توازن

کل کے کالم ''Ignore the Ignorable'' میں کوئی نئی فلاسفی پیش نہیں کی گئی تھی ، مگر بعض دوستوں نے پھر بھی اس پر سوال اٹھائے ہیں۔ تو سوائے اس کے کیا کہہ سکتا ہوں کہ بات مختصر مدلل اور جامع ہو تو اثر رکھتی ہے۔ تکرار ہمیشہ ناگوار گزرتی ہے۔ درجنوں ترجمان ایک ہی بات بار بار کریں گے، تو خلق خدا بدمزہ اور سرکار سبک سر ہوتی ہے۔ جناب وزیر اعظم کا بڑا مسئلہ ان کے درجنوں ترجمان ہیں جو جوازِ جاب کی خاطر ہر وقت کچھ نہ کچھ بولتے رہتے ہیں۔ انہیں فارغ کر کے ’’ایک چپ سب کو ہرائے‘‘ والی حکمت عملی اپنا لیں، تو ہر طرف چین ہو جائیگا۔ اور وہ درپیش مسائل کو وقت دینے کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کے ساتھ اگر خوشگوار ہیں تو کم از کم ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرنے میں ضرور کامیاب ہو جائیں گے۔
اس حوالے سے PTI سرکار کو شہید ذوالفقار علی بھٹو سے سیکھنا چاہئے۔ جس میں جھجھک اس لیے ہونا چاہئے کہ اللہ کے نبیؐ نے فرمایا کہ فراست مومن کی گم شدہ متاع ہے، جہاں سے ملتے لے لو۔اپوزیشن کو نفرت کی حد تک زچ کرنے والے بھٹو کو 1971 ء کے سانحہ کے بعد شملہ جانا تھا، تو اپنی حکمت عملی سے اپوزیشن کی اس قدر حمایت حاصل کر لی تھی کہ بھارت کے لیے روانہ ہوئے، تو اپوزیشن کے بعض رہنما انہیں رخصت کرنے ائیر پورٹ لے گئے تھے۔
٭…٭…٭

ریاض احمد سید…… سفارت نامہ

ای پیپر دی نیشن