پی ڈی ایم کی حکمت عملی اور حکومت 

پرانے پاکستان میں کسی سیاسی رہنما سے سوال کیا گیا کہ عوام مہنگائی کے ہاتھوں پس رہے ہیں اور دالیں کھانے پر مجبور ہیں جواب ملا کہ دالیں تو پروٹینز بڑھانے کا بہترین ذریعہ ہیں نئے پاکستان میں تو اب دالیں بھی عوام کی قوت خرید سے باہر ہیں دالیں تو ایک طرف ایک درجن انڈوں کی قیمتیں دو سو روپے سے تجاوز کرچکی ہے۔حکومت سابقہ حکومتوں کو مہنگائی کا ذمہ دار قرار دے رہی ہے اور اپوزیشن اس کا قصوروار حکومت کو قرار دیتی ہے ایک کہاوت ہے کہ کسی ریاست میں انتشار جب بڑھنے لگا توریاست کے حکمران نے وزیر سے پوچھا کہ لوگوں میں بے چینی کی اصل وجہ کیا ہے تو اس نے جوابدیا مہنگائی تو اس کا حل کیا ہے حکمران نے پوچھا اس کا حل یہ ہے کہ عوام کو اس سے بڑے مسئلہ میں الجھادو وزیر نے جوابدیا اگلے دن وزیر نے اعلان کیا کہ جو شخص یہ معمہ حل کرے گا کہ مرغی پہلے پیدا ہوئی یا انڈا اس کو انعام واکرام سے نوازا جائے گا لوگ اس مخمصے میں الجھ گئے حکومت اور اپوزیشن بھی مہنگائی کے مخمصے میں اسقدر الجھے ہوئے ہیں کہ بجائے اس کے حل کے ایک دوسرے کو مورد الزام قرار دے رہے ہیںپی ڈی ایم اسی ایجنڈے کے تحت سڑکوں پر آئی لین اصل مسئلہ یہ ہے کہ سوائے لانگ مارچ اور جلسوں کے اپوزیشن کسی موقف پر اکٹھی نہیں ہے یہاں تک کہ اس بات میں بھی کشمکش ہے کہ وزیر اعظم سے استعفیٰ لینا ہے کہ استعفے جمع کرانے ہیں اور اگر واقعی استعفوں سے حکومت گرائی جاسکتی ہے تو تاخیر کیوں اگر استعفے دے بھی دئیے گئے تو کیا ضمنی انتخابات میں یہ جماعتیں حصہ لیں گی پیپلز پارٹی استعفوں کے حق میں نہیں بصورت دیگر وہ سندھ حکومت کی قربانی دے گی اگر وزیراعظم کا یہ نظریہ ہے کہ وہ جلد ہی وزیر اعظم کا بوریا بستر گول کر کردیں گے تو اس کے لئے پی ڈی ایم میں جس اتحاد کی ضرورت ہے اسکا فقدان کیوں ہے لاہور کے جلسے میں وہ عوام کو گھروں سے نکال کر جلسوں میں لاننے میں بری طرح ناکام رہی ہے اندرونی کمزوریوں کی کہانیاں منظرعام پر ہیں سیاست شطرنج کے کھیل کی مانند ہے دونوں حکومت اور اپوزیشن اپنے اپنے کارڈز کھیل رہی ہیں اپوزیشن کے پاس اپوزیشن کا کارڈ ہے تو حکومت حکمت سینٹ الیکشن میں شو آف ہینڈز چاہتی ہے اب دیکھنا ہے کہ کون محنت سے کھیل کھیلتا ہے حکومت کے پاس ایک آپشن ہے کہ معیشت بہتر بنائے بقول وزیراعظم اگر معیشت درست راستے پر گامزن ہے تو اسکے ثمرات عام آدمی پہنچنے بہت ضروری ہیں اگر میثاق معیشت پر عمل درآمد کیا جاتا تو یقینا حالات مختلف ہوتے معاشی استحکام کے لئے قومی مفادات کی خاطر سر جوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت تھی حکومت کا خسارے پر قابو پانے کا دعوی ہے تو اس کا فائدہ عوام تک پہنچنا ضروری ہے پرانے پاکستان میںجی ڈی پی کی شرح پانچ اعشاریہ آٹھ تھی نئے پاکستان میں پانچ اعشاریہ پانچ ہے اشیاء خوردونوش میں دوسو فیصد اضافہ ہوچکا ہے ادویات میں چھ گنا اضافہ درحقیقت عوام پر ظلم کے مترادف ہے اپوزیشن کا موقف بھی مہنگائی ہے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کون کامیاب ہوتا ہے اس کا حل لفظی بیانیہ نہیں کارکردگی ہے ۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن