  کے بعد ان جاگیرداروں اور نوابوں کے ساتھ ساتھ سرمایہ دار بھی شامل ہو گئے۔  پہلے پہلے تو روایتی سیاستدانوں نے مزاحمت کی کوشش کی لیکن حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے دوسرے فریق کی حقیقت کو تسلیم کرکے اس سے گٹھ جوڑ کر لیا۔  1985 ء سے لے کر 1997 ء تک ٹرائیکا بن چکا جس میں سیاستدان ،سول بیوروکریسی اور سرمایہ دار شامل تھے ۔  جنرل مشرف کے اقتدار پر قبضے کے بعد پاکستان میں ٹی وی چینلز کے نئے دورہ کا آغاز ہوا جس کے بعد پورا منظر نامہ ہی بدل گیا۔  مجید نظامی اور ان جیسے اصول پرست صحافیوں ،استاد اور نظریہ پاکستان کے محافظ کے مدمقابل کچھ سرمایہ دار اور کچھ اقتدار کے ایوانوں میں رہنے کے شوقین صحافت سے وابستہ ہوکرپاور ٹرائیکا میں شامل ہو گئے۔  غریب آدمی کو پینے کے صاف پانی ،تعلیم، صحت اور انصاف سے محروم رکھا گیا۔  طاقتور کے لیے ملک میں قانون اور ، عام پاکستانی کے لیے قانون اور۔  ہمیشہ حکمرانوں اور اشرافیہ نے پولیس کو ذاتی فورس کے طور پر اپنے مخالفین اور غریب آدمی کو دبانے کے لیے استعمال کیا گیا۔  پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت میں جس طرح خصوصاً قومی اداروں میں کرپشن ،لوٹ مار  اور بیڈ گورنس نے ملک کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا۔  موجودہ حکومت بھی اس ڈگر پر چلتے ہوئے ابھی تک اداروں میں اچھے سربراہوں کو تعینات نہیں کر سکی۔  کرپشن اور سیاسی تعیناتیاں بدستور جاری ہیں۔  غریب آدمی کو میرٹ پر نوکری ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔  ٹرانسفرز ،چھٹی اور نوکری کے لئے حکومتی اراکین کا دبائو اور  اثر وسوخ ہر طرف نظر آتا ہے۔ پولیس رشوت لے کر مجرم کو بے گناہ اور مدعی کو ملزم بنانے کو عار نہیں سمجھتی۔  قبضہ گروپوں کے ہاتھ قانون سے لمبے نظر آتے ہیں ۔  ناجائز قبضوں ،بیوائوں کے پلاٹوں میں ہیر پھیر  اور سرکاری املاک پر تجاوزات قانون کی حکمرانی کو چیلنج کر رہے ہیں ۔  ریٹائر منٹ کے بوڑھے لوگ اپنی پینشن کے لیے دھکے کھاتے نظر آتے ہیں۔  تھر میں سینکڑوں بچے بھوک پیاس سے جان کی بازی ہار جاتے ہیں ۔  ریوینیو بورڈ  اور پٹواری راج کے ستائے ہوئے لوگ رشوت دینے پر مجبور ہیں ۔ ہسپتالوں میں ڈاکٹر ڈیوٹی سے غائب اور سرکاری ادویات کرپشن کی نظر ہو جاتی ہیں اور ان کی جگہ جعلی ادویات رکھ دی جاتی ہیں اور غریب علاج نہ ہونے کے سبب اگلے جہاں کوچ کر جاتے ہیں ۔  بدمعاشوں، اوباشوں اور با اثر  زمینداروں کے ہاتھوں مجبور بے کس عورتوں کی اجتماعی و انفرادی زیادتی معمول بن چکا ہے اور حکمرانوں نے ان سب کا حل ڈھونڈ لیا ہے۔  حکومت کی طرف سے ٹی وی چینلز پر بریکنگ نیوز دی جاتی ہے کہ وزیراعظم،وزیراعلیٰ  یا  وزیر  نے فلاں زیادتی یا ظالم کا نوٹس لے لیا۔  حکمرانوں کا نوٹس لینا غریب کے بچے پر احسان ِعظیم ہے۔  شہرت اور سیاسی پذیرائی کے لیے اگر دیکھا جائے کہ زیادتی و ظلم بہت بڑا ہے تو فوراً متعلقہ سرکاری ملازم و افسر کو معطل کر دیا جاتا ہے ۔   شارٹ کٹ حکمرانوں کو ہر چیز سے مبرہ کر دیتا ہے۔ حکمران جتنے نوٹس عوام پر زیادتیوں کے لیتے ہیں اگر صرف اُن کیسوں میں ہی مظلوم سے انصاف ہو جائے تو معاشرے میں بہتری کے آثار صاف نظر آئیں ۔  حکمرانوں کے بے شمار نوٹس خود اس بات کا ثبوت ہیں کہ گُڈ گورنس کے دعویدار حکمران اداروں کو مضبوط نہیں بنا سکے اور قانون کی عملداری معاشرہ میں نہیں ہے۔  حکمران اپنے ہی نوٹسزز کا جائزہ لے تو اُس کو خوفناک حقائق جاننے کا موقع ملے گا۔  کوئی افسر یا سرکاری ملازم جو نوٹس کی پاداش میں زیر عتاب آیا  یا نا اہلی کی بدولت معطل ہوا ،کچھ ہفتوں کے بعد اُس سے بھی اچھی جگہ ٹرانسفر ہوا۔  اگر نوٹس کی بدولت کسی مظلوم کا گنہگار پکڑا گیا تو حکومتی اراکین اسمبلی کی مہربانیوں سے  گنہگار صلح کے نام پر کچھ دنوں بعد ہی رہا ہوا۔ قانون کی حکمرانی قائم ہوئی نہ ہی غریب آدمی کو انصاف ملا ۔  خُدا را  بند کریں غریبوں ، مظلوموں ،یتیموں ، بیوائوں اور لاچاروں کے ساتھ اس نوٹس مذاق کو  اور توجہ دیں عوام کی حالت بدلنے پر،  مظلوموں کو انصاف دینے کے لیے اور غریبوں کو اُن کا حق دینے کے لیے۔  پاکستان کی نوجوان نسل نظام کی تبدیلی کی شدید خواہاں ہے جو ایک تلخ حقیقت اور وقت کی ضرورت ہے۔پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے اپنے غیر جمہوری رویوں میں تبدیلی نہ کی اور عوام کے حقوق اور معاشرے میں قائم قانون کے حکمرانوں نے انصاف مہیانہ کیا تو آنے والے وقت میں عوام نظام سے خود ٹکراتے نظر آرہے ہیں۔ اس سے پہلے کہ عوام اشرافیہ اور حکمران طبقے کے خلاف فیصلہ کن نوٹس لینے کا اعلان کر دیں ۔  حکمران طبقہ اپنا قبلہ درست کر لیں۔

مزیدخبریں