وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے جنوری میں پھر سے منی بجٹ لانے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ نئے بجٹ میں ٹیکس میں اضافے کی تجویز ہے ۔بدھ کو سینیٹر فاروق ایچ نائیک کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی خزانہ کا اجلاس ہوا جس میں وزیر خزانہ اسد عمر اور گورنر اسٹیٹ بینک نے کمیٹی کو بریفنگ دی۔گورنر اسٹیٹ بینک طارق باجوہ نے کمیٹی کو بتایا کہ اسٹیٹ بینک وزیر خزانہ کی مشاورت سے فیصلہ کرتا ہے اور مستقبل میں بھی مشاورت سے فیصلہ کیا جائے گا۔کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے اسد عمر نے کہا کہ 2017 معاشی تاریخ میں منفرد تھا، اس سال جیسا معاشی بحران ملکی تاریخ میں پہلے نہیں آیا، 1998 اور 2008 میں بھی معاشی بحران کا سامنا کرنا پڑا تھا، 2017 اور 2018 میں 19 ارب ڈالرز کا کرنٹ اکاونٹ خسارہ ریکارڈ کیا گیا، مئی، جون اور جولائی میں ہر ماہ 2 ارب ڈالرز کا کرنٹ اکاونٹ خسارہ چل رہا تھا، اگر اسی رفتار سے چلتے تو سالانہ 24 ارب ڈالرز کا کرنٹ اکاونٹ خسارہ ریکارڈ ہوتا، خسارے کو روکنے کے لیے فسکل اور مانیٹری پالیسی کے تحت اقدامات کیے گئے۔وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ کرنٹ اکاونٹ خسارہ اب ماہانہ ایک ارب ڈالرز تک پہنچ چکا ہے، یہ خسارہ اب بھی زیادہ ہے، رواں سال 12 سے 13 ارب ڈالرز کا کرنٹ اکاونٹ خسارہ ہوگا، رواں سال 12 ارب ڈالرز کا فنانسنگ گیپ ہے۔اسد عمر نے بتایا کہ حکومت نے ملک کو معاشی دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے اقدامات کیے، سعودی عرب سے 2 ارب ڈالرز مل چکے ہیں، جنوری میں سعودی عرب سے ایک ارب ڈالرز ملیں گے، سعودی عرب سے 3 فیصد سود پر قرضہ لیا گیا ہے جب کہ 270 ملین ڈالرز کا تیل ماہانہ ادھار پر دے گا، جنوری میں سعودی عرب سے تیل ادھار ملنا شروع ہوجائے گا اور رواں سال ڈیڑھ ارب ڈالرز کا تیل ادھار پر ملے گا۔انہوں نے مزید بتایاکہ یو اے ای سے امدادی پیکیج پر بات چیت چل رہی ہے، پیکیج کا اعلان چند روز میں ہوجائے گا، اس کے علاوہ چین سے بھی امدادی پیکیج پر بات ہورہی ہے، چین کے کمرشل بینکوں سے فنانسنگ ملے گی، 2019 تک فنانسنگ گیپ پورا ہوچکا ہے۔اسد عمر نے کہا کہ آئی ایم ایف کو فریم ورک بھجوا چکے ہیں اور مکمل پروگرام دے چکے ہیں، آئی ایم ایف پروگرام میں جانے کی جلدی نہیں، جب تک اچھا پروگرام نہیں ملتا قرض لینے کا فیصلہ نہیں کریں گے، آئی ایم ایف سے معاشی ریفارمز پر اختلافات ہیں، ہم نے جہاز کو لینڈ کرانا ہے کریش لینڈنگ نہیں کرانی۔وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ معاشی اصلاحات کا عمل شروع ہوچکاہے، ٹیکس ری فنڈز کا عمل تیز کیا جا رہا ہے، جب عوام کو اعتماد ہوگا تب معاشی اصلاحات کریں گے، معاشی اصلاحات پر عوام کو اعتماد میں لانے کی ضرورت ہے۔اسد عمر نے بتایا کہ دسمبر 2017 میں ڈالر 105 روپے کا تھا ،آج ڈالر 138 روپے کا ہے، دسمبر سے جولائی تک ڈالر 23 روپے مہنگا ہوا، اب روپے کی بے قدری کم ہونا شروع ہوچکی ہے، ڈالر کی قیمت میں اضافے کی انکوائری کے لیے تیار ہوں۔بریفنگ کے دوران وزیر خزانہ نے بتایا کہ ہوسکتا ہے جنوری میں منی بجٹ لائیں تاہم ابھی اس کا فیصلہ نہیں ہوا، اس حوالے سے جائزہ لیا جارہا ہے، منی بجٹ میں ٹیکس بڑھانے کی تجویز ہے۔ان کا کہنا تھاکہ پاکستان کی معیشت عالمی معیشت کا مقابلہ نہیں کررہی، معیشت کوچلانے کے لیے ٹیکس کم کیے جا سکتے ہیں، ٹیکس ری فنڈز کے لیے بانڈز جاری کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، ٹیکس ری فنڈز رواں سال کلیئر کردیں گے۔واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے کچھ روز بعد ترمیم شدہ مالیاتی بل پیش کیا تھا جس میں سگریٹ، مہنگے موبائل فون اور لگژری آئٹم پر ڈیوٹی بڑھائی گئی تھی۔