یوم قائد پر حال غم دل

قائد میرے ،میرے محسن جانتی ہوں کہ 25دسمبر تیری پیدائش کا دن ہے’’ وہ دن‘‘ جب نیلے پانیوں والے سمندر کی سر زمین کے ایک ٹکڑے پر ایک اور نیلا آسمان اترا تھا جس پر تو سورج کی طرح طلوع ہوا مگر ہمیں آزادی کی روشنی عطا کرنے والے ہماری سانسوں کو غیر کی قید سے چھڑوانے والے، ہماری روح سے خوف کی ہتھکڑیاں کھولنے والے، اس ساری عطا و سخا کے باوجود آج تیری ایک زخم زخم بیٹی تجھے اپنے کچھ درد سنانے آئی ہے اس کی باتیں غور سے سننا دکھی نہ ہونا اور گھبرانہ جانا مگر تو گھبرانے والا ہوتا تو یوں استعمار کے ساتھ اپنی مہین جان سے نہ گتھ جاتا، یوں دشمنوں کو دہلا اور ہلا نہ دیتا اور یوں ان کے سر نہ جھکا دیتا، جانتی ہوں تحمل تیری سب سے قدآور خوبی ہے۔

میرے محسن آج تو مجھے بے حساب یاد آ رہا ہے۔ آزاد وطن کی خاطر تیری انتھک کوششیں ، تیرے بیمار رت جگے تیری پل پل کی محنت، تیرے زخمی پھیپھڑے ،تیرا دبلا پتلا وجود، مجھے بہت کچھ یاد آ رہا ہے جبکہ میں یہ سب کچھ یاد کرنا نہیں چاہتی بلکہ میں تو چاہتی ہوں آج اپنی یاد داشت میں نسیان کا ٹیکہ لگوا لوں تا کہ سب کچھ بھول جائوں، تجھے یہ بھی یاد نہ کرا سکوں کہ تجھ ایک اکیلے نے کروڑوں لوگوں کو جو ملک لے کر دیا تھا اس ایک اکیلے ملک کو کروڑوں لوگ مل کر بھی نہیں سنبھال سکے بلکہ ہم تو تیری تصویر بھی نہ سنبھال سکے۔ (ایک بار اسمبلی میں سے اسے اتار کر پھینک دیا تھا) تو پھر تیرے روحانی افکار کیونکر سنبھال سکتے تھے ؟ تو نے ہمیں مائع چاندی سے بھرے ہوئے جو دریا اور سمندر دیئے تھے ، سونے سے بھرے کھیت، ہیرے موتیوں سے بھری کھوکھ والے پہاڑ، خوبصورت سبز زار، صحرا،جنگل ان سب میں سے بہت کچھ ہم کھو بیٹھے ہیں، ہم اس ٹوٹے پنچھی اور پر بریدہ پرندے رہ گئے ہیں جنہیں دوسرے ہاتھ دانہ دنکا ڈالتے ہیں، ہماری چونچیں بھیک کی کٹوریاں بن گئی ہیں، ہمارے ہاتھ سے آدھی زمین نکل گئی تو اس کی کمی پوری کرنے کیلئے ہم نے باقی آدمی زمین پر ہیروئن کے ہیرے کاشت کر لئے، جنہیں نگل کر میرے اکثر نوجوان زندہ خود کشی سے دو چار رہتے ہیں، ان کی رگوں میں ہر وقت کالا جادو گھومتا ہے، وہ ہاتھوں میں ڈگریاں لئے بے مقصد گھوم رہے ہیں۔میری مسجدوں میں اب کوئی شب زندہ دار نہیں بیٹھتا ، اس کی صفوں پر نمازیوں کی چاپ بہت کم سنائی دیتی ہے، ہلال و بلال کہیں گم ہو گئے ہیں، آسمانی کتاب نے ہم سے روٹھن کر چہرے پر غلاف کر لیا ہے۔ قاسم و خالد کی داستان پرانی ہو گئی ہے۔ یہاں دن کا آغاز اکثر دہشت گردوں اور شام کا انجام شراب وشباب پر ہوتا ہے، اب یہاں قائد ؒ اور اقبال ؒ پیدا نہیں ہوتے اب کوئی اپنی آہ نیم شبی سے قوم کو جھنجھوڑنے والا نہیں ہے، شکوہ کرنے والا نہ رہا تو جواب شکوہ کیوں آئے گا؟ نیل سے لے کر کاشغر تک نگہبانی کرنے والی نگاہ نہ رہی تو کاروان بے منزل ہو گئے ، ملک پر ڈاکے پڑنے لگے، چند نادیدہ ہاتھوں نے آدھا ملک نوچ لیا ہے، ساری آبادی تضاد کی سان خالص دودھ چاٹتے ہیں، دوسری طرف تیرے کئی جگر گوشے گندگی سے گندم کا دانہ ڈھونڈ رہے ہیں۔ ایک طرف عیاش امیر زادوں کی انگلیاں ستارو سرور کے تاروں سے کھیل رہی ہیں دوسری طرف میرے کئی جگہ پارے کھڈیوں پر کام کر ر کے اپنی کچی انگلیاں زخمی کر لیتے ہیں، وہ ساری تاریں میری تار جاں میں اتر جاتی ہیں۔ ایک طرف سریفنک محلات ہیں، دوسری طرف آپلوں کے کڑوے زہر دھوئیں سے بھرے ہوئے محلے میں جن کی طرف یہ محلات نشین نہیں دیکھتے اس لئے کہ ان کی آنکھوں میں بے حسی کی راکھ ہے، سوچوں میں خود غرضی کا مرض ہے، جذبوں میں ملاوٹ اور دلوں میں مالوں میں کھوٹ ہے، اسی طرح تیری آنکھوں کے کئی تارے تاروں بھری رات میں پوری رات فٹ پاتھ پر سو جاتے ہیں، ایک طرف سڑکوںپر سنسنی کی خاطر کلاشنکوف میں کھلونوں کی طرح استعمال ہو رہی ہیں دوسری طرف کئی مائیں اپنے بچوں کے ہاتھوں سے کھلونے اور کتابیں چھین کر انہیں سرخ گرمی اور نیلی سردی میں مزدوری کیلئے سڑکوں پر ہنکا رہی ہیں۔
میرے محسن، میرے قائد ؒ یہ سارے تضادات دیکھ دیکھ کر میری دید میں چیر پڑ گئے ہیں۔ دل میں زخم اگ آئے ہیں مجھے یہ سارے درد یہ سارے صدمے چومیخا کر رہے ہیں مجھے احساس کی اس صلیب پر سے اتار لو، یہ زخم مجھے اسلئے بھی زیادہ زخمی کرتے ہیں کیوں کہ مجھے سرخ اشک ریزی اور سوچ بچار کا عارضہ لاحق ہے میں رات کے پچھلے پہر جاگ جاگ کر تجھ سے اور تجھ سے بڑے بابا ؐ سے باتیں کرتی ہوں۔ وطن کے دکھ درد پھولتی ہوں اور اسکی بقاء اور سلامتی کی دعائیں مانگی ہوں ، تیری احسان مند ہوں کہ میری آزاد سانسیں صرف تیرے ہاتھوں گروی ہیں میں نے اپنی زندگی کا پہلا آزاد سانس اپنے آزاد ملک کی آزاد فضائوں میں لیا اسلئے میرے نظریات پر کسی قسم کی غلامی کی کوئی مہر موجود نہیں ہے۔ مگر جب سے شعور سنبھالا ہے ہر طرف افراتفری ہے، انتشار ہے، ہر شہر دہشت گردوں کے پنجوں میں ہڈی بوٹی ہو کر رہ گیا ہے، ان حالات میں لگتا ہے مستقل طور پر میرے شعور کی آنکھ میں تیرے جنم بھومی کا نیلام سمندر ٹھہر گیا ہے اور سمندر کب سوکھ سکتے ہیں مجھے بتائو بابا میرے آنسوئوں کے یہ سمندر کون خشک کرے گا؟ مجھے ایک اور صدمہ یہ بھی ہے کہ میں قلم سے خون جگر ٹپکانے کے سوا وطن کیلئے کوئی تیر تفنگ نہیں چلا سکی لہٰذا اس غم میں میں خود سے خود روٹھ گئی ہوں، میں تھڑولی بھی ہو گئی ہوں ٹی وی پر کشمیر کی خبر نہیں دیکھ سکتی کیونکہ میری آنکھوں سرخ غلام کے کسی سرخ منظر کا ذائقہ چکھنا نہیں چاہتیں میں آنکھیں بند کر لیتی ہوں تا کہ ظلم و جبر کے کسی لمحے کو تجسیم میں ڈھلتا نہ دیکھوں، میں اس سوچ کا بھی جرم تک نہیں کر نا چاہتی کہ میرا محسن آج کے دن پیدا نہ ہوا ہوتا تو آج میں خود ان حالات میں ہوتی ۔ میری سینکڑوں نسلیں تمہاری قربانیوں پر سینکڑوں بار قربان یہ تو مجھے آج احساس ہو رہا ہے کہ میں تو تیری عظمت کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتی یہ تو ہی تھا جو زخمی پھیپھڑوں سے ادھوری سانسیں کھینچتا رہا۔ تا کہ ہم کھلی آزاد فضائوں میں پورا سانس لے سکیں۔ تو راتوں کو اسلئے جاگتا رہا کہ ہم سکون سے سوتے رہیں، تیرے گھر کا روزانہ خرچہ صرف بارہ آنے اسلئے رہا تا کہ ہم اپنے دستر خوانوں پر بارہ بارہ کھانے سجا لیں۔ تو نے اپنا ناتواں وجود قوت ارادی سے اسلئے بر قرار رکھا تا کہ دنیا کے نقشے پر ہمارے ملک کا وجود ابھر سکے۔

ای پیپر دی نیشن