کسی زمانے میں ایم کیو ایم کے ”پوسٹر بوائے“ والی شہرت کے ساتھ مشہور ہوئے مصطفیٰٰ کمال سے میں کبھی ملا ہوں نہ ملنے کی خواہش ہے۔ جبلی طور پر ہمیشہ محسوس یہی کیا کہ بندہ ”دونمبر“ ہے اور ایسے افراد پر دل اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔
جنرل مشرف کے دور میں "Not Sham But True Democracy" کی گردان کے ساتھ جمہوریت کو ”Grass Roots“ تک پہنچانے کا ڈھونگ رچایا گیا تھا۔ عسکری حلقوں میں افلاطون کی سی شہرت رکھنے والے ایک ریٹائرڈ جنرل تنویر نقوی کے ذریعے ایک ”انقلابی“ بلدیاتی نظام متعارف ہوا۔ کراچی کو اس نظام کا ”رول ماڈل“ ثابت کرنے کی بھرپور کوشش ہوئی۔ مصطفیٰ کمال کا چہرہ اس ضمن میں بطور میئر استعمال ہوا جس کی بدولت ”جاگیرداروں کی جانب سے مسلسل“ نظرانداز کئے“ کراچی میں Overhead Bridges تعمیر ہوئے‘ گلیاں صاف ہوئیں‘ پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے دعوے ہوئے‘ بھتہ خوری مگر جاری رہی‘ زمینوں پر قبضے کے لئے China Cutting متعارف ہوئی‘ ”مقبوضہ“ زمینوں پر شادی ہال بنے اور اس سب کو ہم میڈیا میں ”ترقی“ بتا کر دکھاتے رہے۔
بددیانتی کی بنیاد پر رچائے تماشوں کو مگر ایک دن بے نقاب ہونا ضروری ہوتا ہے۔ 2008ءکے انتخابات کے بعد سے یہ بات کھل کر سامنے آنا شروع ہوگئی کہ کراچی کو مختلف النوع عصبیتوں کی بنیاد پر اُٹھے گروہوں نے باہم تقسیم کرلیا ہے۔ بندوق بردار تنظیموں نے اس شہر میں ”اپنے“ علاقے بنالئے۔ لسانی گروہوں سے مختص ان علاقوں میں ریاست مکمل طور پر بے بس و لاتعلق بنادی گئی ”حکومت“ اور ”شہری“ کا رشتہ ختم ہوگیا۔ سیاست کے نام پر ”دادا“ بنے لاڈلے ان علاقوں میں اپنے کارندوں کے ذریعے God Fathers کی صورت اختیار کرنا شروع ہوگئے۔
ریاست چاہے کتنی ہی کمزورکیوں نہ ہوجائے ایسی ”داداگیری“ برداشت کر ہی نہیں سکتی اور پاکستان کم از کم داخلی اعتبار سے ہرگز ایک کمزور ریاست نہیں ہے۔ بہت مہارت سے اس نے مناسب وقت کا انتظار کیا۔ کراچی کے شہری جب Enough is Enough پکار اٹھے تو سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لئے۔ ان کی وجہ سے رینجرز جیسے طاقتور ادارے کو حالات معمول پر لانے کے لئے غیر معمولی اختیارات ملے۔ ان اختیارات کا استعمال شروع ہوا تو لندن میں کئی برسوں سے مقیم ”بھائی“ بوکھلا گئے۔ واہی تباہی بکنا شروع ہوگئے۔
”شہرکراچی“ مگر ان کا تصور ہوتا تھا۔ اس تصور کا خاتمہ سیاسی عمل ہی کے ذریعے ممکن تھا اور یہ ایک طویل عمل ہوتا ہے۔ سیاسی عمل کو Regulate کرنے کے دعوے دار ریاستی نمائندے مگر Fast Track Delivery کو بے چین ہوتے ہیں۔ ان کی بے چینی کو موقع شناس کمال نے بروقت بھانپ لیا۔ ”را کے ایجنٹ“ کو بے نقاب کرنے کی ٹھان لی اور ”پاک سرزمین پارٹی“ کے نام سے ایک تنظیم بنائی جسے میں شروع دن سے ”کمال کی ہٹی“ پکارتا رہا ہوں۔
میری دانست میں بات بہت بنیادی تھی۔ کراچی، عطار کے جن لونڈوں کے سبب بدحال ہوا تھا ان ہی میں سے اپنے گناہوں کے برملا اعتراف کی بدولت ”ہیرو“ بنے یا بنائے لوگ ایک نیا اور مثبت بیانیہ تشکیل دے ہی نہیں سکتے تھے۔ ضرورت ”نئے چہروں“ کی تھی جو کراچی کے تمام رہائشیوں کونسلی اور لسانی تفریق سے جدا کرکے ”شہریوں“ کی صورت یکجا کرتے جن کے حقوق کے حصول کے لئے جدوجہد کی جاتی اور ذمہ داریاں نبھانے پر زور دیا جاتا۔ ”کمال کی ہٹی“ میں ایسی سوچ ہرگز موجود نہیں تھی۔ خواہش فقط اتنی تھی کہ اس میں شامل ہوئے لوگوں کا ماضی فراموش کردیا جائے۔ انہیں ”ملک سنوارنے“ کا ایک اور موقع دیا جائے تاکہ وہ ا پنے گناہوں کی تلافی کی کوئی صورت نکال سکیں۔
اپنے گناہوں کا بارہا مگر ناقابلِ برداشت رعونت کے ساتھ اعتراف کرتے مصطفیٰ کمال کا سارا وقت خود کو ”مہاجر قوم“ کے دُکھ میں مبتلا ایک ”محب وطن“ ثابت کرنے میں صرف ہوگیا۔ یوں کرتے ہوئے وہ ایم کیو ایم کے ووٹ بینک میں اپنی نوعیت کی چائنہ کٹنگ میں مصروف نظر آئے اور سیزن ان دنوں ”چائنہ کٹنگ“ کے لئے مناسب نہیں رہا۔ آئندہ برس عام انتخابات ہونا لازم دِکھ رہا ہے اور ”کمال کی ہٹی“ میں ماضی کے جو مشہور ”بھائی“ شامل ہوئے ہیں ”ووٹ بینک“ میں اپنی جگہ نہیں بناپائے۔
اس ”ووٹ بینک“ میں اپنا حصہ بنانے کی خاطر ہی مصطفیٰٰ کمال نے اتوار کے روز ایک اجتماع کا اہتمام کیا۔ اس اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے موصوف نے حال ہی میں ہوئی مردم شماری پر صرف کراچی کے حوالے سے جارحانہ اعتراضات اٹھائے۔ یہ اعتراضات گنواتے ہوئے بہت سفاکی کے ساتھ تاثر یہ دینے کی کوشش ہوئی کہ جیسے ”جاگیرداروں کی نمائندہ“ سندھ حکومت نے جان بوجھ کر دیہی آبادی کے ”گوٹھوں“ میں آبادی میں اضافے کے تناسب کو ان علاقوں سے کہیں بڑھ کر دکھایا جو 1988ءسے مستقلاََ ایم کیو ایم یعنی اُردو بولنے والوں کا گڑھ سمجھے جاتے تھے۔
قصہ مختصر، لندن میں بیٹھے ”بھائی“ سے بغاوت کرکے ”پاک سرزمین“ کا جاں نثار بن جانے کا دعویدار مصطفیٰ کمال اسی سوچ کی بنیاد پر اپنی ہٹی کو رونق فراہم کرنے پر مجبور نظر آیا جس سوچ نے 1986ءسے شہر کراچی کو ”گینگ وارز کے ذریعے مفلوج بنانے کی راہ دکھائی تھی۔ ہزارہا اعترافات کے بعد مصطفیٰ کمال اپنے ”اصل“ کی طرف لوٹنے کی کوشش میں مصروف نظر آئے۔ مجھے خدشہ ہے کہ ”اصل“ سے رجوع کرنے کی اس کوشش میں وہ مزید جارحانہ انداز اختیار کرنے پرمجبور ہوں گے۔ اطمینان کی بات فقط اتنی ہے کہ نظر بظاہر ”اصل“ کے خریدار اب بازار میں نہیں رہے۔ کمال کا کردار ختم ہوا۔ پانی کا بلبلہ تھا۔ ابھرا اور اب معدومیت کی طرف رواں ہے۔ موقع شناسی ”اپنی جگہ“ بنانے کو بے چین اتاولے سیاستدانوں کے ہمیشہ کام نہیں آتی۔ انگریزی محاورے والی You Can't Fool All The People All The Times بات ہوجاتی ہے۔
یہ کالم ختم کرنے سے قبل اس حقیقت پر زور دینا بھی ازحد ضروری ہے کہ گزشتہ چند ہفتوں سے سندھ میں ہوئی مردم شماری پر ثابت قدمی سے ٹھوس اعتراضات صرف پیپلز پارٹی کے کراچی سے ابھرے تاج حیدر ہی اٹھاتے رہے ہیں۔ بہت محنت اور جاں فشانی سے جمع کئے اعدادوشمار کی بدولت انہوں نے مردم شماری کے ابتدائی نتائج کو نادرا کے فراہم کردہ Data کے تقابل رکھ کر مسلسل چیلنج کیا۔ ان کی ثابت قدمی کی بدولت ہی پیپلز پارٹی 24 ویں آئینی ترمیم کے پاس ہونے میں مزاحم رہی۔ حکومت کو یہ ترمیم پاس کرنے میں مدد دینے سے قبل اسے مجبور کیا کہ وہ مردم شماری کے ابتدائی نتائج کے کم از کم 5 فی صد حصے کو سائنسی اور منطقی اعتبار سے Revisit کرے۔
تاج حیدر جب انتہائی محنت کے ساتھ کراچی سے آئے مردم شماری کے نتائج پر سوالات اٹھا رہے تھے تو اتوار کے روز اس شہر کے حقوق کے چیمپئن بنے کمال مستقل خاموش تھے۔ان کی زیادہ توجہ فاروق ستار کے کیمپ سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو خاص نوعیت کی ”چائنہ کٹنگ“ کے ذریعے کمال کی ہٹی کی طرف لانے پر مرکوز رہی۔ عام انتخابات کے امکانات یقینی نظر آنے کے بعد موصوف نے جو گھونسہ اٹھایاہے یہ پشتو محاور ے والا وہ گھونسا ہے جو وقت گزرنے کے بعد آپ کو اپنے ہی منہ پر مارنا ہوتا ہے۔
٭٭٭٭٭