مکالمہ مٹھو سے…1

Dec 26, 2021

ماہ دسمبر آخری دموں پر، اس کے  چلاو کے دن ہیں، نئے سال نئی صبح کی آمد آمد ہے، لیکن دسمبر  ہمیشہ اداس کر دیتا ہے، ایسے میں نامعلوم شاعر کا اک شعر دسمبر کے نام کر دیں
یہ میرا کام، یہ دفتر سنبھالنا ہے مجھے
وگرنہ دشت، مسلسل پکارتا ہے مجھے
رپے ہم جیسے مڈل کلاسیے، تو ہمارا کام مشقت، اور دفتر سنبھالنا ہی تو ہے، ناں سنبھالیں تو پاکستان کے یہ مڈل کلاسیوں کی اکثریت گھر کیسے چلائے اور سیاسی موسم دیکھیں تو ایسا ہی لگتا ہے کہ دشت پکار رہا ہے، ہر نئے الیکشن، تبدیلی کے موقع پر چاہے وہ بلدیاتی انتخابات ہی کیوں ناں ہوں، دل مچلتا ہے کہ کچھ تو ایسا ہو جسے ہم فخریہ بیان کر سکیں کہ دیکھو، یہ ذمہ داری ہم نے کسی تنازعہ اور فساد کے بغیر پوری کی ہے۔ دسمبر ہے، پہلے ہی اداسی کا موسم طاری ہیایسے میں خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات اور ان میں ہونے والی خونریزی، جھگڑوں ، فائرنگ اور الزامات کی گونج، آصف زرداری کے ا نکشافات،  اور پھر افغانستان کے دل کو چیر دینے و الے حالات ، جنم لیتے انسانی المیہ کے خوفناک خدشات … ان ہی سوچوں میں غلطاں تھے کہ لمبی غیر حاضری کے بعد اچانک مٹھو آن دھمکا،  اس کی کھنک دار آواز کان میں پڑی، کہاں گم ہو استاد، میں بولا سوچ رہا ہوں! کہتا ہے چھوڑو سوچنا ووچنا، وہ جو پہلے سوچ سوچ کر گزر گئے، انہوں نے کیا بگاڑ لیا جو تم کوئی تیر مار لوگے۔ میں نے کہا ٹھیک ہے، پھر تم ہی بتاو  کہ یہ سب کیا ہے، اچانک مولانا فضل الرحمٰن سسٹم میں واپس آگئے، اس معصوم سدے سوال  نے ایک بحث بلکہ مکاملہ کی شکل اختیار کر لی سوچا آپ کو بھی شامل کر لوں
میں؛ یار یہ خیبر پختونخوا میں تو کمال ہی ہوگیا مٹھو؛ ہیں، کیا کمال ہو گیا، یہ تو سب پہلے سے طے تھا!میں؛ مگر کب طے ہوا کہتا ہے تمہیں نہیں پتہ، بڑے بھولے ہو
میں؛ یار واقعی علم نہیں، تم بتاو مٹھو؛ یار بھولے ناں بنو، چلو زور دیتے ہو تو بتا دیتا ہوں
میں؛ کیا بتا دیتے ہو مٹھو؛ یار وہ سرحد پار والے طلبہ ہیں ناں، وہ ضد پر اڑ گئے تھے کہ  مولانا صاحب کی عزت اور تکریم بحال کرو میں؛ عزت تو مولانا صاحب کی پہلے ہی بہت ہے
مٹھو؛ مولانا کی عزت تو ہے، مگر خان صاحب انہیں اسپیس نہیں لینے دے رہے تھے،،، وزرا کے بیانات نہیں دیکھے، کیسے کیسے القابات سے نوازتے رہے ’’حضرت مولانا‘‘ کو
میں؛ ہاں وہ تو ہے، مگر ان طلبہ سے مولانا صاحب کا کیا لینا دینا؟
مٹھو؛ بھولے ناں بنو، تمہیں پتہ ہے کہ مولانا ان طلبہ کی اکثریت کے استاد، بلکہ استاذ ہیں
میں، مگر ووٹ تو پاکستانیوں نے دینے ہیں؟
مٹھو؛ اس کا بھی تو بندوبست کیا تھا، دیکھا نہیں، کیسے عبوری صاحب پاکستان آترتے ہی دوڑے دوڑے اپنے استاد کی قدم بوسی کو گئے
میں؛ تو اس سے کیا ہوتا ہے، ان سے تو اور بھی بہت لوگ ملتے ہیں
مٹھو؛ مگر لوگوں اور ملنے ملنے میں فرق ہوتا ہے
میں؛ وہ کیسے، اور پھر اس کا بلدیاتی الیکشن سے کیا تعلق
مٹھو؛ تم تو نرے گھامڑ ہو، بہت تعلق ہے، میں سمجھاتا ہوں تمہیں، ان کے ساتھ طلبہ خیبر پختونخوا کے پشتون علاقوں، اور سابقہ فاٹا میں بڑے محترم سمجھے جاتے ہیں، ان کی آمد اور مولانا کے ساتھ محبت اور احترام کے ساتھ ہاتھ پکر کر ویڈیو بنوانے سے پیغام دینا مقصود تھا
میں؛ لو بھلا ایک تصویر یا ویڈیو سے کیا فرق پڑتا ہے   مٹھو؛ ارے چمپو، بہت فرق پڑتا ہے، وہ لوگ جو بلدیاتی الیکشن میں گھر بیٹھنے کی تیاری میں تھے یہ ویڈیو دیکھتے ہی مولانا صاحب کو ووٹ دینے پر کمر بستہ ہوگئے، رہی سہی کسر دیگر حالات اور فیکٹرز نے پوری کردی ۔میں دیگر حالات، بھلا وہ کیسے ؟مٹھو؛ یاد ہے خیبر پختونخوا کے تمام جید اور سکہ بند تجزیہ کار، اور باہر سے حالات کا جائزہ لینے کے لئے جانیو الے کیا کہہ رہے تھے؟ میں ؛ ہاں، وہ تو ہے، مگر پیپلز پارٹی کو لوگ کیوں ووٹ کرتے،، اے این پی کو کیوں ووٹ کرتے، 
مٹھو؛ ارے بھائی ارباب خاندان کا اپنا ووٹ بھی تو ہے، پھر بھول گئے پیپلز پارٹی کی پشاور کنٹونمنٹ بورڈ کے الیکشن میں کیا کاکردگی تھی، مولانا تو اس وقت بھی تھے ناں ہھر یہ کیوں بھولتے ہو کہ دہشت گردی مخالف سیاسی قوتوں میں اے این پی سب سے زیادہ متاثر ہوئی پشاور میں، اور دیگر جگہوں پر، میاں افتخار کا بیٹا نشانہ بنا، بشیر بلور گئے، ہارون بلور لب سڑک مارے گئے، سوات میں سیکڑوں لاشیں ملیں،،جب اپنے عبوری صاحب مولانا کے پاس گئے تو اس کا رد عمل بھی تو ہونا تھا میں؛ نہیں یار… یہ پیپلز پارٹی والے دعوے بہت کرتے ہیں مگر کام کم
مٹھو: بھائی بھول گئے، ابتدائی نتائج آنے کے بعد پشاور شہر سے نتائج رک گئے… یا روک لئے گئے، اور پھر الیکشن کمیشن کو تحریری شکایات گئیں، کیا بنا ان شکایات کا، کسی ایک پر بھی الیکشن کمیشن نے کارروائی کی؟( جاری ہے)

میں؛ مگر ن لیگ کیوں ہاری، وہ تو پشاور اور ارد گرد مضبوط جماعت سمجھی جاتی ہے
مٹھو؛ ن لیگ تھی ہی کہاں، وہ جو پیغام طلبہ نے بھیجا اس کے بعد مولانا نے بھی تو کچھ مہرے سیٹ کئے، ن لیگ ان میں سے ایک مہرہ ثابت ہوئی ۔چلو چھوڑو ان باتوں کو، تم سناو، یہ زرداری صاحب کیا کرتے پھر رہے ہیں، کیا کہہ رہے ہیں ۔مٹھو؛ ہیں، تمہیں سب علم تھا چار روز پہلے سے، مگر معصوم بننے کی کوشش کر رہے ہو
میں؛ یار میں ٹھہرا مشقتی، کام کرنا ہے، دفتر سنبھالنا ہے، مجھے کیا علم
مٹھو؛ چلو سن لو،،، بہن بھائی کا پیارغالب آگیا، اپنے زرداری صاحب کو الیکشن سے پہلے ہی علم ہوگیا تھا کہ ان کی پارٹی کے پی میں بلدیاتی الیکشن نہیں جیتے گی ۔میں تو پھر لڑے کیوں، بائکاٹ کر دیتے، نتائج کے بعد احتجاج کرتے؟
مٹھو دونوں باتیں آسان نہیں تھیں، ایک تو پیپلز پارٹی ویسے ہی کسی سطح کے الیکشن کے بائیکاٹ کی مخالف ہے، یاد ہے اسی بات پر پی ڈی ایم سے نکالی گئی، اے این پی بھی نکلی، دوسرے زرداری صاحب دکھانا چاہتے تھے کہ ہم کسی چھتری کے بغیر بھی مئیر پشاور کے لئے کتنے ووٹ لے سکتے ہیں،، اور پھروہ جو ارباب زرک اور ان کے ساتھیوں کا دعویٰ ہے کہ ان کے 19 ہزار ووٹ مسترد ہوئے، اس میں کچھ تو وزن ہوگا ۔میں؛ بھائی میں ان کا ترجمان تو نہیں، مجھے کیا، یہ جیالوں کا معاملہ ہے، تم یہ بتاو کہ پیپلز پارٹی نے احتجاج کیوں نہیں کیا
مٹھو؛ تمہیں نہیں پتہ آصف زرداری اور مولانا کا کیا تعلق ہے؟ اور پھر حاجی غلام علی بھی ا?صف زرداری کے دوست ہیں، اور تمہیں یہ بھی پتہ ہے کہ احتجاج کے بجائے زرداری صاحب سیاسی چالوں اور مہرے بٹھانے پر یقین رکھتے ہئیں، تم دیکھنا جلد وہ اپنے مہرے سیٹ کر لیں گے، پھر مولانا پر بھی احسان ہوجائے گا کہ دیکھو میں چپ کر گیا، آپ کی وجہ سے، یعنی ایک تیر سے دو شکار
میں؛ چلو چھوڑو، کمزوریاں پیپلز پارٹی میں بھی تھیں، الیکشن لڑنے کا وسیع تجربہ ہونے کے باوجود بس وہ عوامی حمایت پر ہی تکیہ کرتی رہی، انتخابی مہم میں کوآرڈینیشن کا فقدان تھا، پولنگ ڈے اور نتائج پر نظر رکھنے کی کوئی حکمت عملی ہی ناں تھی،،، اور سناو او آئی سی سے کیا نکلا؟

مٹھو؛ ارے بھائی وہ جو کہتے  تھے کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے انکو اب چپ لگے گی،  وہ مثال سنی ہے ناں پنجاب کی، جب بیوی میاں سے روٹھ کر میکے گئی تو اگلے ہی روز اپنے وچھے کی دم پکڑ کر واپسی آگئی یہ کہتی کہ وچھیا نئیں میں نئیں جاناں؟ بس یہی ہوا ہے دنیا کے ساتھ  جلدی میٰں پابندیاں لگا دیں، اب اپنی غلطی کا احساس ہورہا ہے ۔میں؛ کیا احساس، امریکہ اثاثے تو ڈی فریز کر نہیں رہا   مٹھو؛ بھائی انسانی المیہ جنم لے رہا ہے، بھوک سے ہلاکتیں ہوئیں، تو عالمی ضمیر کیا جواب دے گا، اور پھر دہشت گرد گروہوں کو پنپنے کا موقع مل گیا، تو طالبان عبوری انتظامیہ انہیں کیسے روکے گی، جب کسی کے پیٹ میں روٹی ہی نہیں ہوگی تو وہ لڑے گا کیا،، بس یہی معاملہ ہے کہ اقوام متحدہ نے بھی پابندیوں کی موھودگی  میں افغانوں کے ساتھ کاروبار کی اجازت دے دی ہے اور امریکہ نے بھی امدادی رقوم کی منتقلی کا راستہ کھول دیا ہے، اس حجت کے ساتھ کہ یہ رقوم دہشت گردوں کے ہاتھ یہ رقم نہیں لگیں گی
میں؛ ہاں یہ تو خوش آئیند ہے، مگر کیا بیرون ملک افغان اپنے گھروں کو یورپ اور امریکہ سے اپنی رقوم بھجوا سکیں گے؟مٹھو؛ دیکھتے جاو، اس کی بھی جلد راہ ہموار ہوجائے گی۔
میں؛ تو کیا طالبان اپنے رویہ میں لچک لائیں گے؟ مٹھو؛ ارے اتوار کو او آئی سی وزرا کی کانفرنس میں تم نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو سنا نہیں تھا، جب وہ کہہ رہے تھے کہ ہم نے طالبان کو سمجھایا ہے کہ بھائی یہ صرف یورپ اور امریکہ ہی نہیں کہہ رہے، آپ کی خیر خواہ امہ کہہ رہی ہے کہ رویہ سافٹ کریں، لہجے میں نرمی لائیں، اور مخالفین کو شامل کریں۔ 
یہ بات کہہ کے مٹھو تیزی سے اٹھا، اور اجازت لے کے چلتا بنا، میں نے روکا تو بولا، یار یہ نکتے کچھ اور تجزیہ کاروں کے سامنے بھی رکھوں گا، تم کو تو عقل آنی نہیں، اسی بات پر اڑے ہو کہ طالبان مسئلہ کا حصہ ہیں، قبضہ کرتے ہوئے انہوں نے سوچا ہی نہیں تھا کہ ملک چلانا کیسے ہے، پابندیاں لگیں تو معاشی طور پر ان کا مقابلہ کیسے کرنا ہے، کیونکہ وہ تو بندوق چلانا جانتے ہیں، بینک نہیں
چلیں ہم بھی اب اپنی راہ لیتے ہیں، موجودہ حالات و واقعات سے تعلق ہے یا نہیں، اس سے قطع نظر ایک مصرعہ آپ کی خدمت میں پیش کرنے کا جی چاہ رہا ہے
سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے

مزیدخبریں