قانون شہریت‘ بھارتی مسلمان اور کشمیر

Dec 26, 2019

جی۔ این بھٹ

جب ظلم کے سامنے خاموش رہا جائے۔ دوسرے کے گھر کو جلتا دیکھ کر آنکھیں بند اور ہونٹ سی لیے جائیں تو پھر اک وقت ایسا بھی آتا ہے جب خود خاموش رہنے والوں کا گھر بھی آگ کی لپیٹ میں آتا ہے۔ خود اسے بھی مظالم کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس وقت اس کی آنکھیں بھی کھل جاتی ہیں اور ہونٹ بھی مگر اس وقت پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے کیونکہ ظالم اپنے سامنے ڈٹ جانے والوں کو پہلے ہی تہہ تیغ کر چکا ہوتا ہے۔ جس طرح علیحدہ علیحدہ لکڑیاں آسانی سے ٹوٹ جاتی ہیں۔ اگر یہی لکڑیاں مل کر جمع ہو کر یکجا ہوں تو انہیں توڑنا آسان نہیں ہوتا۔ اب یہی کچھ بھارت میں ہو رہا ہے۔ کشمیر پر بھارتی مظالم دیکھ کر بھی بھارتی مسلمان خاموش رہے کسی نے یہ مظالم روکنے کے لیے آواز بلند نہیں کی۔ بہت سے نیشنلسٹ اورمذہبی رہنمائوں تک نے اسے بھارت کا اندرونی معاملہ قرار دیا۔ پورے بھارت میں کسی نے بھی بھارت سرکار سے ان 35 برسوں میں یہ تک کہنے کی زحمت گوارہ نہیں کی کہ کشمیری بھی اگر بھارتی شہری ہیں تو ان کا اس بے دردی سے قتل عام کیوں ہو رہا ہے۔ بحیثیت مسلمان ہی یہ بھارتی مسلمان اگر شور مچاتے اور کشمیری مسلمانوں کی بربادی پر احتجاج کرتے تو بھارت کو ہاتھ روکنا پڑتا مگر سب نے کشمیریوں کے قتل عام پر ہونٹ بند رکھے۔ کشمیری تو آگ اور خون کا یہ دریا عبور کر ہی لیں گے۔ مگر آج خود بھارتی مسلمانوں کے ساتھ بھارت میں جو کچھ ہو رہا ہے اسکا حساب کون مانگے گا۔ بھارت سرکار نے پورے بھارت کو مسلمانوں کے لیے جہنم بنا دیا ہے۔ سرکاری فورسز جگہ جگہ مسلمانوں کے خلاف جنگی بنیادوں پر ایکشن لے رہی ہے۔ ان کی جان مال اور املاک کو چن چن کر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ حالانکہ بودھ اور دیگر اقلیتیں اور ہندو بھی احتجاج کر رہے ہیں شدید احتجاج کر رہے ہیں۔ مگر ان کی کی جان مال اور املاک کے ساتھ وہ سلوک نہیں ہو رہا جو مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔ ان پر لاٹھی چارج آنسو گیس اور پانی کی دھار بھی نہایت احتیاط اور معذرت خواہانہ انداز میں پھینکی جا رہی ہے۔ نئے شہریت قانون کا سارا غصہ اور ملبہ مسلمانوں پر نکالا جا رہا ہے۔ کیا اب بھی بھارتی مسلمان اور بنگلہ دیشی عوام اور حکمران قائد اعظم اور علامہ اقبال کی دو قومی نظریہ کو تسلیم کرنے سے انکار کی جرأت کرسکیں گے۔
اب کہاں سے کوئی مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا حسین احمد مدنی کو ڈھونڈ کر لائے اور انہیں بتائے کہ یہ ہے جناح اور اقبال کے پیغام کی جیت کہ جو انہوں نے کل کہا تھا آج وہ ہندوستان کا بچہ بچہ کہہ رہا ہے۔ قائد اعظم نے کیا خوب کہا تھا کہ ایک وقت آئے گا جب بھارتی مسلمانوں کو بھارت سے اپنی محبت اور وفاداری ثابت کرنے کے لیے نجانے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑیں گے۔ آج وہی ہو رہا ہے۔مگر کوئی نہیں مان رہا بھارت کے حکمران مسلمانوں کو ہندوستانی تسلیم نہیں کرتے۔ حالانکہ یہ 20 کروڑ مسلمان اسی بھارت کے باشندے ہیں۔ صدیوں سے وہاں رہ رہے ہیں۔ صرف مذہب تبدیل کرنے پر وہ ہندوئوں کے نزدیک غیر ہو گئے ہیں۔ بھارت کامتنازعہ شہریت بل خود بھارت کے سیکولر اور لبرل عوام کے لیے بھی نزدیک ناقابل برداشت ہے۔ وہ اسے قابل قبول قرار نہیں دے رہے۔ خود پڑھے لکھے ہندوستانی سڑکوں کو اسکے خلاف مسلمانوںکے ساتھ مل کر احتجاج کر رہے ہیں۔ آج ایک بار پھر 1947ء کی طرح ہندوستان کی گلی کوچوں میں دو قومی نظریہ اپنی سچائی منوا رہا ہے جو نظریہ پاکستان کی جیت ہے۔ یہی کام 72 برسوں سے کشمیری مسلمان بھی کرتے آ رہے ہیں جنہیں بھارتی حکمران غدار کہتے ہیں۔ ان کے نزدیک بس شیخ خاندان مفتی خاندان جیسے غدار ہی اصل حقیقی ہندوستانی کشمیری ہیں جو بھارت کی ناجائز غلامی پر راضی ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ بھارت اپنے ان پالتو کارندوں پر بھی اعتبار نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ سب اس وقت نظر بندی کی حالت میں ذلت کے دن گزار رہے ہیں۔ بار بار بھارت کو اپنی وفاداری اور کشمیریوں سے اپنی نمک حرامی کا یقین دلا رہے ہیں۔
اب دیکھنا ہے کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد وہاں بھارتیوں کو رہنے اور جائیدادیں خریدنے کی کھلی چھٹی دینے کے بعد خود کشمیر کی حالت کیا ہو گی۔ کشمیر برصغیر کا فلسطین بنتا جا رہا ہے۔ جہاں ہندو آباد کاری کے لیے کشمیریوں سے زمین ان کے گھر بار حکومت زبردستی چھین کر وہاں کی آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے تاکہ وادی کشمیر کو جو 85 فیصد مسلم آبادی والا علاقہ ہے۔ میں ہندوئوں کو لاکر آباد کر کے یہاں کی مسلم حیثیت ختم کر دے۔ اس تمام مکروہ منصوبے کے ذمہ دار یہی بھارت کے وفادار چند کشمیری خاندان اور ان کے ماننے والے ہیں۔ جنہیں کل بھی کشمیری غدار کہتے تھے آج بھی کہتے ہیں آئندہ تاریخ میں بھی انہیں کشمیری قوم کے دشمن اور غدار لکھا جائے گا جن کی وجہ سے کشمیری ہندوئوں کے بدترین مظالم اور جبر کا شکار ہو کر اپنی وحدت، ریاست اور شناخت کھو رہا ہے۔
اب کشمیریوں کے پاس اور کوئی راستہ نہیں بچا کہ وہ یا تو اجتماعی طور پر بھارت کے آگے سرنڈر کر لیں جس کا کوئی امکان نہیں یا پھر بنی اسرائیل کی طرح تتر بتر ہو جائیں یا پھر مل کر آخری بار ظلم کی اس زنجیر کو توڑنے کی سرتوڑ کوشش کریں جو وہ کر رہے ہیں اور یہی اپنی بچی کچھی ریاست کے بچائو کی اپنی شناخت کی اور کشمیریت کے بقا کی آخری صورت ہے۔ پاکستان کی کوششیں اپنی جگہ مگر عالمی طاقتوں اور اداروں، اقوام متحدہ کو بیدارکئے بغیر کشمیر اور کشمیریوں کو بچانا شاید پاکستان کے لیے بھی ممکن نہیں اس مسئلے کا صرف ایک اور حل بچتا ہے جو پاکستان اور بھارت کے درمیان اس مسئلے کو ہمیشہ کے لیے ختم کر سکتا ہے اور وہ ہے جنگ جس کے لیے بھارت پَر تول رہا ہے اور پاکستان بھی تیار ہے۔ کیا اقوام عالم برصغیر کے کروڑوں لوگوں کو اس المیہ سے بچانے کے لیے کچھ کرینگے یا اپنی تباہی کا نظارہ بھی خود کریں گے۔

مزیدخبریں