ذوالفقار علی بھٹو بے شک پاکستان کی تاریخ میں ایک بڑا نام ہے۔ بھٹو صاحب اپنی بے باک اور جذباتی تقریروں سے عوام کے دلوں میں گھر کر چکے تھے۔ روٹی کپڑا اور مکان کا کا نعرہ ایک عرصے تک لوگوں کو اپنے سحر میں گرفتار کیے رہا ہے گو وہ اپنے طاقتور ترین دور میں بھی سندھ کے عوام کی حالت نہ بدل سکے۔ جاگیردار اور مزارعے کے درمیاں جو فرق تھا وہ کسی طور بھی کم نہ ہوا مگر اس سب کے باوجود کئی دہائیاں گزرنے کے بعد پیپلز پارٹی آج بھی انہی کے نام پر ووٹ لیے جارہی ہے۔ مسٹر بھٹو ایک صاحب بصیرت سیاست دان تھے اسی سوچ کی وجہ سے انہوں نے اپنے بیٹوں کے بجائے اپنی بیٹی کو مستقبل کے سیاسی میدان کے لیے تیار کیا تھا جو ان کا اس قوم کے لیے ایک بہترین تحفہ کہا جاسکتا ہے۔ بیسویں صدی کے ایک بڑے سیاست دان کو ایسے مار دیا گیا کہ اس کی فیملی آخری وقت میں اس کا دیدار بھی نہ کرسکی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے بعد محترمہ نصرت بھٹو کی راہنمائی میں بینظیر بھٹو نے سیاسی میدان میں قدم رکھا۔اس وقت کوئی نہیں جانتا تھا کہ مغربی ماحول میں پرورش پانے والی اور عیش و آرام کی زندگی گزارنے والی بینظیر سیاست کے مشکل میدان میں کیسے اپنے کارکنوں کی راہنمائی کر سکیںگی۔اس وقت ایک طرف ان کے باپ کو پھانسی چڑھا دیا گیا تھا تو دوسری طرف ان کے بھائیوں پر سنگین کیسز تھے ان کی فیملی کے لیے ملک میں رہنا ہی ناممکن بنا دیا گیا تھا۔ جنرل ضیاء کے آمرانہ دور میں سیاست دانوں کے لیے اس ملک میں کوئی جگہ نہ تھی بہت سے سیاسی لوگوں کو صرف خفیہ معلومات پر ہی زندان میں ڈالنے کا عمل جاری تھا۔ ایسے میں بینظیر نے ملک سے باہر رہتے ہوئے بھی اپنے کارکنوں سے رابطہ بنائے رکھا ان کی ذاتی زندگی میں کیسے کیسے دکھی لمحات آئے۔اپنے جوان بھائی کی لاش زہر آلودہ حالت میں وصول کر کے وطن آتی ہیں۔ آنکھوں میں آنسو ہیں تو کبھی وہ ملک کی وزیراعظم ہوتے ہوئے اپنے جوان بھائی کے قتل کی خبر سنتی ہے یہ کیسا ستم ہے کہ ملک کی وزیراعظم کا بھائی قتل ہوتا ہے تو لوگ اشارے وزیر اعظم کے قریب لوگوں کی طرف ہی کرتے ہیں اتنے سال بعد بھی مرتضی بھٹو کے قاتل نہ پکڑے جانا صاف بتاتا ہے کہیں نہ کہیں تو دال میں بہت کچھ کالا تھا بھٹو خاندان کے بارے میں بات کریں تو لگتا ہے ہم کوئی افسانہ یا کہانی پڑھ رہے ہیں۔جس میں تقدیر کی سفاکی اور ہولناکی دکھائی دیتی ہے ۔جس میں پرانے دور کے بادشاہوں کی طرح اقتدار کے لیے اپنے ہی بھائی بیٹوں کو قتل کرنے کی تاریخ نظر آتی ہے جنرل ضیاء ایک حادثے میں اس دنیا سے رخصت ہوتے ہیں۔تو بی بی پاکستان واپس آکر عملی سیاست بھر پور انداز میں شروع کرتی ہیں۔ان پر ان کے خاندان پر ملک دشمنی کے الزامات لگتے ہیں مگر بی بی ہر طرح کے الزامات کے جواب میں اپنے آپ کو عوامی عدالت میں پیش کرتی ہیں۔ عوام کے دلوں میں بھٹوز کی محبت کام کرتی ہے اور بی بی چاروں صوبوں کے اتحاد کی علامت بن کے ملک کی وزیراعظم منتخب ہوجاتی ہے ان پر کچھ بدزبان وزیر جو آج بھی بدزبان ہی ہیں گھٹیا قسم کے الزامات لگاتے ہیں مگر بی بی اپنی سیاسی زندگی میں کبھی بھی مایوس نظر نہیں آتیں ان پر کرپشن اور اقربا پروری کے الزامات لگا کر انہیں گھر بھیج دیا جاتا ہے۔ ان کے شوہر کو قید کر کے جیل بھیج دیا جاتا ہے مگر بی بی ہر طرح کے مسائب میں ایک چٹان کی طرح کھڑی رہتی ہیں وہ ملک میں سیاسی انداز میں حکومت کے خلاف مظاہرے کرتی ہیں جب پولیس لاٹھی چارج کرتی ہے ۔آنسو گیس کے شیل پھینکتی ہے تب بھی یہ بہادر خاتون اپنے کارکنوں کو تنہا چھوڑ کے بھاگتی نہیں ہے دوبارہ حکومت حاصل کر کے اپنے پرانے سیاسی کارکن کو ملک کا صدر منتخب کراتی ہیں۔ایک بار پھر اپنا ہی صدر کرپشن کے الزامات پر انکی حکومت کو رخصت کردیتا ہے۔ ذرا سوچیے تو سہی کہ وہ کیا حالات ہوں گے ۔ایک ناتواں نظر آنے والی خاتوں ایک طرف اپنے چھوٹے بچوں کی دیکھ بھال کرتی ہے دوسری طرف کرپشن کیسسز میں بند اپنے شوہر کی رہائی کے لیے عدالتوں میں دھکے کھاتی رہتی ہے ہر دور میں ہر حال میں بی بی وطن سے محبت کو نہیں بھولتیں ایک آمر انہیں باقی سیاسی دانوں کے ساتھ ایک بار پھر ملک سے باہر رہنے پر مجبور کرتا ہے اور ان کے لیے مستقبل میں سیاسی میدان ہمیشہ کے لیے بند کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ انہیں وطن واپسی سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے مگر ان سب کے باوجود وہ اپنے عوام کی محبت میں آنکھوں میں آنسو لیے واپس پہنچ جاتی ہیں۔ان کے سیاسی جلسے کے درمیاں دھماکہ کرا دیا جاتا ہے اور وہ وقت بھی آجاتا ہے جب خونی بھیڑئیے ان کا قتل کردیتے ہیں۔ اس سارے عمل میں کہیں بھی کسی بھی دور میں بی بی نے وطن دشمنی کی بات نہیں کی وہ ہمیشہ خود کو چاروں صوبوں کی زنجیر کہلانا پسند کرتی تھیںاور انہیں چاروں صوبوں سے عوامی حمایت ہمیشہ حاصل رہی بی بی کی ساری زندگی سیاسی جدو جہد کرتے ہوئے گزر گئی ایک طرف ان کے پیارے ایک ایک کرکے ان کی آنکھوںکے سامنے قتل ہوتے رہے ہر طرح کے مصائب کے باوجود ٟہر طرح کی پریشانیوں کے بعد بھی انہوں نے کبھی مخالف سیاست دانوں پر ذاتی الزامات نہ لگائے بلکہ وہ ہمیشہ بڑوں کا احترام کیا کرتی تھیں۔ بے نظیر نے بہت سے صدمے ایسے برداشت کیے جو ہمارے سامنے کھلی کتاب کی طرح ہیں۔مگر کچھ زخم انہیں ایسے بھی لگے۔کچھ خنجر ایسے بھی ان کے سینے میں چھبوئے گئے۔ جن کی طرف سے انہوں نے آنکھیں بند کیے رکھیں۔وہ ایک منجھی ہوئی سیاست دان تھیںاور انہوں نے ہمیشہ عوام کو اپنی طاقت سمجھا ان کے قتل کے بعد جس طرح ایک زرداری اس قوم پر بھاری پڑا۔وہ ہم سب جانتے ہیں۔ زرداری صاحب نے کرپشن اور لوٹ مار کا وہ بازار گرم کیے رکھا کہ ان کے وزیراعظم دوست ملکوں کی طرف سے دیے جانے والے تحائف بھی اپنے گھر لے جانے لگے۔ اب بی بی اور سابق صدر زرداری کا بیٹا میدان سیاست میں آگیا ہے بلاول کی سیاست میں بینظیر کی کوئی ایک جھلک بھی نہیں دکھائی دے رہی ۔اس کی سیاست اپنے بابا زرداری کی طرح ہے جوڑ توڑ کی سیاستٟ الزامات کی سیاست ٟمحرومی کا رونا رونے کی سیاستٟگھٹیا زبانٟگھٹیا الفاظ کی سیاست۔ لگتا ہے بلاول زرداری نے اپنی ماں سے سیاست نہیں سیکھی بلکہ وہ اپنے باپ اور چاچا کی سیاست سے متاثر ہیں۔ جنہیں چھوٹے بڑے کے بارے میں بات کرتے ہوئے احساس نہیں رہتا ۔ بی بی کے جانے کے بعد سے اس ملک میں سیاست کا رخ بدل چکا ہے ۔ایک طرف مسلم لیگ نون ہے جس کی مقبولیت ہر روز بڑھتی جارہی ہے ۔تو دوسری طرف عمران خان، پیپلز پارٹیٟقاف لیگ اور دوسری بہت سی چھوٹی بڑی جماعتیں ہیں جو مل کے بھی ایک مضبوط اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کے قابل نہیں ہیں اس ملک میں اگر سیاست کرنی ہے ۔لوگوں کے دلو ںمیں جگہ بنا نی ہے تو بلاول زرداری ہو یا عمران خان انہیں اپنی زبان اور لب و لہجہ ٹھیک کرنا ہوگا یہ جتنی بڑی جماعتوں کے لیڈر بن بیٹھے ہیں ا س کا تقاضہ ہے کہ ان کی اخلاقی اور سیاسی تربیت کا کوئی معقول بندوبست ہو۔الزامات لگا کر اور محرومیوں کا رونا رو کر ووٹ حاصل کرنے کا وقت گزر چکا ہے۔
بینظیر بھٹو اور ان کے جانشین
Dec 26, 2016