اس میں شک نہیں کہ ملک اس وقت مشکل ترین حالات سے دو چار ہے۔ معصوم بچوں کے پشاور کے ایک سکول میں بے رحمانہ اور بزدلانہ قتال نے ہمارے کلیجے چھلنی کر دیئے ہیں۔ ہر ایک آنکھ اشکبار ہے اور ملک کا بچہ بچہ دہشت گردوں کی اس کارروائی کو درندگی کی بدترین مثالوں سے تعبیر کر رہا ہے لیکن اچھی بات یہ ہے کہ اس سے پاکستانی قوم کے حوصلے پشت نہیں ہوئے بلکہ پوری قوم متحد ہو کر سامنے آئی ہے۔ واردات کے بعد پہلی کل جماعتی کانفرنس میں ہر جماعت کی شمولیت اور حکومت کو مکمل تعاون کی پیش کش قابل تحسین اقدامات تھے۔ ایسا کیوں نہ ہوتا۔ یہ ملک ہمیں اپنی جانوں سے بھی عزیز ہے۔ پاکستان ہماری پہچان ہے۔ ہمارا ملک ہمارا فخر ہے۔ اسکے چپے چپے کے تحفظ کیلئے ہم اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرتے رہیں گے۔ پہلی کل جماعتی کانفرنس نے ایک کمیٹی تشکیل دی اور ان کو سات دنوں کے اندر اپنی معروضات پیش کرنے کا کہا گیا۔ گیارہ گھنٹوں کی بحث کے بعد اے پی سی نے منظور کر لیں۔ کمیٹی کے بننے سے کچھ لوگوں نے یہ غلط تاثر لیا تھا کہ شائد اب سات دنوں تک حکومت ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھی رہے گی اور کمیٹی کی سفارشات آنے پر اگلا قدم اٹھایا جائیگا۔ یہ موجودہ حکومت کیخلاف منفی پراپیگنڈہ تھا جو کچھ لوگ دانستہ یا غیر دانستہ طور پر کر رہے تھے واقعات گواہ ہیں کہ ادھر کمیٹی بنی اور ساتھ ہی چیف آف آرمی سٹاف حکومت کی طرف سے اپنا نقطہ نظر بیان کرنے کابل پہنچ گئے۔ ساتھ ہی ضرب عضب میں مزید تیزی کیساتھ ساتھ خیبر ایجنسی اور تیرہ کی وادی میں بھی دہشتگردوں کے ٹھکانوں پر زبردست ہوائی حملے شروع ہو گئے۔ کائونٹر ٹیررازم آپریشن پورے ملک میں ایک نئے جذبے سے شروع ہے۔دہشت گردوں کی پشاور کے آرمی سکول پر یلغار کے چند گھنٹوں بعد ہی سزائے موت پر پابندی کو ختم کر دیا گیا۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے نہ صرف کور کمانڈرز کو معاملات سے آگاہ کیا بلکہ افغان چیف آف جنرل سٹاف اور نیٹو افواج کے کمانڈرز بھی جی ایچ کیو آ کر جنرل راحیل سے ملے۔ اسکے ساتھ ہی افغان فوج نے پاکستان کی نشاندہی پر اپنے صوبے کنڑ میں پہلی دفعہ ٹی ٹی پی دہشتگرد مار دیئے۔ ساتھ ہی وزیر اعظم نے دوسری اے پی سی بھی بلائی جس کااجلاس 23 دسمبر بروز بدھ ہوا۔ اس اے پی سی نے ورکنگ کمیٹی کی تقریباً ساری سفارشات کو قابل عمل قرار دے دیا۔ ان پر بھی کام بغیر کسی لیت و لعل کے شروع ہو چکا ہے۔ اطلاعات کیمطابق زیادہ مباحثہ فوجی عدالتوں کے قیام پر ہوا۔ انہوں نے فرمایا ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی ایک عجیب منطق بھی سامنے آئی کہ اگر فوجی عدالتوں کی تشکیل ہونی ہے تو پھر بہتر ہے کہ ملک میں مارشل لا ہی لگا دیا جائے۔ الطاف حسین چونکہ عرصہ دراز سے ملک سے باہر ہیں ان کو شاید اس بات کا ادراک نہیں کہ افواج پاکستان کے قابل قدر اور مایہ ناز پاکیزہ ادارے کیساتھ اگر سب سے بڑی زیادتی یا ظلم کرنامقصود ہو تو ان کو کھینچ کر سیاسی اکھاڑے میں لے آیا جائے۔ یہ پاکستان کے دشمنوں کا خواب ہے۔ الطاف حسین بخوبی جانتے ہیں کہ ستر کی دہائی میں جنرل یحییٰ خان کی فوجی حکومت سابقہ مشرقی پاکستان کے مکتی باہنی کی شکل میں بھارتی ٹکڑوں پر پلنے والے دہشتگردوں کو اس لئے شکست نہ دے سکی چونکہ اقتدار کے ایوانوں میں دوررس بصیرت والا سیاسی قائد موجود تھا نہ پاکستان کے دونوں صوبوں یعنی مشرقی اور مغربی پاکستان کی نمائندہ کوئی ایسی مشترکہ پارلیمنٹ موجود تھی جو بروقت سیاسی فیصلے کرتی۔ شیخ مجیب الرحمن کی حفاظت پر مامور اس وقت کے پولیس ایس پی راجہ انارخان نے جن کا تعلق میرے علاقے چکوال سے ہے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں یہ چونکا دینے والا راز فاش کیا کہ شیخ مجیب الرحمن مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی خبر سن کر حیران رہ گیا اور سجدے میں جا کر کہا یا اللہ میں نے تو ایسا نہیں چاہا تھا۔ وہ تو پورے متحدہ پاکستان پر اپنی اکثریت کے بل بوتے پر حکومت کرنے کا خواہاں تھا جو جائز خواہش تھی اس سلسلے میں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کا کردار جو بھی تھا ملک کی باگ ڈور تو ایک سیاسی چالوں سے ناآشنا فوجی جنرل کے پاس تھی۔ اسی طرح جنرل ضیاء الحق کی ملک کے ساتھ اپنی ساری وفا داری کے باوجود یہ نہ سمجھ پائے کہ سویت یونین کیخلاف لڑنے والے مجاہدین ہی بعد میں ان دہشت گردوں کو جنم دے سکتے ہیں جنہوں نے بینظیر بھٹو جیسے سیاسی قائدین، لیفٹیننٹ جنرل مشتاق بیگ جیسے فوجی سالار اور پشاور کے آرمی سکول میں سینکڑوں معصوم فرشتوں پر گولیاں برسائیں۔ جنرل پرویز مشرف تو اس حد تک بے بس ہو گئے کہ تین کارواں لیکر تین مختلف سڑکوں پر نکلتے اور پھر بھی دہشتگرد ان کی کار کو ایک ہی روٹ پر تین تین دفعہ نشانہ بناتے رہے اس لئے ہماری الطاف حسین سے استدعا ہے کہ فوج کو اپنا کام کرنے دیا جائے اور ان کو سیاست کے گندے کھیل میں نہ گھسیٹا جائے۔ اس سے یہ پاکیزہ ادارہ بھی سیاسی مخالفین کی تنقید کا نشانہ بنتا ہے جو ہمارے ملکی مفاد میں ہیں حکمرانی کی ذمہ داری عوام کے منتخب نمائندے ہی اداکریں تو بہتر ہے پاکستان کے آئین میں ضروری تبدیلی کے بعد فوجی عدالتیں تشکیل دی جا سکتی ہیں لیکن یہ بھی یاد رکھا جائے کہ ہماری فوج کو روایتی جنگ کی تربیت دی جاتی ہے شہروں اور بستیوں کو دہشتگردوں سے پاک رکھنا سول حکومتوں کا کام ہے لیکن غیر معمولی حالات میں امریکہ جیسے ملک میں بھی فوجی ٹربیونل اور کمیشن موجود ہیں جن کے سربراہ فوجی آفیسرز ہی ہوتے ہیں وہ انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے کیس کو سنتے ہیں اور جلد فیصلے کرتے ہیں۔ سول عدالت میں اگر جج نے خود اپنی آنکھوں سے قتل ہوتا دیکھا ہو اور پھر وہ مقدمہ اس کی عدالت میں آ جائے تو بھی اس وقت تک قاتل کو سزائے موت نہیں دے سکتا جب تک گواہ سامنے آ کر گواہی نہ دیں اور وکیل انکی جرح کر کے قانونی طور پر یہ ثابت نہ کریں کہ قاتل کون ہے۔ سول عدالتوں میں دہشتگردی کے مقدمات میں گواہ گواہی سے ڈرتا ہے۔ جج کو اپنی جان کی فکر ہوتی ہے۔ کئی وکیل مال کھلا کر سنگین جرائم میں ملوث دہشت گردوں کو بھی چھڑوا لیتے ہیں۔ فوجی عدالت میں ایسا ممکن نہیں۔ جی ایچ کیو پر حملہ کرنیوالوں نے سر عام گولیاں چلائیں اور فوجیوںکو قتل کیا ان کو دیکھنے والے فوجی گواہوں کی کمی نہیں۔ ان گواہوں کو کوئی خوف نہیں۔ فوجی جج کو ملزم سے کوئی ہمدردی ہے نہ اسکے ساتھ کوئی ذاتی دشمنی ہے۔ فوج ملزم کو دفاع کا مکمل حق دیتی ہے اسکے بعد ملزم سے جب وہ مجرم بن جاتا ہے تو اس کی اپیل کا بھی حق ہے اور جی ایچ کیو کی جیگ برانچ نہایت دیانتداری کے ساتھ ہر مقدمے کے سارے باریک پہلوئوں کا جائزہ لیتی ہے اور فیصلہ سالوں میں نہیں بلکہ مہینوں میں ہو جاتا ہے۔ پاکستان کے آئین میں فوجی عدالتوں کی تشکیل کی کم از کم فاٹا میں تو گنجائش موجود ہے۔ قبائلی پٹی اس وقت وار زون ہے۔ جہاں سپریم اور ہائی کورٹس غیر فعال ہیں۔ افواج پاکستان سے نبرآزما گوریلے عام سویلین سے بھی زیادہ سخت جان اور ماہر نشانہ باز ہیں۔ ان کے ہاتھ میں بندوقیں ہی نہیں راکٹ لانچرز بھی ہیں۔ ان حالات کے باوجود ملکی فوج سے مقابلے کے دوران اگر وہ قیدی بن جاتے ہیں تو حکومت پھر بھی ان کو فوجی عدالتوں کے ذریعے انصاف دینا چاہتی ہے۔ یہ بھی ذہن میں رکھا جائے کہ جنگی حالات میں اگر ایک ملک کا فوجی دوسرے ملک میں قیدی بن جاتا ہے تو بین الاقوامی قوانین کے تحت اس کیساتھ اس لئے کوئی زیادتی نہیں کی جا سکتی کہ اپنے ملک کا دفاع اس پر فرض ہے لیکن ایک باغی جب اپنے ملک کے ساتھ غداری کر کے اپنی ہی فوج کے خلاف ہتھیار اٹھاتا ہے اور معصوم لوگوں کی جانیں لیتا ہے تو وہ کسی بھی نرمی کا مستحق نہیں۔ دوسری جنگ عظیم میں امریکی صدر روز ویلٹ نے فوجی عدالت بناکر 8 جرمن قیدیوں کو سزائے موت سنائی۔ ان پر الزام تھا کہ یہ امریکہ کے اندر امریکی مفادات کے خلاف کام کر رہے تھے۔ 9/11 کے بعد امریکی صدر بش نے کہا کہ افغان طالبان اگرچہ سویلین ہیں لیکن ہم ان کو Unlawful enemy combatant یعنی غیر قانونی دشمن فائٹر سمجھتے ہیں اس لئے ان کیلئے فوجی عدالتیں بنائی گئیں۔ امریکی ڈرون تو مشتبہ افراد کو بھی مار دیتے ہیں جو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ پاکستانی فوجی عدالتیں صرف مختصر وقت کیلئے ہونگی اور ملزموں کو اس وقت تک سزائیں نہیں ملے گی جب تک جرم ثابت نہ ہو جائے اس لئے ان عدالتوں کے قیام پر اعتراضات بے معنی ہیں۔