حضرت ضحاک علیہ الرحمة بیان کرتے ہیں، حضرت ابوالدرداءرضی اللہ عنہ نے اہل دمشق سے ارشادفرمایا :اے دمشق والو! تم میرے دینی بھائی ہو، خطے میں میرے ہمسائے ہواوردشمنوں کے خلاف میرے مددگار بھی ہولیکن کیا وجہ ہے کہ تم مجھ سے دوستی نہیں رکھتے حالانکہ میرے اخراجات بھی تمہارے ذمہ نہیں ہیںبلکہ انھیں بھی دوسروں نے اٹھارکھا ہے،میں مشاہدہ کر رہا ہوںکہ تمہارے علماءاٹھتے جارہے ہیں اورتمہارے ناخواندہ لوگ ان سے علم حاصل نہیں کررہے ، میں یہ بھی دیکھ رہا ہوں کہ اللہ نے جس رزق کا خود ذمہ لے رکھا ہے تم اس کے پیچھے پڑے ہوئے ہو، جبکہ اللہ نے تمہیں جن کاموں کا حکم دیا ہے تم نے انھیں ترک کر رکھا ہے،غور سے سنو !کچھ لوگوںنے بڑی مضبوط عمارتیں بنائیں ،بہت دولت جمع کی اور بڑی دور کی امیدیں لگائیں لیکن پھر بھی ان کی عمارتیں گر کر قبرستان بن گئیں،ان کی امیدیں دھوکہ ثابت ہوئیںاورایسے لوگ خود بھی ہلاک ہوگئے ،غور سے سنو !علم سیکھواورعلم سکھاﺅ،علم سیکھنے والا اورسکھانے والا دونوںاجر میں برابر ہیں اوراگر یہ دونوں نہ ہوں تو پھر لوگوں میں کوئی خیر نہیں ۔
حضرت حسان علیہ الرحمة کہتے ہیںکہ حضرت ابوالدرداءنے اہل دمشق سے فرمایا:کیا تم اس بات پر رضاءمند ہوگئے ہو کہ سال ہا سال گندم کی روٹیاں پیٹ بھر کر کھاتے ہولیکن تمہاری مجلسوں میں اللہ کا نام نہیں لیا جاتا ، تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تمہارے علماءجارہے ہیںلیکن تمہارے جاہل علم حاصل نہیں کررہے ، اگر تمہارے علماءچاہتے تو ان کی تعداد میں اضافہ ہوسکتا تھا اوراگر تمہارے ان پڑھ افراد علم کو تلاش کرتے تو وہ اسے ضرور پالیتے ،اے لوگو!نقصان دہ چیزوں کی بجائے نفع دینے والی چیزیں اختیار کرو۔اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ، جو امت بھی ہلاک ہوئی اس کی ہلاکت کے دوہی اسباب تھے ،ایک تووہ اپنی خواہشات نفس کے پیچھے چل رہے تھے اوردوسرے وہ اپنی تعریف خود کیا کرتے تھے ۔
ایک اورموقع پر حضرت ابوالدرداءنے ارشادفرمایا:اگر تین کام نہ ہوتے تو میں کبھی یہ بات پسند نہ کرتا کہ اس دنیا میں قیام پذیر رہوں ، راوی کہتے ہیں کہ میںنے ان سے استفسار کیا کہ وہ تین کام کون سے ہیں ؟انھوںنے ارشادفرمایا:ایک تو یہ کہ دن اوررات کی ساعتوں میں اپنا سرنیاز اپنے خالق ومالک کے سامنے زمین پر رکھناجو میری آخرت کی زندگی کے لیے میرا اثاثہ بن رہا ہے ،دوسرا موسم گرما کی سخت حدت میں روزہ رکھ کر پیاسا رہنا اورتیسرا ایسا لوگوں کے ساتھ ہم مجلس ہونا جو عمدہ کلام کو اس طرح ذوق وشوق سے چنتے ہیں جیسے خوش ذائقہ پھل چنا جاتا ہے۔(ابونعیم)