لاہور (ندیم بسرا) نواز شریف کو اڈیالہ جیل راولپنڈی سے کوٹ لکھپت جیل لاہور منتقل کرنے کے بہتر فیصلے سے جہاں انسانی جذبوں کا اظہار جھلک رہا ہے وہیں نواز شریف کے لئے آسانیوں کے کئی دروازے بھی کھل گئے ہیں۔ نواز شریف لاہور میں اپنے خاندان کے ساتھ ملنے کے ساتھ پارٹی کو مضبوط بناسکیں گے اور لاہوری کھابوں سے لطف اندوز بھی ہوسکیں گے۔ پارٹی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ نواز شریف کوٹ لکھپت جیل کو کیمپ آفس کے طور پر استعمال کرسکتے ہیں کیونکہ لاہور مسلم لیگیوں کا گڑھ ہے اور پارٹی ہیڈ آفس بھی لاہور میں ہے۔ گزشتہ روز نواز شریف کو کوٹ لکھپت جیل لایا گیا تو پارٹی رہنمائوں کے ساتھ ورکرز کی بڑی تعداد جیل کے اطراف میں موجود تھی۔ پارٹی لیڈرشپ کایہ ماننا ہے کہ نواز شریف لاہور میں اپنے خاندان کے ساتھ ملاقاتوں کے سلسلے کو متواتر جاری رکھنے سے ان کے اندر ایک قوت پیدا ہوگی۔ اپنی شریک حیات کے رخصت ہونے کے بعد ان کا اپنے خاندان سے جڑا رہنا ضروری ہوگیا ہے۔ لاہور رہنے سے ان کو اپنی والدہ سے ملنے میں بڑی آسانی ہوسکے گی، ان کی والدہ کافی ضعیف ہیں اور ان کا اپنی والدہ سے محبت اور عقیدت کا رشتہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ مریم نواز شریف بھی لاہور میں ہیں۔ انکے چھوٹے بھائی شہباز شریف بھی کوٹ لکھپت جیل کے اسیر ہیں وہ ان سے بھی مسلسل ملتے رہیں گے یوں وہ اپنی فیملی کو زیادہ وقت دینے میںکامیاب ہونگے۔ ان کے وکلاء کی ٹیم کے بیشتر ارکان لاہور سے تعلق رکھتے ہیں وہ اپنے خلاف مقدمات کے سلسلے میں ان سے ادھر ہی مشاورت کیا کریں گے۔ ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ وہ لاہوری کھابوں کے بہت شوقین ہیں اور وہ دنیا میں جہاں کہیں بھی گئے تو لاہور کے کھانوں کو ہمیشہ یاد کرتے نظر آئے۔ گھر کے بنے لاہوری کھابے کھا سکیں گے۔ ان تمام پہلوئوں پر غور کریں تو نواز شریف کا لاہور کوٹ لکھپت جیل میں منتقل ہونے کا یہ فیصلہ باقاعد سوچ بچار کا نتیجہ لگتا ہے وہیں انسانی جذبات کی عکاسی بھی کرتا ہے۔ پنجاب حکومت نے ان کی سکیورٹی کو فول پروف بنانے کے لئے اقدامات کر لئے ہیں۔ جیل کے اندر اور باہر سکیورٹی تعینات کردی گئی ہے کیونکہ غالب امکان ہے کہ نواز شریف کے حق میں مظاہروںکا سلسلہ جلد شروع ہوگا۔