ان دنوں اردو کے معروف شاعر اکبر حمیدی ہائی اسکول کے طالب علم ہی ہونگے جب انہوں نے اپنے والد سے مرزاادیب کے لکھے ڈراموں کی کتاب ”آنسو اور ستارے “ لانے کی فرمائش کر ڈالی ۔ آج یہ فرمائش عجب سی لگتی ہے ۔ وہ زمانہ لائبریریوں اور کتابوں کا زمانہ تھا۔ پچھلے دنوں بلوچستان سے نواب لشکری رئیسانی کا انٹر ویو پڑھنے کو ملا۔ بڑی حیرت ہوئی کہ انہوں نے نوجوان نسل میں کتاب پڑھنے کا رحجان پیدا کرنے کیلئے ”کتاب دوست“ کے نام سے ایک تنظیم بنائی ہوئی ہے ۔ یہ درسگاہوں میں کتابیں مہیا کرنے کا بندوبست کر رہے ہیں۔ بلوچستان کے قبائلی معاشرے سے آئی ہوئی یہ خبر بہت اچھی لگی ۔ اک ننھی منی کرن سے ہی ویرانے کی شام جی اٹھتی ہے۔ ان کے مطابق معاشرے میں بہتری کیلئے کتاب کا ایک اہم رول ہے ۔ ویسے بھی جس معاشرے میں پڑھنے کا رجحان ختم ہوجائے وہاں برگساں اور نطشے جیسے دانشور بھی بھلا کیا کر سکتے ہیں؟ باپ بیچارہ اپنے مالی حالات کے باعث اپنے بچے کی یہ فرمائش پوری نہ کر سکا۔ شام کو اس کے گھر آنے پر جب اکبر حمیدی نے کتاب بارے پوچھا تو وہ بولے ۔ ”بیٹا آج میں صرف” آنسو“ ہی لا سکا ہوں ۔” ستارے“ پھر کبھی سہی ۔ یہ واقعہ پڑھ کر کالم نگار سوچنے لگاکہ ہم پاکستانیوں کی زندگی آنسوﺅں سے ہی بھری پڑی ہے ۔ ستارے ہماری زندگی میں کہاں ہیں ؟ اک گھپ اندھیرا ہے اور ہرسو وہی اندھیر نگری اورچوپٹ راج۔ چاند ، ستارے، روشنی ، امن ، سکون ، انصاف، سلامتی اور عافیت ہماری زندگی سے کوسوں دور ہیں۔ تھوڑے تھوڑے عرصے کیلئے جمہوریت کی بظاہر آزاد فضا پھر لمبے لمبے عرصے کیلئے فوجی آمریت ، ہم اتنے سادہ لوح ہیں کہ ہر آنے والے کا نجات دہندہ سمجھ کر خیر مقدم کرتے ہیں۔ ہم ابھی تک یہی نہیں سمجھ سکے کہ ہمارے ہاں فوجی انقلاب سیاستدانوں کی غلطیوں کا نتیجہ ہے یا پھر فوجی حکمرانوں کی غلطیوں کے باعث حکومت کے چند روز سیاستدانوں کو مل جاتے ہیں۔ اقتدار کے ایوانوں میں یہ کہتے ہوئے دندنانے والے کہ میں کرپٹ سیاستدانوں کو این آر او نہیں دونگا ، اقتدار سے نکلتے ہی کیا ڈھٹائی سے اقرارکرتے ہیں کہ میرا تو کوئی حکم چلتا ہی نہیں تھا۔ سبحان اللہ ۔پول کھلنے پر یہ بڑے لوگ بھی کتنے چھوٹے نکلتے ہیں۔
رخِ روشن کا روشن ایک بھی پہلو نہیں نکلا
جسے میں چاند سمجھا تھا وہ جگنو بھی نہیں نکلا
آزادی سے لے کر آج تک اس ملک میں سول اور خاکی بیوروکریسی ہی ہم پر حکمران رہی اور ہمارے سیاستدان ان کے آستانوں پر بڑے گھروں کے باوردی ملازموں کی طرح دست بستہ کھڑے دکھائی دیئے ۔ یہ بیچارے اعلیٰ افسروں کی مصاحبت ہی سیاسی سرگرمیاں سمجھے بیٹھے ہیں۔ ان کا مزاج سمجھنے کیلئے ایک واقعہ لکھ رہا ہوں۔ میرے ضلع گوجرانوالہ میں ایک یونینسٹ خاندان ہے۔ پاکستان بننے کے ساتھ ہی یہ دوسرے جاگیرداروں کی طرح مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔ پھر انہوں نے اقتدار کے کیا کیا مزے نہیں لوٹے ۔ ان کے لگائے پودے ایوان صدر تک پہنچے۔ 1977ءکی تحریک نظام مصطفی کے زمانے میں یہ قومی اتحاد کے ساتھ تھے ۔ ان کے ڈیرے پرپولیس کا چھاپہ پڑا اور ان کے ایک فرد کو پولیس پکڑ کر لے گئی۔ ان کے خاندان کا بزرگ ایک خان بہادر قسم کی چیز تھا ۔ وہ صدمے سے نڈھال ہو گیاکہ ”چٹّے دن “ پولیس ہمارے ڈیرے سے ہمارا بندہ پکڑ کر لے گئی ہے ۔ اب ہمارے پلے کیا رہ گیا ہے ۔ ہم تو کسی کو منہ دکھانے کے قابل بھی نہیں رہے ۔ ان دنوں اتفاق سے یہ خاندان حکومتی پارٹی میں شامل نہیں تھا۔ تھانوں وغیرہ کے بل پرسیاست کرنے والوں کی کچھ ایسی ہی ذہنیت ہوتی ہے ۔ ایسے سیاستدانوں کو ہانکنے کیلئے علاقے کا چھوٹا تھانیدار ہی کافی ہوتا ہے ۔ گجرا ت میں ایک مسلم لیگی سربراہ کا چالیس میل لمباجلوس نکلا۔ اس جلوس سے ملک کے اصلی حکمرانوں کا خوف تو ایک طرف رہا ، وہ خود بھی خوفزدہ ہو گیا کہ اب میرے ساتھ کیا ہوگا؟ عوام کا چالیس میل لمبا جلوس بھی ایک چھوٹے آدمی کو بڑاآدمی بنانے پر قادر نہیں۔
سول سروس اکیڈمی میں ٹریننگ کا پہلا دن تھا۔پہلا لنچ تھا یا شاید ڈنر ۔ سبھی زیر تربیت افسر اپنی اپنی پلیٹ پر ڈونگوں سے سالن ڈال چکے تو ہدایت ہوئی کہ اپنی اپنی پلیٹوں سے مغز والی ہڈیاں نکال کر واپس ڈونگوں میںرکھ دیں اور یاد رکھیںآئندہ آپ نے یہ ہڈیاں اپنی پلیٹ میں کبھی نہیں ڈالنی ۔ افسر سر عام مغز والی نلی سے گودا نکالتے اچھے نہیں لگتے ۔ صرف سول ہی نہیں ہر قسم کے افسران کو یہ اخلاقیات سمجھانے کی ضرورت ہے ۔ ہمارے 192اعلیٰ افسران جن کے ہاتھوں ملک کی تقدیر رہی ہے، ہماری مغز والی ہڈیاں سُرک کراپنے بال بچوں سمیت غیر ممالک میں شہریت حاصل کر کے رہائش پذیر ہو چکے ہیں۔ وہ نہیں سمجھتے کہ یہ جزیروں کی ملکیت اور پیزوں کی لمبی لمبی چینیں بے معنی ہیں۔اگر عزت اور چین سے جینے کا سامان نہ ہو تو ان کی کوئی حیثیت نہیں۔ ہر سرزمین میںفرزند زمین (Son of Soil)کا تصور جاگ اٹھا ہے ۔ ابھی وہ غیر ملکیوں کو اپنی زمین پر گھور رہے ہیں۔ انہوں نے ان کا جینا مشکل کر دینا ہے ۔یہ مالک و مختار افسران ابھی بھی نہیں سمجھ رہے کہ عزت اور امن سکون سے رہنے کو صرف اپنا وطن ہی ہوتا ہے ۔ تارکین وطن میں سے ایک شاعر نے یہ دکھ یوں لکھا ہے :۔
بس یہ نہیں کہ عرش بریں کے نہیں رہے
ٹوٹے ہوئے ستارے کہیں کے نہیں رہے
ہمارے چھ کروڑ پاکستانی غربت کی لکیر سے نیچے ہیں۔ ایک خاص طبقے کو چھوڑ کر جو اپنے فارم ہاﺅسوں میں موج و مستی کر رہے ہیں۔ باقی سبھی غربت کی لکیر کے نیچے یا ساتھ ساتھ ہیں۔ خوراک، تعلیم ، رہائش، علاج معالجہ ، سبھی کچھ عام آدمی کی دسترس سے باہر ہے۔ یہ سبھی اپنے بچوں کیلئے صرف آنسو ہی مہیا کر سکتے ہیں۔ اب سنجیدگی سے یہ تلاش ضروری ہے کہ ان کی زندگی سے ستارے کون نوچ لے گیا ہے ؟