کراچی۔گزشتہ دنوں 8دسمبر 2016کو میں حسب معمول اپنے دفتر میں کام میں مگن تھا پہلے دفتر میں فون بند کردیا کرتا تھا لیکن ہمارے دفتر کے بزرگ ساتھی نے احقر کو سمجھایا کہ بیٹا فون آن رکھا کرو کیا پتہ کوئی ضروری کال ہو اور بعد میں فون اٹینڈ نہ کر سکنے کا ملال ہو میں نے ان کی ہدایت پر عمل کیا 8دسمبرکو ایک کال دفتر میں Receiveکی کال دیکھی تو معلوم ہوا قلم کے مرد مجاہد کا فون تھا جو رات کو بھی اپنا فون آن رکھتے ہیں تاکہ کسی کو کوئی مشکل ہو تو کام آ سکیں۔ میں انہیں بے ساختہ سر کہتاہوںکبھی انکل کہہ کر مخاطب کرتا ہوں وہ کہتے ہیں نعیم صاحب آج کل سب ایک دوسرے کو نام لے کر صاحب کے اضافے کے ساتھ پکارتے ہیں لیکن شاید میری تربیت کا اثر ہے کہ ان کی سنیارٹی تجربے اور علمیت کے احترام میں انہیں انکل ہی کہتا ہوں میدان صحافت سے انکا گہرا رشتہ ہے صحافتی مزاج تکنیک اور باریکیوں پر گہری دسترس کے باوجود عاجزانہ مزاج کے حامل محترم زاہد عسکری صاحب کا فون تھا جو ہمیشہ کی طرح اپنے نرم اور میٹھے انداز میں مخاطب تھے کہ آج ادارہ نور حق میں دو روزہ سندھ ورکرز کنونشن 27-26نومبرکو کامیاب بنانے کے حوالے سے ایک نشست کا اہتمام کیا گیا ہے جس نشست میں مشہور و معروف کالم نگار بھی شریک ہوں گے لہٰذا آپ بھی اس میں ضرور شریک ہوں احقر نے ان کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے شرکت کی حامی بھر لی لیکن جب نشست میں جانے کے لیے گھر سے نکلا تو معلوم نہ تھا کہ آج میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے کریم آباد کے پل دونوں جانب بد ترین ٹریفک جام تھا بڑی مشکل سے لیاقت آباد نمبر10پہنچا تو معلوم ہوا کہ آگے بھی ٹریفک جام ہے گولی مار کے قریب بھی راستہ بند اور ٹریفک جام تھا غیر اعلانیہ مذہبی جلوس کی وجہ سے ٹریفک جام راستے جگہ جگہ بند تھے سانس گھٹنے لگا تھا گولی مار کی گلیوں میں گھومتے گھومتے آخر ایک صاحب ملے جنہوں نے جلوس کے ساتھ ساتھ کنارے پر چلتے ہوئے آگے نکل جانے کا مشورہ دیا لیکن ایک جانب گرین بس فلائی اوور زیر تعمیر تھا تو دوسری جانب جلوس کے شرکاءکا جم غفیر اللہ کے نام کا وردکرتے ہوئے ہمت کرتے ہوئے گاڑی آگے بڑھائی ۱۰ منٹ کا فاصلہ ڈیڑھ گھنٹے میں طے ہوابعد میں پولیس اہلکاروں کی مدد سے بمشکل لسبیلہ پر پہنچا وہاں بڑی مشکلوں سے راستہ بناتا ہو ا گرو مند ر تک پہنچا لیکن گرو مندر سے اسلامیہ کالج ، جیل چورنگی، نیپا چورنگی تک ٹریفک بد ترین جام تھا اور یہ ٹریفک گیارہ بجے تک جام رہا اور کراچی کے شہری صبح سے لے کر رات گئے تک سڑکوں پر قید ہو کر رہ گئے تھے میں پھر سوچنے لگا کہ ٹریفک جام ہونے سے کیا کیا مشکلات ہوتی ہیں ایک گیئر میں بھی گاڑی نہیں چلتی اور ہسپتال میں ڈاکٹر اٹینڈنٹ کو کہے کہ جاﺅ اپنی ماں کے لیے خون کا بندوبست کرو اور وہ اس ٹریفک میں پھنس کر رہ جائے اور اسی ٹریفک جام کے دوران اس کی ماں کا انتقال ہو جائے تو یہ سوچنے کا مقام ہے آج ہمارے حکمرانوں کے ایک غلط آرڈر کی وجہ سے کراچی کے شہریوں کا کیا کیا مشکلات برداشت کرنی پڑتی ہیںیہ وہی جانتے ہیں بہر حال جب میں ادارہ نور حق پہنچا توگھٹن اور آلودگی کے باعث بہت برا حال تھا تمام لوگوں کی زبانو ں پر یہی الفاظ تھے کہ ٹریفک جام ہونے کی وجہ سے بہت بری حالت ہے جگہ جگہ ٹریفک جام تھا لاکھوں روپوںکا پٹرول و ڈیزل ضائع ہو رہاتھا گھٹن اور آلودگی کے باعث طبیعتیں الگ مضمحل تھیں مریضوں کا کوئی پرسان حال نہ تھا کیا بزرگ بچے سبھی ہی اس مشکل صورتحال سے دو چار تھے آج کراچی ایک بڑا گنجان آباد شہر ہے لیکن سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ ، ٹھیلے پتھارے اور ناجائز تجاوزات کے باعث ٹریفک کی صورتحال انتہائی تشویش ناک ہے اگر آپ ملیر کینٹ کے گیٹ نمبر6سے صفورہ چورنگی کی طرف سفر کریں تو سیدھے ہاتھ اور الٹے ہاتھ کی دونوں سڑکیں انتہائی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں ایک طرف پانی کے ٹینکروں نے شہریوں کی بری حالت کی ہوئی ہے ایک سڑک میمن ہسپتال سے سپرہائی وے تک ملتی ہے جگہ جگہ گہرے کھڈے ہونے کے باعث ٹریفک جام ہونے سے شہری پریشانی کا شکار ہیںیہاں ہر سال محرم الحرام ، ربیع الاول ، جشن آزادی جلسے جلوس کا سلسلہ جاری رہتا ہے اس کے علاوہ وی آئی پی پروٹوکول کے باعث اکثر و بیشتر ٹریفک جام رہتا ہے میری حکومت سندھ وزیر اعلیٰ سندھ صوبائی محتسب سندھ(کراچی) ، آئی جن سندھ پولیس ،آئی جی ٹریفک پولیس کراچی سے گزارش ہے کہ اس ساری صورتحال سے نمٹنے کے لیے موثر حکمت عملی وضع کر کے متبادل راستے فراہم کیے جائیں اور جلسے جلوس کے لیے سپر ہائی وے پر کوئی الگ جگہ فراہم کی جائے اور ہمارے صدر اور وزیر اعظم کراچی آنے پر سڑک سے گزرنے کے بجائے ہیلی کاپٹر کا استعمال کریں تاکہ شہریوں کو سکون کا سانس مل سکے ۔ٹریفک وارڈنز 12ہزار کے قریب ہیں کراچی شہر میں اس ساری صورت حال کو کنٹرول کریں دعوﺅں کی بجائے عملی اقدامات کر کے دکھائیں تاکہ لوگ اس اذیت سے نجات حاصل کریں اور منٹوں کا فاصلہ بجائے مقررہ وقت پر ہی طے کرنا ممکن ہو سکے۔(نعیم شروانی )