ہندوستان نہیں بلکہ بھارت

برصغیر کے مسلمانوں کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ انہیں تخت دلی پر ممکن سلاطین نے اپنے اقتدار کے لئے استعمال تو کیا مگر اسلام کے لئے یا خود ان مسلمانوں کے لئے کوئی تسلی بخش کام شاذو نادر ہی کیا ہے، ہماری چودہ سو سالہ تاریخ میں ان سلاطین نے یا ان کی ڈگر پر چلنے والے مسلمان سیاسی لیڈروں نے بھی عوام کو اپنے پاؤں کی جوتی سمجھا ہے مگر انہیں کبھی کچھ دیا نہیں ہے، بلکہ صرف اپنی کرسیٔ اقتدار کے سہارے اور پائے ہی جانا اور مانا ہے، اگر حق گو علمائے کرام جیسے مجدد الف ثانی اور خانوادہ شاہ ولی اللہ دہلوی کے حق پرست علماء نہ ہوتے یا سید ہجویر اور خواجہ اجمیر اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے صوفیۂ کرام نہ ہوتے تو برصغیر میں بھی اسلام اور مسلمانوں کا اسی طرح دیس نکالا ہو جاتا جس طرح صدیوں کی حکمرانی کے باوجود سپین اورسلی وغیرہ سے اسلام اور مسلمان کو مٹایا جا چکا ہے اور اگر علامہ اقبال اور قائداعظم جیسے مخلص اور دلیر قائدین میسر نہ آتے تو تحریک پاکستان کامیاب تو کیا ہوتی‘‘ بلکہ چلتی ہی نہیں!
آپ گھبرائیں نہیں صرف ایک مثال سے بات واضح ہو جاتی ہے، تقسیم ہند کے بعد سے آج تک بھارت کے نام نہاد اونچی ذات کے برہمن اور بنیا کی مکاری کے مقابلے میں پاکستان میں قائداعظم کے بعد کرسیٔ اقتدار کا کھیل کھیلنے والے اپنے کام چوروں اور حرام خوروں کو دیکھ لیجئے، چالاک برہمن دعویدار تو جمہوریت اور سیکولرزم کا ہے۔ مگر عملی طور پر وہ تنگ نظر اور نسل پرست بنکر ہندو ریاست اور اکھنڈ بھارت کی راہوں پر چل رہا ہے، ادھر ہمارے کرسی پرست نام تو اسلام اور نظریہ پاکستان کا لیتے ہیں مگر عملی طور پر ہر قدم اسلام سے دوری کی طرف اٹھ رہا ہے!
یہ سب جانتے ہیں اور آپ بھی مانتے ہیں کہ مسلمان ہندوستان یا انڈیا کو متحدہ رکھتے ہوئے سب کے ساتھ پرامن بقائے باہمی سے زندگی گزارنے کے لئے آمادہ تھے مگر نام نہاد اونچی ذات کے ہندو برہمن اور بنیا کو ’’ہندوستان‘‘ کے لفظ سے مسلمانوں کے ایک ہزار سال سے زائد عرصہ کی حکمرانی کی بو آتی تھی اس لئے وہ اپنے لئے ’’بھارت‘‘ بنانے اور انڈیا اور ہندوستان کی تقسیم پر اصرار کرتے تھے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ 1947ء میں آل انڈیا ریڈ پر انڈیا کی پارٹیشن یعنی ہندوستان کی تقسیم کا متفقہ اعلان کرنا مقصود تھا، ایک طرف مکار برہمن کا نمائندہ ایک مکار پنڈت تھا جس کا نام جواہر لال نہرو تھا، دوسری طرف مسلمانوں کی مسلم لیگ کا نمائندہ ایک نواب زادہ تھا، پنڈت نے نوبزادہ کو اپنے شیشہ میں اتارنے کی چال چلی اور منوا لیا کہ نواب زادہ صاحب آپ تو پاکستان زندہ باد کہنا پسند فرمائیں تو کیا مجھے انڈیا زندہ باد کہنے کی اجازت دیں گے؟ !
نواب زادہ صاحب نے اپنے دونوں کے ہاتھ خوشی سے اجازت کے لئے بلند کر دیئے، حالانکہ کہنا یہ چاہئے تھا کہ سن بھائی مکار پنڈت تو یہ کہے گا کہ ہندو انڈیا بھارت زندہ باد مگر میں تو کہوں گا ’’مسلم انڈیا پاکستان زندہ باد‘‘، لیکن ’’لبھو رام‘‘ کا نمائندہ پنڈت مکارانہ چال چل چکا تھا بلکہ ’’چلوا بھی چکا تھا‘‘، جس نے اگلے دن ہی اعلان کر دیا کہ مسلمان تو اپنا ٹکڑا ’’پاکستان‘‘ لے گئے۔ اس لئے جو کچھ انڈیا کے نام سے جانا اور مانا جاتا ہے اس کے وارث اور مالک تو ہم ہندو ہیں، لہٰذا جو کچھ انگریز کے پاس ’’برٹش انڈیا‘‘ کے نام سے تھا اس کے وارث اور مالک صرف ہم ہندو ہی ہیں، اس میں لندن کے انڈیا آفس میں جو کچھ پڑا ہے، جس میں سرفہرست انڈیا آفس لائبریری میں موجود عربی فارسی کے نادر مخطوطات بھی شامل ہیں، یہ تو بھلا ہو انگریزی سامراج کا کہ اس نے دوٹوک جواب دے دیا تھا کہ انڈیا کا جو کچھ لندن میں ہے وہ تو صرف انگریزی سامراج کی اپنی لوٹ مار ہے، اس سے ہندو یا مسلمان کا کوئی تعلق نہیں ہے!
تو ہندو چونکہ ہندوستان کی بجائے ’’بھارت‘‘ کا دعویدار تھا اس لئے اس کا نام صرف بھارت ہی ہے مگر مکار برہمن خود کو بھارت کے بجائے انڈیا کا نام لیتا ہے، مگر ہمیں ہندوستان کے سلاطین دہلی کی میراث کا سمجھتے جانتے اور مانتے ہوئے لبھو رام کے دیش کو صرف بھارت ہی کہنا‘ بولنا اور لکھا چاہئے، اگر کبھی میں اتفاق سے قومی اسمبلی میں پہنچ جاؤں تو پہلی قرارداد یہی پیش کرونگا کہ آل انڈ ریڈیو پر1947ء میں سرزد ہونے والی غلطی کے بجائے ہم تو مسلم انڈیا پاکستان ہیں اور ہندو کو سلاطین دہلی کی چوری کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ہندو کا دیش تو صرف ’’بھارت‘‘ ہے‘ ہندوستان کے لفظ پر اس کا اب کوئی حق نہیں ہے۔ ہم تو اسے صرف بھارت کہیں گے اور لکھیں گے، یا زیادہ سے زیادہ ’’ہندو بھارت‘‘ کہیں گے اور لکھیں گے، ہندوستان کی جامع اصطلاح تو دہلی کے مسلمان بادشاہوں کی ایجاد ہے جو ترکستان یا ترکمانستان کی طرح سنٹرل ایشیا کے مسلمانوں کے سٹائل میں تیار کی گئی ہے اس لئے ہم ہندو برہمن بنیا کے لئے اسے کھلا نہیں چھوڑیں گے، ہندو کا دیش تو صرف بھارت ہے جسے اب استعمال کرتے ہوئے بھی شرماتا ہے اس لئے خود کو ہندوستان یا انڈیا کہتا پھرتا ہے!
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن