قائد اعظم : دور اندیش

قائد اعظمؒ سرکاری وسائل کے استعمال میں محتاط ہونے کے ساتھ ساتھ وقت کے استعمال میں بھی بڑے جزرس تھے۔ مرزا جواد بیگ بتاتے ہیں کہ اس سلسلے میں اُنہوں نے قائد اعظم ؒ جیسی نفاست پسند شخصیت کو دھول اور مٹی میں بھی کام کرتے ہوئے دیکھا۔
’’یہ کہانی بڑی دلچسپ ہے!‘‘۔
مرزا صاحب نے ایک روز اپنی یادوں میں ڈوب کرلطف لیتے ہوئے بتایا:
’’ قائد اعظمؒ کے دفتر میں ایک عام سی کال بیل تھی جس کے دبانے سے اُس کے اندر لگا دھات کا ٹکڑا آہنی خول سے ٹکرا کر آواز پیدا کرتا لیکن یہ آواز باہر بیٹھے ہوئے چپراسی تک نہ پہنچ پاتی۔ اِس لیے اُسے کام بتانے کے لیے انہیںاُٹھ کر ہر بار دروازے پر اُس کی نشست تک آنا پڑتا۔ قائداعظمؒ کو اس تکلیف سے بچانے کے لیے فیصلہ ہوا کہ دفتر میں برقی گھنٹی لگا دی جائے ۔ اُس زمانے میں یہ کام ذرا مشکل تھا۔ بجلی کا تار بچھانے کے لیے دفتر کے اندر اور باہر کھدائی کی ضرورت تھی۔ طے پایاکہ یہ کام شام کو قائداعظمؒ کے دفتر سے اُٹھنے کے بعد اور صبح دفتر پہنچنے سے پہلے کر لیا جائے لیکن اِس دوران میں کام مکمل نہ ہوسکا اور اگلی صبح عین وقت پر قائد اعظمؒ دفتر میں داخل ہوئے تو کام جاری تھا۔ یہ دیکھ کر سید جعفر علی ۵؎ نے کارکنوں کو کام روکنے کا حکم دے دیا۔ یہ لوگ ا پنا سامان سنبھال کر جانے لگے تو قائد اعظمؒ کی نظر ان پر پڑگئی جس پر انھوں نے جعفر صاحب سے پوچھا کہ اِن لوگوں نے کام کیوں بند کر دیا ہے، انھوں نے وجہ بتائی تو قائد اعظم نے حکم دیا کہ کام جاری رکھا جائے، لہٰذامزدوروں نے دوبارہ کام شروع کر دیا۔ اب صورت یہ تھی کہ قائد اعظمؒاپنی نشست پربیٹھے کام میں مصروف ہیں، دوسری طرف مزدوروں کی کھٹ پٹ جاری ہے جس سے شور بھی اٹھ رہا ہے اور دھول مٹی بھی اڑ رہی ہے۔
قائد اعظمؒ بڑی نفاست کے ساتھ پرُسکون طریقے سے کام کرنے کے عادی تھے۔شور شرابا اور گرد آلود ماحول اُن کے مزاج سے مطابقت رکھتاتھا اور نہ ان کی صحت اس کی اجازت دیتی تھی لیکن اس کے باوجود قائد اعظمؒ نے اِس صورتِ حال کو برداشت کیا تو اس کا سبب یہی تھا کہ سرکاری وسائل اور وقت کا ضیاع انہیں پسندنہ تھا اور وہ ابتدامیں ہی اس کی مثال قائم کردینا چاہتے تھے۔
گورنر جنرل کی حیثیت سے وہ کارِسرکار میں ضابطے کی خلاف ورزی کسی صورت میں برداشت نہ کرتے۔ ایسی ہی ایک کوشش میں سیکریٹری خزانہ ممتاز حسین صاحب اُن سے ڈانٹ کھا بیٹھے تھے۔ ممتاز صاحب کا طریقہ یہ تھا کہ وہ فائل قائد اعظمؒ کے سامنے رکھتے، ذرا پیچھے ہٹ کر احترام سے کھڑے ہو جاتے، قائد اعظمؒ فائل دیکھتے جاتے اور دستخط کرتے جاتے۔ درمیان میں کوئی بات پوچھنے کی ہوتی تو سوال بھی کرلیتے۔ اُس روز بھی سب کچھ معمول کے مطابق ہوا لیکن ایک فائل پر قائد اعظم رُک گئے اور اُن کی طرف سوالیہ نظر سے دیکھا،خفگی واضح تھی لیکن ممتاز حسین نے اس کے باوجود ہمت کرکے وضاحت کی کوشش کی جس پرقائد اعظمؒنے سختی کے ساتھ کہا:
" It should go to the Prime Minister ! "
ممتاز حسین نے خاموشی سے فائل اُٹھا لی۔ واقعہ یہ تھا کہ سیکریٹری خزانہ کوئی ایسا کام کرنا چاہتے تھے جس سے وزیر اعظم لیاقت علی خان متفق نہ تھے چناں چہ انہوں نے براہ راست قائد اعظمؒ سے منظوری لینے کی کوشش کی اور ناکام رہے۔اس طرح قائد اعظمؒ نے سرکاری حکام ہی نہیں بلکہ پوری قوم پر واضح کردیا کہ اس ملک میں کوئی کام خلاف ضابطہ نہیں ہوسکتا ۔
مرزا جواد بیگ علی گڑھ میں اپنے گھر سے لے کر دہلی میں قائد اعظمؒ کے گھر تک کے معمولات کے شاہد اور گواہ رہے ہیں ۔میں نے ایک بار اُن سے قائدِاعظمؒ کے مذہبی عقائد کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے دوٹوک الفاظ میں جواب دیاکہ وہ اوّل و آخر مسلمان تھے لیکن اس مختصر جواب سے میری تسلی نہ ہوسکی ۔ مزیدسوالات پر اُنہوں نے واضح کیاکہ مولانا اشرف علی تھانوی کے مشورے سے اُ نھوں نے قرآنِ حکیم کا مطالعہ قیام پاکستان سے بہت پہلے شروع کردیا تھا۔ اس مقصد کے لیے ایک عالم دین روزانہ دہلی میں 10۔ اورنگ زیب روڈ یعنی ان کے گھر میں اُنھیں قرآن حکیم کی تعلیم دیا کرتے تھے ۔
قائدِاعظمؒ نے اپنے عہد کی جدید ترین تعلیم حاصل کررکھی تھی،مال دولت سے بھی اللہ نے انھیں خوب نوازاتھا۔ ایسے انعامات عام لوگوں کا توازن بگاڑدیتے ہیں لیکن قائد اعظم ؒ کا معاملہ مختلف تھا۔ ان عوامل نے مل کر اُن کی زندگی میں قدیم و جدید کا حسین امتزاج پیدا کر دیا تھا ۔ پاکستان کیسا ہونا چاہیے؟اس کی عملی شکل دیکھنی ہو تو قائد اعظم ؒکی تصویر دیکھ لیجیے۔ قراقلی ٹوپی، شیروانی اور شلوار قمیص میں ملبوس فراٹے سے انگریزی بولتا ہوا ایک طویل قامت شخص جس کے سامنے بڑے بڑوں کی ٹوپیاں گر جاتی ہیں ۔ (ختم شد)

ای پیپر دی نیشن