ارشاد نامہ" میری نظر میں سابق چیف جسٹس آف پاکستان جناب ارشاد حسن صاحب کی سوانح عمری ہی نہیں بلکہ دنیا کی بہترین موٹیویشنل کتابوں میں سے ایک ہے۔شعبہ صحافت سے تعلق کی بنا پر اکثر بے شمار کتابیں نظر سے گزرتی ہیں ان میں سے کچھ کی تومحض ورق گردانی سے ہی پوری کتاب سمجھ میں آجاتی ہے تو کبھی پوری کتاب پڑھ کر بھی حاصل لفظ نہیں ملتا لیکن جب "ارشاد نامہ "میرے ہاتھ میں آئی تو مجھے بیکن کا یہ مشہور مقولہ یاد آگیا کہ "کچھ کتابیں محض چکھنے کیلئے ہوتی ہیں،کچھ نگلنے کیلئے اور کچھ چبا کر ہضم کرنے کیلئے ہوتی ہیں"ارشاد نامہ" بھی انہی چند کتابوں میں سے ایک ہے جنہیں بہ آسانی چبا کر ہضم کیاجاسکتا ہے۔ ارشاد نامہ پڑھنے سے پہلے میرا خیال تھا کہ اس میں قانونی داؤپیچ کے علاوہ زیادہ سے زیادہ اہم تاریخی کیسز کا پس منظر اور نتائج کے بارے میں تحریر کیا گیا ہو گا۔لیکن معاملہ اسکے بالکل برعکس نکلا۔ ارشاد نامہ بہت سے تاریخی حقائق کے پس منظر کا وہ مجموعہ ہے جس سے سابق چیف جسٹس آف پاکستان جناب ارشاد حسن خاں صاحب کی شخصیت کی کئی پرتیں پڑھنے والوں پر کھلتی ہیں۔عموماًیہ فن بہت کم لوگوں کے پاس ہوتا ہے جنہیں بیان اور تحریر پربیک وقت عبور حاصل ہواور بحیثیت صحافی میں ارشاد حسن صاحب کو داد دئیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ وہ ابلاغ کاسلیقہ بخوبی جانتے ہیں۔"ارشادنامہ" پڑھ کر میں بڑے وثوق سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ انہوں نے زندگی میں جو بھی پایا،جن اہم عہدوں تک پہنچے خالصتاًاپنے اسی فن کی بدولت اپنے ہر خواب کو حقیقت کاروپ دینے میں کامیاب ہوئے۔ارشادحسن خان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ پاکستان کے نہایت اہم تاریخی ادوار کے امین ہیں۔ تقسیم کے وقت پاکستان ہجرت، پاکستان کا ابتدائی انتظامی ڈھانچہ، پاک بھارت جنگیں، سیاسی لیڈران کے عروج و زوال، جنرل ایوب خان ، جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف کے مارشل لاء اور اس کے بعد جمہوری ادوار اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں۔اگر کوئی کہے کہ ارشاد حسن خان نے اپنی قسمت خود اپنی محنت سے لکھی تو یہ غلط نہ ہوگا۔"ارشاد نامہ "میں وہ کہتے ہیں "میں نے بچپن سے ہی اپنے بارے میں بڑی رائے قائم کر لی تھی " شاید یہی وجہ ہے کہ ناممکن کا لفظ ارشاد حسن کیلئے کوئی وجود ہی نہیں رکھتا تھا۔ انکی شخصیت میں یقین کی قوت،خود اعتمادی،مردم شناسی،معاملہ فہمی، لطیف مزاجی ،مذہب سے لگاؤ اور رجحان بدرجہ اتم موجود ہے۔"ارشاد نامہ "پڑھتے ہوئے مجھے کئی جگہوں پر ایسے لگا کہ یقین کی قوت اور خوداعتمادی کے علاوہ کوئی ایسی نادیدہ طاقت بھی ہمہ وقت انکے ساتھ ہے جو ہر ناممکن صورتحال کو ان کیلئے معاون و مددگار بنا دیتی ہے۔ اگر یہ سچ نہ ہوتوایک یتیم بچہ جو اپنی تعلیم جاری رکھنے کی استطاعت بھی نہ رکھتا تھا وہ ایک دن جسٹس آف پاکستان کے عہدے پر براجمان ہوا ،اچنبھے کی بات تو ہے۔ارشاد نامہ میںارشاد حسن خان صاحب نے اپنی خامیوں اور کمزوریوں کو چھپانے کی بجائے کھل کران کا اظہار بھی کیا۔ جہاں حالات کا دھارااپنی طرف موڑنے کیلئے چھوٹی موٹی چالاکیوں اورہیر پھیر سے کا م لینا پڑا ، سو لیا۔ اس میں بظاہر کسی کا نقصان تو نہیں ہواالبتہ اپنی ذہانت کااظہار ضرور کیا ہے۔ لوگ عموماً تنازعات سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ ارشاد حسن صاحب ایسے موقعوں سے بھی فائدہ اٹھانے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔جسٹس محبوب مرشدکوسپریم کورٹ میں پریکٹس کے دوران خواجہ عبدالرحیم گروپ میں شامل کروانے کا واقعہ ہی لے لیں ،انکی مرشد سے محبت ہی ایسی تھی کہ جب انہوں نے جنرل ایوب سے اختلافات کی بنا پر بطور ڈھاکہ کے چیف جسٹس آف ہائی کورٹ قبل از وقت ریٹائرمنٹ کے بعد سپریم کورٹ میں پریکٹس کا فیصلہ کیا تو ارشاد حسن خاں نے سر توڑ کوششوں سے انہیں خواجہ عبدالرحیم گروپ میں شامل کروادیاجس سے ان کے مخالفین نے ان پر حکومت اور ایجنسیوں کا آلہ کار ہونے کاالزام لگایا۔ جب امریکی صدر بل کلنٹن پانچ گھنٹوں کیلئے پاکستان آئے تواس وقت کے اپنے ہم منصب یعنی صدرجنرل مشرف کو نظرانداز کر کے زیادہ وقت ارشاد حسن صاحب کے ساتھ ہی غیررسمی گفتگو میں محو رہے اس پر بھی انکے ناقدین نے طرح طرح کی قیاس آرائیاں کیں۔ جنرل ضیاء الحق سے ارشاد صاحب کی بے تکلفی بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہ تھی مگر جب اپنے مؤقف پرانکے سامنے ڈٹ گئے تو کسی ذاتی مفاد کی پرواہ تک نہ کی، یہ بھی انہی کا خاصہ ہے۔ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ ارشاد حسن خان نے چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے کیلئے پی سی او کے تحت حلف اٹھایااور ظفرعلی شاہ کیس کا فیصلہ مشرف کے حق میں دیا۔ توان سے کہناچاہتا ہوں کہ ارشاد نامہ پڑھ کر میری ذاتی رائے یہی ہے کہ ارشاد حسن خان نے ضیاء دور میں چیف جسٹس آف ہائی کورٹ کا حلف بھی پی سی او کے تحت ہی لیاتھا۔ اپنی معاملہ فہمی کی صلاحیت کی بدولت وہ یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ اگر وہ جنرل مشرف کوتین سال کی میعاد تک محدود نہ کرتے تو شاید 2002سے لے کرآج تک جمہوری پہیہ چلاناممکن نہ ہوتا۔
""ارشاد نامہ"
Dec 26, 2020