یہ تاریخ کا بڑا سنگین مذاق تھا کہ پاکستان کی بنیاد 1906ءمیں ڈھا کہ میں رکھی گئی اور 16 دسمبر 1971ء کو ڈھا کہ ہی کے پلٹن میدان میں پاکستان کو دولخت کر دیا گیا۔ ظاہر ہے جب بھی کوئی تاریخی واقعہ جنم لیتا ہے تو اسکی تہہ میں کچھ نہ کچھ وجوہات ضرور ہوتی ہیں جو ابتدا میں تو معمولی نوعیت کی نظر آتی ہیں اور اگر عقلمندی سے ان پر قابو نہ پایا جائے تو یہی چھوٹی چھوٹی وجوہات مختلف واقعات کو جنم دیتی ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ کینسر کی طرح پھیل کر پورے جسم کو ناکارہ کر دیتی ہیں۔ چھوٹے واقعات آہستہ آہستہ بڑے واقعات کو جنم دیتے ہیں اور پھر یہ بڑے واقعات تاریخ کا رخ تبدیل کر دیتے ہیں۔ اکثر اوقات یہ تاریخ ساز واقعات انسانی تباہی و بربادی کا سبب بنتے ہیں۔ عصمتیں لٹتی ہیں۔ خون کے دریا بہتے ہیں۔ انسانیت دم تو ڑ جاتی ہے۔ انسان وحشی بن جاتے ہیں۔ بچے ، بوڑھے، عورتیں ، مرد انسانی وحشی پن کے بہائے گئے خون میں دم توڑ دیتے ہیں۔ بھائی بھائی کو پہچاننے سے انکار کر دیتا ہے۔ باپ بیٹے کو ، بیٹا باپ کو، بھائی بہن کو وغیرہ۔ سب ایک دوسرے کے دشمن بن جاتے ہیں۔ اعلیٰ انسانی اقدار اس وحشی پن میں مٹی کی دھول کی طرح غائب ہو جاتی ہیں۔ کوئی کسی کو نہیں پہچانتا۔ نفسانفسی کے عالم میں سب ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن جاتے ہیں۔ یہ پیاس صرف اس وقت بجھتی ہے جب بہت کچھ ختم ہو چکا ہوتا ہے۔ یہی کچھ مشرقی پاکستان میں ہوا۔
اس تاریخی سانحے کی کیا وجوہات تھیں۔ کن لوگوں کی غلطیوں نے ان وجوہات کو جنم دیا۔ کن لوگوں نے ان وجوہات کو آگ کی شکل دی اور پھر اس پر مسلسل تیل پھینک کر بالآ خر پاکستان کو توڑ دیا۔ اپنے ہی بھائیوں کو ایک دوسرے کا دشمن بنا کر ایک دوسرے کا خون بہایا۔ جب یہ خون کم ہوا تو مغربی پاکستان کے 93 ہزار فوجی اور غیر فوجی دشمن کی قید میں جاچکے تھے۔ کئی لاکھ انسان انسانی وحشت و بربریت کی بھینٹ چڑھ چکے تھے اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن چکا تھا۔
1947ء میں جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو جغرافیائی طور پر یہ ملک کسی عجوبے سے کم نہیں تھا کیونکہ اس کے دونوں بازو ایک دوسرے سے تقریباً بارہ سو میل دور تھے اور بد قسمتی سے یہ بارہ سومیل کا تمام کا تمام علاقہ ہمارے سب سے بڑے دشمن بھارت کا علاقہ تھا۔ دوسرا راستہ بذریعہ سمندر تھا لیکن اس پر بھی بھارت ہی کا قبضہ تھا۔پاکستان کے مشرقی بازو کو توڑنے کے بعد بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے خوشی سے اعلان کیا تھا کہ" آج میں نے دو قومی نظریے کو بحرِ ہند میں ڈبو دیا ہے" پاکستان کا جغرافیائی محل وقوع واقعی بڑا عجیب تھا۔1947ءمیں بھی لوگوں نے اسے ایک "جغرافیائی حماقت" قرار دیا تھا۔
دنیا میں بہت سے ممالک کئی ہزار جزیروں پر مشتمل ہیں جو ایک دوسرے سے الگ واقع ہیں لیکن ایسا ملک پوری دنیا میں شاید ہی کوئی ہو جس کے دونوں حصے ایک دوسرے سے اتنے دور ہوں اور درمیان میں اتنا زہریلا اور طاقتور دشمن موجود ہو۔ ہم نے جغرافیائی ناممکنات کو ممکنات میں بدلنے کی کوشش کی۔ شاید ایسا ہو بھی جاتا لیکن ہم ان راستوں پر چل ہی نہ سکے جو منزل کی جانب جاتے تھے۔
پھر یہ بات یہاں پر ہی ختم نہیں ہوتی۔ سوائے اسلام کے ہم میں کوئی قدر بھی تو مشترک نہ تھی۔قد،رنگ،لباس، خوراک،زبان،طرز رہائش وغیرہ سب کچھ ہی تو مختلف تھا۔ان سب تلخ حقائق کے باوجود ہماری یک جہتی کے خلاف سب سے اہم ہتھیار وہاں کی ہندو آبادی تھی۔ قیام پاکستان کے وقت مشرقی پاکستان کی کل آبادی تقریباً 4 کروڑ کے لگ بھگ تھی جن میں تقریباً 50 لاکھ ہندو تھے جو تجارت، مالی امور، تعلیم اور بقیہ سروسز میں اہم مقامات پر تعینات تھے۔ انہوں نے شروع سے جس تعلیمی نظام کی بنیاد رکھی وہ مغربی پاکستان مخالف تھا کیونکہ اس کا رخ کلکتہ کی طرف موڑ دیا گیا تھا۔ اسلام کی بجائے بنگالی کلچر کو تعلیم کا اہم موضوع بنایا گیا اور ظاہر ہے بنگالی کلچر کا منبع کلکتہ تھا۔ لہذا ان لوگوں کا رخ کراچی، اسلام آباد کی طرف ہونے کی بجائے کلکتہ کی طرف پھر گیا۔ان حالات میں مغربی اور مشرقی پاکستان کا اکٹھا رہنا ممکن ہی نہ تھا۔
1971 ءمیں ان لوگوں نے وہی کچھ کیا جو کچھ ان کے نظام تعلیم نے انہیں بنایا۔ یہ کہنا بجا ہے کہ کسی قوم کی تقدیر نہ توبڑی فیکٹریوں میں بنتی ہے نہ سیاسی ڈرائنگ روموں میں اور نہ ہی جاگیرداروں کی جاگیروں پر بلکہ یہ ان ٹوٹی پھوٹی عمارتوں میں بنتی ہے جنہیں ہم سکول کہتے ہیں۔ اس پس منظر میں اگر ایماندارانہ تجزیہ کیا جائے تو جو کچھ 1971ء میں ہوا ان حالات و واقعات کا قدرتی تسلسل تھا جو 1947ء سے وقوع پذیر ہورہے تھے۔ ہر ملک کی سالمیت بچانے کا آخری سہارا چونکہ فوج ہوتی ہے اس لئے یہاں بھی ملک کی سالمیت کا آخری معرکہ فوج ہی کو لڑنا پڑا۔ اس کی جو بھی وجوہات تھیںوہ یقینا فوج کی اپنی پیدا کردہ نہ تھیں۔ فوج سے میری مراد وہ جرنیل قطعا ًنہیں جنکے ہاتھ میں اس وقت ملکی باگ ڈور تھی۔
1971ءکی جنگ بہت ہی غیر متوازن جنگ تھی جو بھارت نے پاکستان پر تھوپی۔ یہ جنگ اپنی بنیاد (مغربی پاکستان ) سے 12 سو میل دور لڑی گئی۔ جبکہ مغربی پاکستان سے ہر قسم کا رابطہ منقطع ہو چکا تھا۔ پورا مشرقی پاکستان نہ صرف فوج کا مخالف تھا بلکہ وہ لوگ فوج اور مغربی پاکستانیوں کے خون کے پیاسے ہو چکے تھے۔ تمام بنگالی یونٹیں اور بنگالی سپاہی بغاوت کر کے بھارت سے جاملے۔ تقریباً ڈیڑھ لاکھ مکتی باہنی فورس مکمل طور پر تربیت یافتہ اور اسلحہ سے لیس بھارت کی مدد سے میدان میں آگئی۔ ہماری کل جنگی استعداد 34 ہزار سے زیادہ نہ تھی جس میں لڑاکا فوج کی تعداد تقریباً 25 سے 30 ہزار تھی اور باقی سروسز کے لوگ۔ پھر یہ لوگ وہاں کی زبان اور علاقے سے بھی واقف نہ تھے اور نہ ہی وہاں جیسے دلدلی یا دریائی علاقے میں لڑنے کیلئے تربیت یافتہ تھے۔ مزیدیہ کہ ان کے پاس نہ ائیر فورس تھی نہ ٹینک اور نہ تو پخانہ۔ اس چھوٹی سی فوج کے مقابلے میں تقریباً ایک لاکھ کے قریب باغی بنگالی سولجرز، ایسٹ پاکستان را ئفلز، ایسٹ پاکستان پولیس اور کئی ایک نیم فوجی تنظیموں کے جوان ، پھر ڈیڑھ لاکھ مکتی باہنی۔بارہ ڈویژن بھارتی فوج جسے ہر قسم کی ائیر سپورٹ، نیول سپورٹ، تو پخانہ اور ٹینکوں کی مدد حاصل تھی۔ اور اس پر وہاں کے عوام کی دشمنی ان حالات میں تو کسی سپر پاور کی فوج بھی نہیں لڑ سکتی تھی۔
ان سب مشکلات کے باوجودپاکستانی فوج شیروں کی طرح لڑی۔ ا±س وقت کے بھارتی چیف آف آرمی سٹاف جنرل (بعد میں فیلڈ مارشل) مانک شا کے بقول ”پاکستان فوج 9 ماہ مسلسل لڑ لڑ کر تھکاوٹ سے چور تھی۔ راشن نہ ہونے کے برابر تھا۔ جسم جونکوں سے زخمی تھے۔ پانی اور ولد لی علاقوں میں چل چل کر پاو¿ں گل چکے تھے۔ بھوک پیاس اور نیند سے برا حال تھا۔ اس کے باوجود پاکستان آرمی نہ تو میدان سے بھاگی اور نہ کوئی سولجر چھپا۔ جہاں کہیں بھی انہیں موقع ملا وہ ڈٹ کر لڑے اور یہی ایک اچھی فوج کی خصوصیت ہوتی ہے۔"
ملک کی سالمیت بچانے کے لئے قربان ہونے والے آفیسرز اور جوانوں کی لاشوں کی بے حرمتی ہوئی بہت سے لوگوں کو کفن ، جنازے اور قبریں تک نصیب نہ ہو سکے یہ لوگ اس وطن کے بیٹے تھے جنہوں نے اپنے وطن کی حفاظت کے لیے جانیں قربان کیں۔کیا ہم ا±ن کے احترام میں کوئی ایک دن مقرر نہیں کر سکتے؟ اِن کی یادگار تعمیر نہیں کر سکتے؟ کیا پاکستان اپنے ان سرفروش بیٹوں کو اپنا نہیں سکتا؟
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
٭....٭....٭