بھلا پہلے وہ کون سے صحت یاب تھے جو اب نہیں جا سکے۔ گورنر سندھ عہدہ سنبھالنے سے قبل بھی علیل شلیل ہی تھے۔ جب انہیں گورنر بننے کی اطلاع دی گئی تو اس وقت بھی وہ مشکل سے بڑی دقت کے ساتھ وہ گھر کے دروازے تک آئے وہ بھی اس حالت میں کہ دو تین افراد ان کے اردگرد تھے تاکہ بوقت ضرورت انہیں تھام سکیں۔ پھر جب وہ گورنر ہائوس پہنچے تو شدت خوشی سے یا شدت جذبات سے ان کی حالت مزید خراب ہو گئی اور انہیں گورنر ہائوس سے ہسپتال منتقل کرنا پڑا جہاں وہ صاحب فراش رہے مگر ترجمان کے مطابق اس دوران بھی انہوں نے اپنے کام کاج فراموش نہیں کئے اور چند ایک اہم فائلوں پر دستخط کئے۔ اب معلوم نہیں یہ کون سی اہم فائلیں تھیں کہ ہسپتال میں ان پر دستخط کرانا ضروری سمجھا گیا۔ گورنر صاحب نے شاید ہی کھول کر دیکھا بھی ہو۔ اب گذشتہ روز یوم قائد پر روایت کے مطابق گورنر سندھ نے مزار قائد پر حاضری دینی تھی مگر ڈاکٹروں کے مطابق صاحب بہادر کے سینے میں انفیکشن ہے۔ اس لئے انہیں کہیں جانے کی اجازت دینے کا خطرہ وہ مول نہیں لے سکتے۔ قائم علی شاہ سابق وزیراعلیٰ سندھ گورنر کی یہ حالت دیکھ کر تو زرداری صاحب سے باقاعدہ احتجاج کر سکتے ہیں ابھی تو میں جوان تھا، مجھے کیوں ہٹایا گیا۔ اب یہ راز تو میاں نواز شریف ہی جانتے ہیں کہ انہوں نے صدیقی صاحب جیسے گوہر نایاب کو گورنر کن مقاصد کے تحت لگایا ہے۔
٭…٭…٭…٭…٭
ڈاکٹر عشرت العباد کا پی پی پی میں شمولیت کا امکان
ظاہر ہے عشرت العباد کو اب کوئی اور گود لینے سے تو رہا یہ بھاری بھرکم شخصیت صرف پی پی پی میں ہی پناہ لے سکتی ہے کیوں کہ پیپلزپارٹی اپنے رہنمائوں کو حکومت کے شر سے محفوظ رکھنا جانتی ہے۔ ڈاکٹر عاصم اور ایان علی اس کی زندہ مثال ہے۔ آصف زرداری نے تو کھل کر کہا ہے کہ عدالت سے ڈاکٹر عاصم کو انصاف ضرور ملے گا۔ اب جو شخص اپنی بیوی کے قاتلوں کو عدالت میں نہ لا سکا، اپنے بیٹے بلاول کو انصاف نہ دلوا سکا وہ کیسے یہ دعویٰ کر سکتا ہے۔ بلاول زرداری آج بھی رو رو کر کہتے پھرتے ہیں کہ میری ماں کے قتل پر ابھی تک ہمیں انصاف نہیں ملا۔ حالانکہ انہیں یہ گلہ اپنے والد محترم سے کرنا چاہیے تھا جو پانچ سال اپنے دور حکومت میں بیوی کے قاتلوں کو پکڑوا نہ سکے۔ خود بلاول جی بھی آنکھیں بند کئے خاموش رہے۔ اب عشرت العباد بھی جانتے ہیں کہ اس وقت ان کی جائے پناہ صرف پیپلزپارٹی ہی ہے۔ وہی ان کو تحفظ دے سکتی ہے۔ اس لئے ان کی طرف سے اگر پی پی پی میں شمولیت کا اعلان ہوتا ہے تو اچنبے کی بات نہیں۔ بیرون ملک چھپے دیگر کئی بڑے لیڈروں کا تعلق بھی تو پی پی پی سے ہے جو چین و اطمینان کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ویسے عشرت العباد کے پرانے قائد بھی تو لندن میں ہی رہتے ہیں۔وہ اب کیا سوچیں گے۔
٭…٭…٭…٭…٭
ڈیونڈر لائن کو کبھی سرکاری سطح پر تسلیم نہیں کرینگے: حامد کرزئی
اسے کہتے ہیں رسی جل گئی پر بل نہیں گیا۔ دم ٹیڑھی کی ٹیڑھی ہے۔حامد کرزئی اب تین میں ہیں نہ تیرہ میں مگر احسان فراموشی اور دشمنوں کے ہاتھ میں کھیلنے کی عادت ان کی ابھی تک نہیں گئی۔ موصوف خود جب افغانستان پر روس قابض تھا، بھکاریوں کی طرح پاکستان میں پناہ گزین بن کر آئے۔ مدتوں یہاں گھروالوں سمیت مفت کی روٹیاں توڑتے رہے۔ ان کو شرم ہی نہیں آتی پاکستان کے خلاف بولتے ہوئے کہ ان کے تو بال بچے بھی دیگر مہاجرین کی طرح پاکستان میں برسوں کھاتے پیتے اور پلتے رہے۔ اب جس کا کھاتے تھے اس پر دانت نکالتے ہیںتو اسے سوائے نمک حرامی کے اور کیا کہا جا سکتا ہے۔ ڈیونڈر لائن کو انہوں نے کیا تسلیم کرنا یہ تو صدیوں سے افغانستان کو ہندوستان سے جدا کرنے والی حد فاضل رہی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد پاکستان کے ازراہ ہمدردی اور بھائی چارے کے انگورہ اڈا کی سینکڑوں میل اراضی افغانستان کو تحفے میں دی۔ اس کے باوجود اگر افغانستان خوش نہیں رہتا اس کو تسلیم نہ کرنے کی بات کرتا ہے تو وہ ولی خان کے پیروکار ہوں یا صمد خان کے پیروکار انہیں اپنے دماغ کا علاج کرانا چاہیے یا پھر کابل و قندھار جا کر اپنا گھر بسانا چاہیے۔ جہاں انہیں بہت جلد اپنی حیثیت کا اندازہ ہو جائے گا اور وہ خود واپس آکر ڈیونڈر لائن کراس کرتے ہی پاکستان کی سرزمین پر سجدہ شکر ادا کریں گے۔
٭…٭…٭…٭…٭
نامور فٹبالر رونالڈو نے شامی بچوں کو اصل ہیرو قرار دیدیا۔
شام میں جاری خانہ جنگی، حکومتی اتحادیوں اور حزب مخالف اتحادیوں کی بمباریوں سے شامی عوام جس طرح کٹ رہے ہیں، مر رہے ہیں اس کا احساس نہ حکومت کو ہے نہ مخالفین کو۔ دونوں بس ایک دوسرے کو مرنے اور مارنے پر تلے ہوئے ہیں۔ جنگ جہاں بھی ہو انسانوں کا لہو چاٹتی ہے۔ گولہ بارود مرد عورت اور بچوں کی تفریق نہیں کرتے۔ حلب ہو یا دمشق جہاں بھی انسان مرتا ہے زمین لہو سے سرخ ہوتی ہے۔ اب عالمی شہرت یافتہ اسٹار فٹبالر کرسٹیانو رونالڈو نے شامی بچوں کی خون آلود تصاویر دیکھ کر ان کے حق میں آواز بلند کی ہے اور کہا کہ ہمارے اصل ہیرو یہ شامی بچے ہیں۔ حقیقت بھی یہی ہے ان بچوں کو جو جنگ کے جہنم کدہ میں بھی زندگی کی موت پر فتح کی علامت ہیںدیکھ کر ہر آنکھ پرنم ہو جاتی ہے۔ رونالڈو نے صرف بیان پر ہی بس نہیں کیا ان بچوں کے بچائو کے لئے خطیر رقم بھی عطیہ کی۔ کاش ہمارے مسلم ممالک اور شام کے میدان میں برسرپیکار مسلم گروپ اور ان کے اتحاد غیر مسلم ممالک بھی ان بچوں پر رحم کھائیں۔ لاکھوں بچے یتیم ہو چکے ہیں۔ باقی لاکھوں بچوں کے ماں باپ کو نہ چھینے اور یہ بے معنی جنگ بند کر دیں تو شام میں امن قائم ہو سکتا ہے۔ عرب و عجم کی تفریق نے دنیا کے پرامن ترین ملک کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے…
٭…٭…٭…٭…٭