قائد اعظم محمد علی جناح اور آج کا پاکستان 


 پاکستان میں ہر سال قائداعظم کا یوم پیدائش تو خوب منایا جاتا ہے اس موقع پر نہ صرف ان کی خدمات کا ذکر کیا جاتا ہے بلکہ ان کے ارشادات و فرمودات پر عمل پیرا ہونے کا اعادہ بھی ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کیا جاتا ہے۔ مگر عملی زندگی میں ا س کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آتا۔ عام آدمی سے لے کرارباب اختیار تک سبھی بانی پاکستان کے ارشادات کو پس پشت ڈالے ہوئے ہیں۔ ہماری یہ روش ہمارے حال اور مستقبل کو لمحہ بہ لمحہ تباہی کی طرف لے جارہی ہے۔ من حیث قوم ہم زندگی کے ہر شعبہ میں زوال کی طرف گامزن ہیں ستم بالائے ستم یہ ہے کہ اپنی ڈوبتی کشتی کو منزل کی طرف رواں دواں رکھنے پر آمادہ نظر نہیں آتے۔ 
تحریک پاکستان کے دوران اور قیام پاکستا ن کے بعد قائداعظم کی تقریروں ، اخباری بیانات او ر غیر ملکی میڈیا کو دیے گئے انٹرویوز کی تفصیلات ملاحظہ کرنے سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ بانی پاکستان وطن عزیز کو کس طرح کی فلاحی ریاست بنانے کے لیے پر عزم اور پر امید تھے۔ مگر ان کے انتقال پر ملال کے بعدیکے بعد دیگرے عنان اقتدار سنبھالنے والے حکمرانون نے قائد اعظم کے منتخب کردہ خطوط پر خط کھینچ دیا۔ اقتدار میں آنے والے ہر حکمران نے اپنے غیر ملکی آقائوں کو خوش کرنے کے لئے نظر یہ پاکستان کو نا قابل تلافی نقصان پہنچایا جن کا لازمی نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ آج ہمارے ہاں نہ صرف نظریہ پاکستان کو محض ایک ڈھونگ قرار دیا جارہا ہے بلکہ بعض نام نہاد دانشور قائد اعظم کی ذات اوران کے کردار پر بھی انگلیاں اٹھا رہے ہیں۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ اس پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمران خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ قائد اعظم کی شخصیت اور کردار کے حوالے سے ہماری یہ بے حسی اور احسان فراموش ہے کہ ہم ایسے لوگوں کا منہ بند کرنے کے بھی قابل نہیں جو بانی پاکستان کے کردار کو مسخ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ قوم کی حیثیت سے ہمارے اندر پایا جانے والا تضاد ہی تمام سلگتے مسائل کی وجہ ہے۔ اس تناظر میں ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہیے۔ پاکستان کو اگر حقیقی معنوں میں فلاحی ریاست بنانا مقصود ہے تو پہلے ہمیں قائد کے فر مودات کی روشنی میں ایسی قوم بننا ہوگا جو مہذب ہو ، دیانتدار ہواور نظریہ پاکستان کی پاس دار ہو۔ ہم ملک سے کرپشن کا خاتمہ چاہتے ہیں تو ہمیں پہلے اخلاقی کرپشن سے توبہ کرنا ہوگی۔ رشوت ، سفارش اور اقر با پروری ایسی آلائشوں سے خود کو پاک کرنا ہوگا۔  یہ بات بھی لمحہ فکریہ ہے کہ ہم قائد اعظم کے ارشادات کے مطابق مسئلہ کشمیر کوحل نہ کر سکے اور نہ ہی فلسطینیوں کی اس انداز میں مدد کرسکے ہیں کہ وہ صہیونی طاقتوں کے پنجہ استبداد سے نجات پاسکیں۔ 
قائد اعظم نے ہمیشہ اپنی تقریروں میں قوم پر زور دیا کہ صوبائی تعصب نہ پروان چڑھنے پائیں ،فرقہ واریت کی جڑیں مضبوط نہ ہونے پائیں۔ رواداری اور باہمی الفت و محبت ایسے جذبات کو پروان چڑھایا جائے تاکہ ملت کا ہر فرد اخوت و محبت کے مضبوط رشتے میں بندھ سکے۔افسوس ایسا نہیں ہوا حالات قائد کی تعلیمات کے بر عکس ہیں شہریوں کے بنیادی حقوق کی پاسداری نہیں ہورہی کم آمدنی والے طبقے کے نونہال زیور تعلیم سے آراستہ نہیں ہو پارہے ، عام آدمی کیلئے صحت کی سہولتوں کا فقدان ہے، غریب آدمی کو زخمی یا بیمار ہونے کی صورت میں ابتدائی طبی امداد تک نہیں ملتی ، ہسپتال ادویات سے خالی پڑے ہیں لوگ مہنگائی اور بے روزگاری کے باعث جان سے ہاتھ دھونے پر تلے بیٹھے ہیں مگر اقتدار کے بھوکے سیاستدان اپنے اپنے مفادات کی جنگ لڑرہے ہیں۔ یہ صورتحال بھی ہمیں تباہی کی طرف لے جارہی ہے۔ معیشت کا گلہ گھونٹ دیاگیا ہے مگر کرپٹ عناصر کو کوئی پوچھنے والا۔ نہیں تمام شعبوں میں معافیاز کا راج ہے۔ ان حالات میں قائد اعظم کے یوم پیدائش یا یوم انتقال پر ملال پر تقریبات کا انعقاد محض منافقت ہے۔ قائد اعظم کی خدمات کا اعتراف اسی صورت ممکن ہے جب ان کی تعلیمات پر عمل کیا جائے۔ حکمران انسانی حقوق کی پاسداری اور عدل و انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔ فرسودہ نظام عدل میں مثبت تبدیلیاں لائی جائیں۔ عوام میں یہ شعور بیدار کیا جائے کہ عدلیہ اور قومی اداروں کا احترام لازم ہے۔ اسی طرح عدلیہ کو بھی چاہیے کہ ایسے فیصلوں سے گریز کریں جو متضاد ہوں قانون کے احترام کو اسی طرح یقینی بنایا جائے جس طرح قائد اعظم نے اپنے عمل سے ثابت کیا۔
زمانہ جانتا ہے کہ قائد اعظم نے زندگی بھر قومی خزانے میں ایک پائی کی بھی خیانت نہیں کی تھی۔ افسوس آج ہمارے حکمران اپنے دفتروں میں قائداعظم کی تصویر کے نیچے بیٹھ کر جو کچھ کررہے ہیں اس کا الفاظ میں احاطہ ممکن نہیں ہے۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن