2017اور قحط الرجال

2007 ء کا اختتام چند دن پرے ہے، یہ سال ایسا نہیں کہ جسے چپکے سے گذرنا کہا جاسکتا ہو ،اس نے بڑے ستم ڈھائے ہیں ،ہو سکتا ہے کہ آج بہت سے یہ ضرور سوچ رہے ہوں کہ کاش یہ سال ان کی ذندگی میں نہ آتا تو کتنا اچھا ہوتا،اور کسی کی یہ خواہش بھی ہو سکتی ہے کہ سمے کا گھنٹا رک جا تا اور وہ اپنی کامرانی وکامیابی کے لطف سے جی بھر کر سیراب ہو جاتے، مگر کیا کیجیے کہ وقت نے اپنی ترتیب سے آگے بڑھنا ہے ،زندگی ہے تو اس کے نرم وگرم بھی ساتھ ہیں ،’’قضاوقدر‘‘ کی بحث میں الجھے بغیر کہا جاسکتا ہے کہ اختتام کی جانب بڑھتا سال اپنی ہنگامہ خیزیوں کی وجہ سے حوالہ ضرور بنا رہے گا،2017ء میں جو سیاست میں ہوا وہ عجیب ہے اور جو معیشت میں رونماء ہوا وہ عجیب تر ہے،رجائیت سے سوچاجائے تو ہو سکتا ہے کہ گذرتے سال کے ملبے سے آنے والے وقت میں توانا سیاست اور صحت مند معیشت جنم لے ،اور ملک ٹامک ٹویوں کی بجائے راہ راست پر چل نکلے ، اچھی طرح یاد ہے کہ دسمبر 2016ء ہر سیاسی جماعت قسمت سمجھ کر حقائق کو قبول کر چکی تھی،حکمران جماعت میں کثرت سے جس بات کی گردان ہورہی تھی وہ یہ تھی کہ آئندہ الیکشن تو کوئی مسلہ نہیں ہیں ہم تو 2023ء کا سوچ رہے ہیں،،پی پی پی بس سندھ کے دائرے میں ’’گمن گھیریاں‘‘ڈالنے کو اپنی معراج سمجھ رہی تھی اور تبدیلی والے خود کو حالات کے رخ پر چھوڑ چکے تھے،لیکن آج کا گذرتا دسمبر قطعی ایک مختلف منظر پیش کر رہا ہے،مسلم لیگ کو اب2018ء کے لالے پڑے ہوئے ہیں،پی پی پی کی نظروں میں پھر مارگلہ کے دامن کے محلات محض پاس کا سفر لگنے لگا ہے اور پی ٹی آئی میں بھی’’وزیر آعظم‘‘ کا نعرہ پسندیدہ ہو چکا ہے،ان کے علاوہ اور بہت سے دوسرے بھی ہیں جن کی امیدوں کے باغ سبز ہوئے ،کیا ہوگا ؟ابھی اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے مگر جو بیت رہا ہے اس میں آنے والے وقت کی بہت سی نشانیاں موجود ہیں ،سمجھنے والے سمجھ جایا کرتے ہیں،یہ سال شروع ہوا تو ہر جانب احتساب کا نعرہ تھا،پانامہ سکینڈل نے احتساب کے نعرے کو سیاست نے قوت فراہم کر دی تھی،ایسے حالات میں ہمیشہ اقتدار والے خسارے میں رہتے ہیں ،جب یہ سکینڈ ل آیا تو اس خاک نشیں نے بار ہا لکھا تھا کہ یہ عام سا معاملہ ہے،اس کی ’’ریگولیٹرز‘‘ کو از خود تحقیق کر لینی چاہئیے مگر ایسا نہ ہو سکا،ادارے پہلے خود اس ایشو کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے تو بات اس حد پر نہ جاتی ،28جولائی 2017 ء حکمران جماعت کے لئے ایک ایسا دن بنا جس کا کبھی سوچا بھی نہ گیا ہو گا،اس کے اثرات ظاہر ہو رہے ہیں اور جاری رہیں گے،سال رواں کا یہ سب سے بڑا واقعہ تھا ،اس کے بعد جو بھی ہوا ہے اسی سے جڑی کڑیاں ہیں،اسحاق ڈار گئے،معیشت میں اتار چڑھاو نظر آیااور بہت کچھ ہوا اس کی ابتداء جولائی میں ہو گئی تھی، اب ایک لہر ہے جو اٹھ چکی ہے ،اس کی ذد میں بہت سے آئیں گے،احتساب مگر سلیکٹو نہیں،بیورو کریٹس،صحافی، منصف، وکیل، ادیب،کھلاڑی ،تاجراورسب، کو اپنا حساب کتاب دینا چاہئیے، ہر طرف قحط الرجال ہے،جناب مختار مسعود مرحوم کے بقول بڑے آدمی انعام کے طور پر ملتے ہیں اور سزا کے طور پر روک لئے جاتے ہیں،تو کسی کو مقدس گائے نہ بنایا جائے،خود احتسابی بھی کی جائے تا کہ وہ لوگ ابھر سکیں جو گفتار سے بڑھ کر کردار کے مالک ہوں ،جو دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں،ماضی تو ایسے افراد سے پر نظر آتا ہے مگر آج بڑے انسانوں سے کیوں خالی ہیں اس لئے کہ معاشرے کی ساخت ایسی بن گئی کہ باکردار جینے نہیں دئیے جاتے،باکردار کو جینے دو اس کو آگے آنے کا راستہ دے دو، اگر 2018ء میں ملک کی اصل منزل کی جانب جانے کی تمنا ہے،سال رواں میں معیشت میں بہت سے واقعات پیش آئے ان میں سب سے اہم ڈالر کی قدر کا بڑھنا ہے اور ملک کے قرضوں میں تواتر سے اضافہ ہے،2007ء میں ڈالر ساٹھ روپے کے مساوی تھا،آج 112روپے کا ہو چکا ہے،اس کے ملک کی برآمدات پر کیا اثرات پڑیں گے اس کا نتیجہ تو چند ماہ میں سامنے آئے گا مگر اس کے فوری اثرات میں ملک میں مہنگائی میں اضافہ او روپے کی شکل میں قرضوں کا بڑھنا ہیں ،ڈالر کی قیمت میں حالیہ اضافے کی وجہ سے ملک کے قرضے میں400ارب روپے بڑھے ہیں،اسحاق ڈار کے اچانک بیرون ملک جانے کے بعد سے اب تک وزیر آعظم نے وزارت کا قلمدان اپنے پاس رکھا،اس لئے ذمہ داری بھی ان کی بنتی تھی،پہلے ڈالر کو مستحکم رکھنے کے لئے سارا زور صرف کیا جارہا تھا اور اب آنکھیں بند کر لی گئیں،یہ عجیب تر پالیسی ہے، برآمد کندگان تو ایک سال سے چیخ رہے ہیں کہ روپے کی قدر کو گھٹایا جائے اس وقت ان کی کیوں نہ سنی گئی؟برآمدات کا بیڑا غرق ہونے دیا گیااور پھر اچانک کرنٹ اکاونٹ خسارہ کا بھی پتہ چل گیا،180 روپے کا برامد کندگان کوپیکج دینے کے بعد یہ خیال بھی آ گیا کی وہ درست کہہ رہے تھے،صیحح کیوں نہیں بتاتے کہ اپنے قرض کی واپسی کی گارنٹی لینے کے لئے آنے والاآئی ایم ایف کا مشن ایسا اشارہ کر رہا تھا اور آپ چونکہ سرمایہ کی عالمی مارکیٹ سے اربوں کا نیا قرضہ لینا چاہتے تھے ،آئی ایم ایف کی منفی بیان بازی اس قرضہ بازی کو ذک دے سکتی تھی اس لئے بات ماننا پڑی،اب جو وزیر بنا رہے ہیں تو یہ فیصلہ پہلے لے لیتے،یہ جو فیصلوں میں تاخیر کی پر اسراریت ہے اس کے نقصانات شدید ہیں،2017ء معلومات کی ’’اوپن نیس‘‘ کے اعتبار سے بھی بد تر رہا،4سال قبل جتنی معلومات تک رسائی تھی آج اس کانصف بھی نہیں رہی،جو ایک لمحہ فکریہ ہے ،یہ ’’میڈیا پراکسی وارز‘‘میں استعمال ہونے والی معلومات کا ذکر نہیں ہو رہا جن میں مطلب کی فائلوں کی فائلیں ’’میڈیا وار لارڈز‘‘کو پہنچائی جاتی ہیں،ان کا مقصدتو ظاہر ہے کسی کو گندا کرنا ہوتا ہے،یہ عمومی رسائی کو معاملہ ہے جہاں تمام دروازے بند ملتے ہیں جو بہت افسوسناک صورتحال ہے۔

ای پیپر دی نیشن