اسلام آباد ( عبداللہ شاد - خبر نگار خصوصی) پہلی بار قائد اعظم محمد علی جناح کے یوم پیدائش کے موقع پر بھارت کے مختلف حصوں میں باقاعدہ تقریبات کا انعقاد کیا گیا، کئی مسلم اکثریتی علاقوں میں ریلیاں بھی نکالی گئی۔دہلی میں دھرنا پر بیٹھے کئی سکھوں نے قائداعظم کے پوسٹر اٹھائے رکھے، حیدرآباد دکن کے لکشمی پورہ میں ایسی ہی ریلی میں بھارتی مسلمانوں نے قائداعظم کی عظمت کو بیان کیا اور پاکستان کے قیام کے فیصلے کو درست قرار دیا، اس کے علاوہ اترپردیش، راجستھان، جونا گڑھ سمیت کئی علاقوںمیں پروگرام منعقد کئے گئے۔ پچیس دسمبر کی مناسبت سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس میں برصغیر پاک و ہند کی تقسیم پر گفتگو کی گئی۔ اس کانفرنس میں سابق بھارتی وزیر خارجہ ، وزیر خزانہ اور بی جے پی کے سینئر رہنما جسونت سنگھ کی کتاب ’’ Jinnah: India, Partition, Independence‘‘ پر بحث کی گئی جس میں اعتدال پسند ہندو مصنف نے ببانگ دہل لکھا تھا کہ ’’قائداعظم جیسے رہنما صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں ، محمد علی جناح ہندو مسلم اتحاد کی علامت تھے مگر کانگرسی رہنمائوں کی انگریزوں کے ساتھ مل کر کی گئی سازشوں اور مسلمانوں کی نسل کشی نے ان کے سامنے علیحدہ مملکت کے قیام کے سوا کوئی راستہ نہیں چھوڑا۔محمد علی جناح کو بھارت میں ایک ’’ولن‘‘ کے روپ میں پیش کیا جاتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سردار ولبھ بھائی پٹیل بھارت کی تاریخ کے مکروہ ترین کردار ہیں ، ‘ ۔ کانفرنس میں مقررین نے کہا کہ 27 ستمبر 2020 کو جسونت سنگھ کی پراسرار موت کی بھی تفتیش ہونی چاہیے۔ یاد رہے کہ بھار ت کے چوٹی کے رہنما ’’ایل کے ایڈوانی‘‘ نے 2005 میں اپنے دورہ پاکستان کے دوران مزار قائد پر حاضری دی اور محمد علی جناح کے لئے ’’ وہ عظیم رہنما جس نے تاریخ رقم کی‘‘ کے الفاظ استعمال کیے جس کے بعد بھارت میں حسب روایت ایک بھونچال کھڑا ہو گیا تھا۔ بھارتی مسلمانوں اور سکھوں میں یہ احساس زور پکڑ رہا ہے کہ اگر انھیں اپنی مذہبی خودمختاری کو قائم کرنا ہے تو انھیں علیحدہ وطن حاصل کرنا ہو گا۔