چند روز قبل معروف قانون دان،پروگرام’’ نور سحر‘‘کے میزبان اور دانشور جناب جسٹس( ریٹائرڈ ) نذیر احمدغازی نے گفتگو کے لیے ایک عمدہ موضوع ’’ اسلام، سائنس اور ایجادات‘‘ منتخب کر کے مارننگ شوز میں ایک نئے رجحان کی بنیاد رکھی۔اس پروگرام میںپروفیسر ڈاکٹر طاہر حمید تنولی،پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد، پروفیسر سید فہد علی کاظمی اور راقم السطور نے مسلم سائنس دانوں کی سائنس اور دیگر علوم و فنون میں خدمات کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا،مسلمانوں کے زوال کا تجزیہ پیش کیاگیا اور امت مسلمہ کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کی ضرورت پر زور دیاگیا۔موضوع اتنا اہم اور وسیع ہے کہ اس پر کئی پروگرام کرنے اور کئی کالم لکھنے کی ضرورت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ دور کا مسلمان اپنے شاندار ماضی سے چونکہ بے خبر ہے اس لیے مغرب سے مرعوب نظر آتا ہے اور احساس کمتری کا شکار ہو چکا ہے۔حکیم الامت حضرت علامہ ڈاکٹرمحمد اقبال ؒ نے بیداری امت کا فریضہ سر انجام دیا۔آپ کی معروف نظم ’’خطاب بہ جوانان اسلام‘‘ امت مسلمہ کے لیے انتہائی فکر انگیز اور رہنما ہے ۔ اگر اس کو پڑھا ، پڑھایا اور سمجھاجائے تو اس کے ثمرات بہت زیادہ ہو سکتے ہیں۔اس نظم سے چند اشعار ہدیہ قارئین ہیں۔
کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھاتو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوش محبت میں
کچل ڈالا تھا جس نے پائو ں میںتاج سر دارا
غرض میں کیا کہوں تجھ سے کہ وہ صحرا نشیں کیا تھے
جہاں گیر و جہاںدارو جہاں بان و جہاں آرا
بد قسمتی یہ ہے کہ نوجوان نسل کوحضرت علامہ کے کلام سے دور کر دیا گیاہے۔زندگی کے ہر شعبہ میں مسلمان سائنسدانوں کی خدمات پر پردہ ڈال دیا گیا ۔مسلمان سائنسدانوں کے بہت سے کارنامے اور ایجادات ہماری نظروں سے اوجھل ہیں۔مسلمان سائنسدانوں کی کتابیں طویل عرصہ تک مغربی جامعات میں نصابی کتب کے طور پر پڑھائی جا تی تھیں۔ اس حقیقت کو دنیا تسلیم کرتی ہے کہ بہت سے سائنسی علوم کی بانی مسلمان سائنسدان ہی تھے۔پھر کیا اور کیسے ہوا کہ
آتی ہے دم صبح صدا عرش بریں سے
کھویا گیا کس طرح تیرا جوہر ادراک
کس طرح ہوا کند تیرا نشتر تحقیق
ہوتے نہیںکیوں تجھ سے ستاروں کے جگر چاک
یہ بھی سچ ہے کہ امت مسلمہ کے عروج کی وجہ قرآن پاک سے تعلق اور ہادی اعظمﷺ کی تعلیمات پر عمل تھا اور اب زمین کی تنگی اور خجل خواری تارک قرآن ہونے کی وجہ سے ہی ہے۔جس دن مسلمانوں نے قرآن پاک سے تعلق جوڑ لیا اورکریم آقا ﷺ کی تعلیمات پر عمل شروع کر دیازوال کا سلسلہ رک جائے گا اور زمانہ عروج واپس آجائے گا۔مگر کیا کریں کے اس کے آثار نظر نہیں آتے۔عوام حکومت کی طرف دیکھ رہی ہے اور حکمران طبقہ کی ترجیحات کچھ اور ہیں۔ پالیسی ساز ادارے بانجھ ہو چکے ہیں۔محکمے مال بنائو تحریک میں مصروف۔موجودہ نظام تربیت و تعلیم مکمل طور پر فیل ہو چکا ہے۔ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ یعنی تحقیق ترقی کا زینہ سمجھا جا تا ہے۔ملک عزیز میں تحقیق کا فقدان ہے۔سائنسی علوم کا حصول آج کے نوجوان کی ترجیح نہیں رہی ۔وجہ یہ ہے کہ ایک سائنسدان یا معلم کی نہ توہمارے معاشرہ میں عزت ہے اور نہ ہی کوئی مقام۔ذہین طالبعلم ان شعبوں میں چلے جاتے ہیں جن میں ہر قسم کی طاقت اور مال ہوتا ہے۔جو بچ جاتے ہیں وہ معاشرہ سے محرومیوں کا انتقام لیتے ہوئے زندگی گزار دیتے ہیں۔چند سال قبل وسطی پنجاب کے ایک نوجوان نے مشہور مسلمان سائنسدان عباس بن فرناس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہوا میں اڑنے والی مشین بنا لی۔شاید ابھی پہلی اڑان بھی نہیں ہوئی تھی کہ مقامی تھانہ کی سپاہ نے موجد کو ایجاد سمیت پابند سلاسل کر دیا۔بھلا ہو سوشل میڈیا کا جس کی وجہ سے بڑی طاقتوں کی مداخلت ہوئی اور اس غریب کو رہائی ملی۔امید ہے یہ موجد توبہ تائب ہو گیا ہو گا اور آئندہ بھی کوئی فرد ایسی ’قبیح ‘ حرکت نہیں کرے گا۔دیکھا جائے تو یہ ان پڑھ موجد ان ہزاروں پی ایچ ڈی سائنسدانوںاور انجینئروں سے بہتر ہے جنہوں نے ڈگریاں تو لے لیں لیکن ان کی کسی ایجاد سے ملک عزیز کو کوئی فائدہ نہ ہو سکا۔حکومت کی سستی اور لاپرواہی اپنی جگہ عوام بھی کسی سے کم نہیں۔عوام بھی جن مشاغل میں مصروف ہے اس سے لاوے اور پاوے ہی پیدا ہوں گے سائنسدان پیدا ہونے کی توقع نہ رکھیں۔اگر حالات اور اعمال میں تبدیلی نہ آئی تو عالمی سطح پر بے عزتی پرگرام جاری رہے گا۔ اللہ پاک امت مسلمہ پر رحم فرمائے اور اصلاح احوال کی بہتری کے اسباب بنا دے۔
٭…٭…٭
کھویا گیا کس طرح تیراجوہرِ ادراک
Dec 26, 2022