شاہ نواز تارڑ
مالک ارض و سماءنے ربیع الاول میں اپنا آخری نبی مبعوث فرمایا اس مناسبت سے اس ماہ مبارک (الربیع الاول) کو انسانیت پر بہار کا مہینہ کہا جائے تو مبالغہ نہیں ہو گا کیونکہ انسانیت پر بہار سے قبل مذہب بازیچہ اطفال بن گیا تھا۔ دنیا اخلاق و کردار کی پستیوں میں گری ہوئی تھی۔ احکامات الہی کو من مرضی کے مطابق ڈھال لیا جاتا تھا۔ انسانیت کی قدر تھی نہ مساوات و تقویٰ کو اہمیت تھی۔ کوئی قانون و ضابطہ تھا نہ تورات، زبور، انجیل اور دیگر آسمانی صحیفے اصلی حالت میں تھے، معیشت اور سرمایہ کاری کا سارا دارو مدار سود پر تھا۔ صنف نازک جنس بازار تھی،ماں، بہن، بیٹی اور بہو جیسے مقدس رشتوں کے تقدس کا تصور نہ تھا۔ عیسائیت اور یہودیت کے پیروکاروں نے بانیان مذاہب کی خوبصورت قباو¿ں کو کئی کئی” پیوند“ لگا کر بدصورت بنا دیا تھا۔ بیت اللہ بتوں سے بھرا پڑا تھا۔ کعبہ اور طواف کعبہ کو کھیل تماشہ بنا دیا گیا تھا اسی پر حوصلہ پاتے ہوئے ملعون دنیا و آخرت ابرہہ اپنی ناپاک خواہش کی تکمیل کیلئے نکلا تھا لیکن خالق کائنات کی رحمت جوش میں آئی۔ ہاتھیوں پر سورا ہو کر آنیوالوں کی رعونت خاک میں مل گئی اور وہ اتنی ذلت کی موت مر گئے کہ مٹی نے ان کے ناپاک وجود بھی قبول نہ کیے اور وہ جانوروں پرندوں اور حشرات الارض کی خوراک بن گئے۔
کعبہ کے مالک نے کعبہ کی حفاظت کی اور” جاءالحق وزھق الباطل“ ( حق آگیا باطل مٹ گیا) کا ترانہ پرھنے والے کو مبعوث فرما دیا۔ سیرت اور سوانح کی کتابوں کے مطابق9 یا 12 ربیع الاول کو انسایت پر بہار آئی۔
ہوئی پہلو آمنہ سے ہویدا
دعائے خلیلؑ نوید مسیحاؑ
لیل و نہار، ماہ وسال اور موسموں کو بدلنے پر قدرت رکھنے والی ذات باری تعالی نے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے انسایت پر ایسی بہار نازل کی جس سے ” اندیشہ زوال“ختم ہو گیا۔
پھر انسانیت کو عروج ملا۔ قانون کی حکمرانی ہوئی، مساوات اور تقوی کو اہمیت ملی، حسب نسب پر اترانے سمیت جاہلیت کے تمام مصنوعی اصول برتری روند دئیے گئے۔ غلام کو آقا کے برابر حقوق ملے۔ صنف نازک اپنے وقار ور احترام کی صحیح حق دار ٹھہری،جاہلیت کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بحیرہ عرب میں غرق کر دیا گیا۔
باپ کے غضب کا شکار ہو زندہ درگور کی جانیوالی بیٹی کو عزت اور محبت ملی۔باپ کا پیار نصیب ہوا۔ وراثت میں حق دار ٹھہری، خاندانی عصبیتوں کے بت پاش پاش ہو گئے۔ برتری کا معیار صرف تقوی کو قرار دیا گیا۔
”من قتل نفساً فقتل الناس جمیعاً ( جس نے اےک انسان کو قتل کیا اس نے انسانیت کا قتل کیا) کہہ کر انسانیت کو بہار عطا کی۔
سود کو اپنے ساتھ جنگ قرار دے کر معیشت کی زنجیروں میں جکڑی زندگی کو عزت اور عظمت عطا کی۔
انسانیت ہی نہیں، ہر جاندار کو وہ عزت و عافیت نصیب ہوئی کہ چشم فلک نے اس سے قبل ایسی بہار نہیں دیکھی ہو گی۔ اس بہار کو اللہ نے قرآن میں مومنوں پر احسان سے تعبیر فرمایا اور اسی بہار کی آمد پر بنونجار کی بیٹیوں نے کہا تھا کہ
طلع البدر علینا من شنیا الوادع
وجب الشکر علینا
ہم پر چودھویں کا چاند طلوع ہوا اس لیے ہم پر شکر واجب ہو گیا۔
لہذا نبی سے اظہار عقیدت اور ربیع الاول کا تقاضا ہے
سیرت طیبہ پر عمل کیا جائے۔ کیونکہ
محمد سے محبت دین حق کی شرط اول ہے
گر ہو اس میں خامی تو ایمان نا مکمل ہے