1
پاک بحریہ مشق AMAN-23کا آغاز کر رہی ہے جو اس سیریز کی مشقوں میں آٹھویں ہے ۔ 2007 کے سے بعد سے ہر دو سال بعد کی جارہی ہے۔ پہلی امن مشق میں 28 ممالک نے حصہ لیا اس کے بعد سے اس تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جو اس مشق کی کامیابی کا ثبوت ہے۔ امن مشقوں میں بنیادی آپریشنل سرگرمیاں اور تمام بحری افواج میں مروجہ طریقہ کار شامل ہوتے ہیں۔ یہ منفرد پلیٹ فارم ہے جہاں تمام شرکاء کو اپنے خیالات کا تبادلہ اور ایک دوسرے کے تجربات سے سیکھنے کا انوکھا موقع ملتاہے۔فروری 23 میں ہونے والی مشق ایسے ماحول میں کی جارہی ہے جہاں پاکستان مختلف سمتوں سے ہائبرڈ جنگ کی لپیٹ میں ہے جو کہ اس کے کھلے دشمن اور نام نہاد اتحادیوں کی جانب سے شروع کی گئی ہے۔ اس کے نتیجے میں ہمیں داخلی اور خارجی طور پر قومی سلامتی کے سنگین چیلنجز کا سامنا ہے۔اس نئے خطرے کی علامتیں پچھلے کچھ سالوں میں سامنے آنا شروع ہوئیں اوران کا علاقائی وغیر علاقائی واقعات سے براہِ راست تعلق ہے جیسے کہ امریکہ کا بحر الکاہل کی طرف جھکاو¿ بڑھنا، چین کے خلاف ہندوستان کے ساتھ امریکہ کی اسٹریٹجک شراکت داری، سی پیک کا معاہدہ اور پاکستان کی معاشی ترقی میں اس کی بطور گیم چینجرحیثیت، مسلم دنیا میں اسرائیل کی حیثیت تسلیم کروانے کے لیے امریکی ایجنڈے میں تیزی، عراق کے بعد امریکی فہرست میں موجود دیگر ممالک کو کمزور کرنے کے نامکمل ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک پہنچانا جس میں جوہری صلاحیت کی وجہ سے پاکستان پر واضح توجہ مرکوز ہے، ہندوستان کےCold Start Doctrine کی ناکامی اور اقوام متحدہ کے چارٹر میں درج کردہ حق خودارادیت کے مطابق حقوق کے حصول کے لیے کشمیریوں کی مزاحمت میں اضافہ کی وجہ سے بھارتی غم و غصہ....فروری23 میں کی جانے والی مشق میں 100 سے زائد ممالک کی بحری افواج کو شرکت کے لیے مدعو کیا جا رہا ہے۔ اتنے بڑے پیمانے پر مشقوں کی منصوبہ بندی کرنا اور اس پر عمل درآمد کرنا ایک مہنگی اور لاجسٹک اعتبارسے پیچیدہ سرگرمی ہے جو ہر بحری فوج کے بس کی بات نہیں ہے۔ لہٰذا سمندر میں امن وسکون قائم رکھنے کے مشترکہ مقاصد رکھنے والے ممالک کے لئے یہ ایک پرکشش موقع ہے کہ وہ اپنے سمندری مفادات کے دفاع کے لیے اس اعلیٰ تربیتی پلیٹ فارم کا حصہّ بنیں۔گزشتہ سالوں کے دوران شرکا ئ کی طرف سے بڑھتی دلچسپی، بہت حوصلہ افزاہے اور علاقائی اور غیر علاقائی سمندری ممالک گذشتہ اکیسویں صدی کے نئے ابھرتے ہوئے چیلنجزسے نبردآزما ہونے کے لئے قریبی تعاون بڑھانے کے نظریے کا ثبوت ہے۔
مشق امن 23، شرکاء کو ماضی کی مشقوں سے حاصل ہونے والے مشترکہ اسباق سے مستفید کرے گی۔ پاک بحریہ کے لئے، یہ ایک موقع ہے کہ وہ ملک کے مثبت تاثر کو پروان چڑھائے اور خود کو بحری جنگ کی تمام جہتوں میں ایک مضبوط اور وسعت پذیر سمندری قوت کی حیثیت سے سامنے آنے والی بحری قوت ثابت کرے۔ یہ ملک کی سمندری تجارت کے دفاع کی اپنی قومی ذمہ داری کو نبھانے کے پاک بحریہ کے عزم اور تیاری کا بھی مظہرہے جس پر ملک کی تجارت کا انحصارہے۔ یہ حقیقت کے جائزے کا بھی ایک موقع ہے کیوں کہ اب زمینی اور فضائی جنگوں کی طرح بحری جنگ بھی تیزی سے مہلک اور پیچیدہ ہوتی جارہی ہے کیونکہ ڈیٹا کو سمجھنے کے لیے مصنوعی ذہانت کے استعمال سے غلطی کے موقع کم ہوتے جارہے ہیں۔ یہ مشق بحر ہند میں ہونے والی سرگرمیوں میں دلچسپی رکھنے والی علاقائی اور غیر علاقائی بحری افواج کے مابین باہمی تعاون کو فروغ دینے کے لئے تشکیل دی گئی ہے۔ اس مشق کا تصورمشترکہ بحری سیکیورٹی کے نظام کے گرد گھومتا ہے تاکہ بحرِ ہند اور بحیرہ عرب کو شرکاء کے باہمی اشتراک سے بحری مسافروں اور بحری تجارت کے لیے محفوظ بنایاجاسکے۔
پچھلے سالوں میں، ان مشقوں میں امریکہ، آسٹریلیا، چین، انڈونیشیا، روس، سری لنکا، ترکی، ملائشیا، مالدیپ اور برطانیہ اور کئی دیگر ممالک کی بحری افواج نے حصہ لیا۔ مشق امن 23اگرچہ زیادہ بنیادی نوعیت کی بحری سرگرمیوں کی مشق ہی ہے لیکن اس سے شریک افواج کو امن کے دور میں منفی طور پر متاثرکرنے والے عوامل اور جنگ کے ماحول میں کارکردگی بہتر کرنے کے عوامل کو سمجھنے میں مددملتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں، اس طرح کی مشقوں پر غور کرنے سے یہ سیکھنے کو ملتا ہے کہ جنگ کے حالات کس طرح ذہن اوراعصا ب پراثرکر تی ہیں اور اسی وجہ سے کس طرح سے چیزیں پیچیدہ ہو جاتی ہیں۔ مختلف بحری افواج میں زمانہ امن کے دوران ہونے والے مختلف حادثات انہی اصولوں کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے پیش آئے۔پاکستان ایک امن پسند ملک ہے اورکسی دوسرے ملک کے لیے اس کے عزائم جارحانہ نہیں ہیں۔ تاہم، اس کے اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ سمندری حدود کے حوالے سے کچھ تنازعات ہیں، جن کا تعلق سمندری حدود، متعدی خطے، خصوصی اقتصادی زون (EEZ) اور کونٹی نینٹل شیلف سے متعلق ہیں۔ پاکستان بین الاقوامی قوانین کے مطابق مذاکرات کے ذریعے ان کو پرامن طریقے سے حل کرنے کا خواہاں ہے اور توقع کرتا ہے کہ دوسری جانب سے بھی اسی جذبے کا اظہارکیاجائے گا۔ ہمارے EEZمیں توسیع کردی گئی ہے۔لیکن ا±س میں موجود قیمتی وسائل حاصل کرنے کے لیے پہلے سمندری اور ارضیاتی سروے کی ضرورت ہے۔ اس طرح کے تمام معاملات میں تمام اسٹیک ہولڈرز کی مکمل ہم آہنگی کی ضرورت ہے اور ایسی کثیرالجہتی بحری مشقیں اس ضمن میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
پاکستان عالمی بحری راہداریوں کے آزادانہ استعمال، بغیر کسی رکاوٹ کے تجارت اور سمندری قدرتی وسائل کے انتظام کے لئے بنائے جانے والے بین الاقوامی معاہدوں پر یقین رکھتا ہے اور پائیدار انداز میں سمندری ماحول کو بہتر بنانے میں ہمیشہ اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ پاکستان بین الاقوامی میری ٹائم آرگنائزیشن (IMO) اور بین الاقوامی سی بیڈ اتھارٹی (ISA) کواقوام متحدہ کی جانب سے تفویض کردہ اہم کردارکو تسلیم کرتاہے۔ پاکستان سمندری آزادی کی حفاظت کی اپنی ذمہ داریوں اور قومی دائرہ کار کے اندر اور اس سے باہر گہرے سمندری علاقوں میں موجود معدنی وسائل کے استحصال پر قابو پانے کے لئے قائم کیے جانے والے قانونی اداروں کی اہمیت سے بھی بخوبی واقف ہے جس سے کہ پوری انسانیت کی بھلائی کے لئے مشترکہ کوشش کی جاتی ہے۔( جاری ہے)
پاکستان کا ساحل خاصی اہمیت کا حامل ہے اور یہ خلیج فارس اور خلیج عدن کے قریب واقع ہے۔ اس کے جغرافیائی محل وقوع اور چین کے ’بیلٹ اینڈ روڈ‘ (BRI) منصوبے میں شراکت داری کے با عث یہ بحر ہند کے رابطے استوار کرنے میں ایک اہم کردار ادا کرے گا۔ سی پیک نے بحر ہند میں پاکستان کی اہمیت کو مزید بڑھادیا ہے۔اس حقیقت کو تقویت دینے اور بحر ہندسے تعلق رکھنے والے ممالک کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کرنے کے لئے اس پیمانے کی بحری مشقوں کے باقاعدہ انعقاد کی ضرورت ہے۔ انڈین اوشن ریجن ایسوسی ایشن (IORA) جوکہ ایک متحرک بین الاقوامی تنظیم ہے جس کا مقصد بحر ہند کے خطے میں علاقائی تعاون اور پائیدار ترقی کوپروان چڑھانا ہے۔ اس تنظیم میں 22 ممبران اور 9 مکالمہ شراکت دار ہیں جو سا ل میں ایک یا زائد بار ملاقات کرتے ہیں۔ یہ تنظیم وسیع تر شعبوں بشمول سمندری تحفظ، تجارت اور سرمایہ کاری کی سہولت، ماہی گیری کے انتظام، آفات کے رونما ہونے پر انتظام، سیاحت، ثقافتی تبادلے، تعلیم، سائنس اور ٹیکنالوجی،بلو اکانومی اور خواتین کو معاشی بااختیار بنانے پر کام کرتی ہے۔ اگرچہ بڑے پیمانے پرمنعقد بحری مشقیں جیسے کہ مشق امن23-خودبھی بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہیں، لیکن IORA ایک زیادہ بڑا پلیٹ فارم ہے چونکہ اختیارات کا فیصلہ وزرائ ِ خارجہ کی کونسل کے پاس ہوتا ہے۔ جیسا کہ امر معلوم ہے کہ فوجی تعاون ہمیشہ مضبوط اور قابل اعتماد ہوتا ہے اگراس کے ساتھ متعلقہ خارجہ پالیسیاں بھی اسی ضمن میں ہوں۔
یہ تضاد کی بات ہے کہ ایک طرف، ہندوستان بحر ہند کے ساحل پر گوادر میں چین کو سہولت فراہم کرنے پرپاکستان کو ایک ’سہولت کار ‘کے طور پر لیبل کرتا ہے (ہندوستانی تعریف کے مطابق چین بحرِہند کا نہیں بلکہ بیرونی ملک ہے) کیوں کہ اس کا کہنا ہے کہ بحرِہند اپنے نام کی وجہ سے ہندوستان کا حصّہ ہے۔ لیکن دوسری طرف، چین کیIORAمیں مکمل رسائی کی حمایت کرتا ہے اور ساتھ ہی سہولت کار پاکستان کی رکنیت کی مخالفت کرتا ہے۔ یہ کھیل اب کافی عرصہ کھیلا جا چکا ہے اوراب اسے ختم ہونا چاہئے۔بحر ہند کی ملکیت کے بارے میں ہندوستان کے غلط تصورات کا مقابلہ کرنے کے لئے مضبوط سفارتکاری کے ساتھ ہماری رکنیت سازی کے معاملے کو بھرپور طریقے سے چلانے کی ضرورت ہے۔ یہ واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ بحر ہند میں روابط کے سلسلے میں زمین پر کوئی طاقت پاکستان کو اہم کردار ادا کرنے سے نہیں روک سکتی۔ پاکستان کا بحرِہند سے ناگزیر تعلق ہے اور اس بنیادی حقیقت کو تسلیم کیے بغیر کوئی رابطہ ممکن نہیں ہے۔اس سے پہلے بھی یہ کہا جا چکا ہے کہ جبوتی ایک مسلم اکثریتی ملک ہے جس کی بناءپرپاکستان بحری اور روایتی سفارت کاری کے ذریعے ا±س خطے میں آسانی سے داخل ہوسکتا ہے اور امن یا جنگ کے دوران ا±سے اپنے فائدے کے لیے استعمال کرسکتا ہے۔چین کے سی پیک کی افریقی براعظم میں دخول اور جبوتی میں اس کی موجودگی سے پاکستان کو وہاں قدم جمانے کا موقع مل رہا ہے جس سے ہمارے سمندری مفادات کو محفوظ رکھنے میں مدد ملے گی۔ ترکی جبوتی میں ایک فوجی اڈہ قائم کرنے پر غور کررہا ہے اور ہندوستان کی جانب سے سفارت خانہ قائم کرنے کی اطلاعات ہیں۔ ان پیشرفت کی اہمیت بہت زیادہ ہے پاکستان اس ابھرتے ہوئے منظر نامے سے غافل نہیں رہ سکتا ہے۔ہارن آف افریقہ اور اس کے قریب کے علاقوں میں اسرائیل کے پھیلتے سفارتی نقوش، اور اس خطے میں انٹیلیجنس حاصل کرنے کے نیٹ ورک کے قیام کے بعد اس کے اسٹریٹجک اتحادی امریکہ کی مضبوط صلاحییتں بھی اس کے ساتھ شامل ہوں گی اوربالآخر سی پیک کے گوادر سے نکلنے والے بحری راستوں کو لاحق خطرات بڑھیں گے بحرِ ہند کی ملحقہ ریاستوں کو جنگ کے نئے دور کے آغاز کی توقع رکھنی ہوگی جس سے ڈیجیٹلائزیشن کے اثرات کو غیر متوقع طریقوں سے فروغ ملے گا، جسے کچھ لوگ چوتھا صنعتی انقلاب بھی قراردیتے ہیں۔ مہلک ہتھیار جیسے کہ سپر کیویٹیٹنگ ٹارپیڈو، کافی عرصے سے موجود ہیں لیکن ایسے ہتھیار جو لانچ ہونے کے بعد اپنے حدف کا فیصلہ خود کرتے ہیں ا±ن کے بننے میں بس ایک دہائی کا وقت باقی ہے۔اس طرح کی پیشرفت اورکچھ ممالک کے ناپاک عزائم مل کر انسانیت کی اجتماعی بھلائی کے لئے صدیوں سے قائم سمندروں کے استعما ل کے اصولوں کو ختم کردیں گے۔
پاکستان خطے کے دیگر ممالک کی طرح تاریخی سمندری روایات نہیں رکھتا ہے اور ہماری ساحلی پٹی پر کم آبادی اور ا±ن کی دگرگوں معاشی صورتحال معاشی تبدیلی کی کسی بھی کوشش کی تائید کرنے سے قاصر ہے۔ تاہم، ہمارے مفادات کے لئے سمندری وسائل کو استعمال کرنے کے لئے آگہی میں اضافہ کے ذریعہ ایک آغاز کیا جاسکتا ہے۔باقاعدگی سے امن سیریز کی مشقوں کے انعقاد سے ہماری اکثریتی زمینی آبادی میں سمندرکے بارے میں شعور اجاگرکیا جاسکتا ہے تاکہ ہماری قومی معیشت کے کچھ متعلقہ طبقات کو یکجا کرکے ’بلیو اکانومی‘ کو فروغ دیا جائے۔ اب وقت ہے کہ شمال سے جنوب تک۔ کاشغر سے گوادر تک - اور مزید جنوب میں بحر ہندتک جہاں گہرا سبز ساحلی پانی فیروزی رنگ میں بدلتا ہے، وہاں تک نئے مواقع تلاش کیے جائیں۔