وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے وفد کے ہمراہ افغانستان اور ایران کے دورے مکمل کئے۔ اگلے مرحلہ میں وہ بیجنگ پہنچ گئے ہیں جسکے بعد وہ ماسکو جا رہے ہیں۔ انہوں نے افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کی اور اپنے ہم منصب صلاح الدین ربانی سے بھی مذاکرات کئے۔ جبکہ تہران میں ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف سے بات چیت کی۔ان کے دوروںکا مقصد افغان امن عمل پر علاقائی ملکوں کے ساتھ مشاورت کرنا ہے۔ افغان صدر اشرف غنی نے افغان امن عمل کو مزید تیز کرنے میں مشترکہ اقدامات کرنے اور دہشت گردی کے خلاف تعاون اور رابطے بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔
افغانستان اور خطے کا امن ایک دوسرے سے مشروط ہے۔ پاکستان توافغانستان میں امن کی بدترین صورتحال سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ خطے کے دیگر ممالک میں بھی افغانستان میں بدامنی کے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ افغانستان میں دہشتگردی کے باعث ہی پاکستان بری طرح دہشتگردی کی لپیٹ آیا جس میں پاک فوج کی طرف سے قربانیوں کے باعث کمی آ رہی ہے۔ افغان انتظامیہ تعاون کرے تو پاکستان جلد امن کا گہوارہ بن سکتا ہے جس سے افغانستان میں امن و امان کی صورتحال میں بھی یقیناً بہتری آئے گی ۔ مگر افغان حکمرانوں نے خود کو ایسی مخلوق ثابت کیا ہے جسے اپنے ملک میں امن کی بحالی سے زیادہ ذاتی مفادات کے حصول میں دلچسپی ہے۔ طالبان کو امریکہ نے بڑی مشکل سے پاکستان کی معاونت سے مذاکرات پر آمادہ کیا، ان مذاکرات میں امریکہ نے طالبان کو عبوری حکومت میں شامل ہونے کی دعوت دی۔ طالبان اس پیشکش کو قبول کرنے پر تیار نہ ہوئے تاہم افغان حکومت امریکہ کی پیشکش پر پیچ و تاب کھاتی نظر آئی۔ افغان حکمران اپنے ہی ملک میں امن کی بحالی کے لئے تیار ہوں تواس کے روشن امکانات ہیں۔ طالبان کو شامل اقتدار کرنے کی مخالفت بند کر کے ان کو خود قومی دھارے میں شامل ہونے پر آمادہ کرنے کی کوشش کریں۔ طالبان سردست ایسی کسی حکومت میں شامل ہونے کے لئے تیار نہیں، وہ تو مذاکرات پر بھی آمادہ نہیں تھے تاہم پاکستان کے مثبت کردار کے باعث وہ مذاکرات کاحصہ بنے، افغان حکمران مخالفت کے بجائے ان سے مذاکرات کریں تو بہتری کے امکانات موجود ہیں۔ افغان مسئلہ کے حل کے لئے افغانستان سے بھارت کا عمل دخل بھی ختم کرنا ہو گا۔