علم حق

فلسفہ افلاطون کے مقدمے کا مطالعہ کرتے ہوئے میری نگاہ سے گزرا کہ افلاطون کے دور میں ایتھینز (Ethens) کے سوفسطائی نوجوانوں کو فن خطابت سکھاتے تھیاور اس سلسلے میں ہر طرح کے سیاسی، معاشی، معاشترتی اور مذہبی مسائل پر مناظرہ کراتے تھے جس کا مقصد امرِحق معلوم کرنانہیں ہوتا تھا بلکہ مخالف کو قائل کرنا ہوتا تھا۔سقراط کے زمانے کے سوفسطائی پیشہ ورمعلم تھے ان میں اور سقراط میں یہ بات مشترک تھی کہ دونوں اخلا ق و معاشرت، تمدن اور سیاست کے مسائل کی تعلیم دیتے تھے لیکن سقراط کی تعلیم کا طریقہ، مقصد اور روح مختلف تھی نہ وہ مسند دس پر بیٹھتا تھا نہ اسکا معاوضہ لیتا تھا نہ اپنے خیالات خطابت کے ذریعے ظاہر کرتا تھا بلکہ وہ اُٹھتے بیٹھتے کسی مسئلے پر بحث چھیڑ دیتا، سوالوں جوابوں کے ذریعے لوگو ں کو ٹٹولتا کہ ان میں علم حق کتنا ہے اور زُعم باطل کتنا ہے مسلسل جرح کرنے سے لوگوں کو احساس ہوتا کہ وہ زندگی کا سطحی علم رکھتے ہیں۔علم نام ہے جزیئات سے کلیات تک اتفاقی مظاہر سے ابدی حقائق تک پہنچنے کا اور اسکے لئے سُنی سنائی باتوں کو چھوڑ کر ذاتی تحقیق، غور وفکر اور کوشش و محنت کی ضرورت ہے۔اِس طرح انسان معاملا ت کی تہہ تک پہنچتا ہے اور صحیح نتائج اخذ کر کے درست لائحہ عمل اختیا ر کرتا ہے اس سچے علم پر اچھی عملی اور اخلاقی زندگی کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔یہ آج کے انسان کا مسئلہ نہیں یہ ہمیشہ سے انسان کا مسئلہ رہا ہے ہر مذہب ہر دانشور خواہ وہ ارسطو سقراط بقراط ہوں یا موجودہ زندگی کے فلاسفردانشور سب اس بات پر زور دیتے رہے کہ سُنی سنائی باتوں کو چھوڑ کر غوروفکر، ذاتی تحقیق اور کوشش سے حقائق کی تہہ تک پہنچو۔ اس طرح سچا علم حاصل ہوتا ہے اور یہی سچا علم حکمت اور رُشد پر مبنی فیصلے کرواتا ہے۔ آج جب ہم اپنے گردونواح پر نگاہ ڈالتے ہیں تو افسوس ہوتا ہے کہ سچ میں جھوٹ ملا کر پیش کرنا معاشرے میں معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ہمارے ایک دوست ہیں جو اپنے آپ کو نڈر اور بے باک کہلانا پسند کرتے ہیں لہذا دوسروں کے بارے میں کھلم کھلا اپنے خیالات کا اظہار کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ایک مرتبہ کسی کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کیلئے مبالغہ آمیزی کا سہارا لے رہے تھے کسی کے ٹوکنے پر فرمانے لگے آج کل یہی چیز بکتی ہے کیا تم نے کبھی میڈیا پر نہیں دیکھا کیسے کیسے بڑے بڑے صحافی اور لیڈر بیٹھ کر باتوں ہی سے کسی کو ہیرو اور کسی کو زیرو بنا دیتے ہیں بلکہ اس سلسلے میں ایک بات میں نے سنی تو مجھے بڑا رنج ہوا کہ ہم جن کو بڑا دانشور سمجھتے ہیں اور روزشام کئی گھنٹے ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر اُنکے پروگرام دیکھتے ہیں اور اُس پر اپنی رائے قائم کرتے ہیں اُ ن سے کسی نے پوچھا کہ آپ جو فلا ں لیڈر کے بارے میں اتنا منفی بولتے ہیں تو کیا واقعی آپکی ناپسندید گی اُسکے باریمیں حقائق پر مبنی ہے فرمانے لگے ایسی کوئی بات نہیں ہم تو صرف لوگوں کے جذبات تو تسکین دے رہے ہوتے ہیں کیونکہ نفسیات کا اصول ہے کہ جسے آپ خود تھپڑ نہیں ما ر سکتے اُسے کوئی دوسرا تھپڑمارے تو آپکے جذبات کچھ نہ کچھ تسکین (Satisfaction)پاجاتے ہیں۔ لہذا قطع نظر اس بات کے کہ کون تھپڑکا حقدار ہے اور کون نہیں ہم سب ایک دوسرے کے منہ پر طمانچہ مار کر اپنے آپ کو مطمن کرنے میں مصروف ہیں کہ ہم نے حق ادا کر دیا۔
آج ہر باشعور شخص کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اندر کے سچ کو باہر لائے لیکن اس سے پہلے پوری محنت اور کوشش سے تحقیق کرے معاملے کی تہہ تک پہنچے حقائق کی روشنی میں اپنی رائے قائم کرے۔ ہمار امیڈیا اور سوشل میڈیا بجائے سُنی سنائی باتوں کو بغیر تحقیق کے آگے پہنچانے کے اگر سچائی اور حق کو لوگوں تک پہنچائے تو شاید اس سے بڑی خدمت اس دور میں کوئی اور نہیں ہو سکتی۔ باقی مکاتب فکر کے لوگوں کو بھی یہی طرزِ عمل اختیار کرنا چاہیے۔دوسروں کے نقائص بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں جیسا کہ سقراط نے کہا ہے کہ دانشمندی کے معنی یہ ہیں کہ انسان اپنے دوست کو اسکے نقائص سے آگا ہ کرے تاکہ اسکے دل میں عجزو انکسار پیدا ہوبجائے جھوٹی تعریف کہ جو اسکو مغرور بنا دے لیکن اسکا بھی کچھ ضابطہ اخلاق ہوتا ہے۔ بُرائی کی شدت کے مطابق تنقید ہو گی۔ کیونکہ تنقید کا مقصد بھر ے بازار میں کسی کو رسوا کرنا نہیں بلکہ نصیحت کر کے اُسے سدھا رنا ہے۔ سچائی کوسمجھنااور سچائی کو کھوجنا آج کے انسان کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے کیونکہ ہمارے گردو نواح میں اتنا جھوٹ اور مبالغہ ہے کہ اس میں سچ اور حق کو پہچاننا بعض اوقات مشکل ہو جاتا ہے لیکن کوشش اور تحقیق سے سچ تک پہنچنے کے ذرائع بھی باآسانی میسر ہیں لہذا اگر آپکے اپنے اندر سچائی اور نیک بیتی ہے تو آپ باآسانی راہِ حق کو پہچا ن جائیں گے۔

شازیہ ارم....بنیادی باتیں

شازیہ ارم....بنیادی باتیں

ای پیپر دی نیشن