74 سال قبل بابائے قوم قائد اعظم ؒ کے بعد جو خلا پیدا ہوا۔ 25 کروڑ پاکستانی مل کر بھی اس کو پورا نہیں کر پا رہے کیونکہ ا±ن جیسا بے لوث کردار کا حامل ہمیں آج تک ایک بھی نہیں مل سکا۔ قائدِ اعظمؒ کے بعد قوم لاوارث ہو گئی۔قائد اعظم محمد علی جناحؒ ام±تِ مسلمہ کے عظیم رہنما، اللہ کے سچے بندے اور ”مامور من اللہ“ مجاہد اسلام تھے۔بابائے قوم قائد اعظم وہ مامور من اللہ تھے جِن کو ” صاحبِ نظر حضرت علامہ اقبال ؒ “ ایسے اللہ والوں نے پہچانا اور ا±ن کی م±سلمانوں کی رہنمائی کے لیے قائل کیا۔ بابائے قوم کو عام رہنماو¿ں کی طرح سمجھنے والوں کو شرم آنی چاہیے کہ وہ جانتے ہی کیا ہیں تحریکِ پاکستان کے بارے میں؟ شرارتی عناصر صرف تشکیک پیدا کرتے ہیں کیونکہ وہ صرف و±ہی سوچتے اور پڑھتے ہیں جو ا±ن کے ” لہو و لعب “ سے میل کھاتا ہو جو د±شمنانِ پاکستان نے لکھا ہو جہاں ہمارے ایمان اور ”نظریہ پاکستان“پر حملہ آوروں نے ”بکواس اور افترا پردازی “ کی ہو“ م±سلمانوں کے ”فکر و عمل “ سے روحِ محمد “ نکالنے کے لیے گزشتہ کئی صدیوں سے مسلمانوں پر حملہ ہو چ±کا ہے اور پاکستان کے م±سلمان خاص طور پر صیہونی خ±فیہ تنظیموں کا ٹارگٹ ہیں۔ جن کو پس پردہ انڈیا ، امریکہ اور نصاریٰ کی سرکاری خفیہ اور شدت پسند تنظیموں کا بھی تعاون حاصل ہے۔ مقدس امور اور نظریہ کو متنازعہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے جس کے لیے بے تحاشا مواد لکھ کر ش±بہات کھڑے کیے جارہے ہیں اور موقع پرست ، کمزور عقیدہ ، ذہنی طور پر اپاہج اور ”دلوں میں مرض“ والے لوگ ا±ن کا شکار ہو کر عجیب گ±فتگ±و کرتے ہیں۔ قائدِ اعظم ؒ نے مشرقی پاکستان میں یومِ آزادی کا پہلا پرچم لہرانے کے لیے مولانا ظفر احمد عثمانی ؒ اور مغربی پاکستان میں مولانا شبیر احمد ع±ثمانیؒ کو درخواست کی۔ ع±لماءسے پرچم ک±شائی کا مطلب ؟ قائد اعظم ؒ کا نظریہ پاکستان اور دینِ اسلام سے والہانہ عشق سمجھنا ہے تو سٹیٹ بینک آف پاکستان کی افتتاحی تقریب سے خطاب کے وقت ا±ن کی تقریر پڑھ لیں ۔ قائدِ اعظم ؒ میں ولی اللہ نظر آ جائیگا۔ ہم تو آج پاکستان کے آئین و قانون کی بالادستی اور عملداری کے لیے قربانیاں نہیں دے رہے۔ پاکستان کے مظلوم طبقے کی آواز بننے کی بجائے ا±ن کو ل±وٹنے والے ل±ٹیروں کے آلہ کار بن رہے ہیں صرف اپنی وقتی ضرورتوں کے لیے؟؟ صد افسوس.... ہماری غیرت پر .... غیرت ایمانی پر ؟؟ جبکہ قائدِ اعظم ؒ کی مِلّی و قومی اور ایمانی غیرت کا یہ عالم تھا کہ اپنی اکلوتی اولاد اور چہیتی بیٹی دینا جناح کو اپنے پارسی کزن سے شادی کرنیکی وجہ سے چھوڑ دیا تھا۔ اور مرتے دَم تک اپنی آکلوتی بیٹی کی شکل بھی نہ دیکھی ۔ یہ تھی قائد اعظم ؒ کی غیرتِ ایمانی میری باتوں کی تصدیق کے لیے نواب آف محمود آباد کا انٹرویو پڑھ لیں کہ کیسے دینا جناح اپنے باپ سے ملنے کے لیے بِلکتی تھی گھنٹوں اس گھر کے گیٹ کے ساتھ لگ کر کھڑی رہتی تھی لیکن کسی ملازم کو اجازت نہ تھی کہ دینا جناح کو گھر کے اندر داخل ہونے دے حتی کہ نواب آف محمود آباد کو بھی اجازت نہ تھی کہ وہ دینا جناح کو اندر لے آئیں۔
د±شمنانِ اسلام کا سب سے بڑا ٹارگٹ م±سلمانانِ پاکستان ہیں اور ا±س کی ایک مثال یہ ہے کہ ہر پانچ سات سال بعد پاکستان کے مسلمانوں کی روحِ محمد اور غیرت ایمانی جانچنے کے لیے دو طریقے اپنائے جاتے ہیں ایک ختم نبوت اور قادیانی مسئلہ چھیڑ کر ؟اور دوسرا اسرائیل کو تسلیم کرنیکی افواہ چھوڑ کر اور پھر ردِعمل سے اندازہ لگایا جاتا ہے کہ ابھی پاکستان کے مسلمانوں کی ” غیرت ایمانی “ کِس درجے پر ہے۔
الحمدللہ ! میں پ±ورے ،دعوے، یقین اور ایمان کے ساتھ کہتا ہوں کہ ختم نبوت کے معاملے پر جو ح±کمران بھی ”چ±وں چراں“ کرنے کی کوشش کرے گا ا±س کی ”پاکستانی مسلمان “ ب±وٹی ب±وٹی کر دیں گے اور اسرائیل کو ساری د±نیا بھی تسلیم کر لے حتی کہ سارے عرب ممالک بھی تسلیم کرلیں لیکن پاکستان اسرائیل کو کبھی تسلیم نہیں کرے گا۔ کیونکہ اسرائیل ایک ”ناسور“ ہے اور جیسے فرمایا گیا ہے کہ ہر مرض کا اللہ نے پہلے علاج پیدا فرمایا۔ اسی طرح اللہ نے اسرائیل جیسے ناسور کے علاج کے طور اسرائیل کے قیام سے پہلے پاکستان کو وجود بخشا۔ الحمدللہ ، اللہ اکبر اور بابا جی قائد اعظم ؒ فرما گئے تھے کہ پاکستان کبھی بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا کیونکہ اسرائیل کا قیام دراصل م±سلمانوں کے سینے میں خنجر گھونپنے جیسا ہے۔
فرقہ بندی نے دینِ اسلام کی کوئی خدمت نہیں کی۔ ہاں البتہ م±سلمانوں کا شیرازہ ضرور بکھیر کر رکھ دیا ہے۔ قائدِ اعظم ؒ ( مامور مِن اللہ ) ہمیشہ قرآن و س±نت کے ا±صولوں پر پاکستان کا آئین و قانون ا±ستوار کرنے کی بات کرتے تھے۔ جس پر علماءکو اعتراض تھا کہ جناح “شریعت “ کی بات نہیں کرتا تو قائد اعظمؒ تحریک کو پاکستان میں شریک ایک نوجوان طالب علم رہنما ڈاکٹر انصاری نے اعلمائے ہند کے اس اعتراض بارے بتایا۔ تو قائد اعظم ؒ نے جو ایمان افروز جواب دیا دراصل وہی م±سلمانوں کے اتحاد و قوت کا ذریعہ ہے ا±نہوں نے فرمایا کہ میں نے ب±ہت غور و حوض کیا اور اس نتیجے پر پ±ہنچا ہوں کہ مَیں شریعت کا جب نام ل±وں گا تو پھر اگلا سوال ہو گا کونسے فرقے یا مسلک کے مطابق شریعت ؟ کیونکہ مسلمانوں کے تمام مسالک کی اپنی اپنی شرعی تشریح ہے ۔۔ ب±ہت غور کے بعد مَیں اس نتیجے پر پ±ہنچا کہ “قرآن و س±نت“ کے بنیادی اصول کبھی تبدیل نہیں ہو سکتے۔(جاری ہے)
کوئی مسلک بھی قرآن میں بیان کردہ بنیادی اصولوں سے انحراف نہیں کر سکتا۔ اس لیے میں نے قرآن و سنت کے بنیادی اصولوں کو پاکستان کے آئین و قانون کا ماخذ بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ تاکہ کو فروعی اور مسلکی اختلاف ہمارے درمیان جنم نہ لے سکے۔
قائد اعظم ؒ فلاحی مسلم ریاست کے لیے متعدد ہدایات جاری کیں حتی کہ م±سلمانوں کو بار بار اپیل کر کے بھی فلاحی ریاست کی طرف توجہ دلائی فرمایا کہ
"میں آپ سے اپیل کرتا ہوں کہ اپنے لوگوں کی اجتماعی بھلائی کے لیے متحد رہ کر تکالیف اور م±شکلات کو خندہ پیشانی سے برداشت کریں اور کسی بھی قسم کی قربانی دینے سے دریغ نہ کریں ۔اگر انفرادی اور مجموعی طور پر آپ اپنی قوم اور اپنی ریاست کی اجتماعی بھلائی کے لیے اپنا اپنا حصہ ڈالیں گے تو جتنی بھی پریشانیاں ہوں یا جس قدر بھی محنت کرنی پڑے یا جیسی بھی قربانی ادا کرنی پڑے وہ زیادہ نہیں ہے اور اس سے ہرگز پیچھے نہ ہٹیں۔کیونکہ یہی وہ طریقہ ہے جس سے آپ پاکستان کو دنیا کی پانچویں بڑی ( اسلامی و فلاحی ) ریاست کے طور پر استوار کر سکیں گے، نہ صرف آبادی کے لحاظ سے ہی نہیں بلکہ طاقت کے لحاظ سے بھی، تاکہ یہ ( ریاستِ پاکستان ) دنیا کی دیگر تمام اقوام کے لیے احترام کا ح±کم دے اور د±نیا کی رہنمائی کرے۔ ان الفاظ کے ساتھ ہی میں آپ کے لیے نیک خواہشات کا اظہار بھی کرتا ہوں۔"
قائد اعظم ؒ نے پاکستان کے لیے جو راہیں متعین کی تھیں اور جو فکر و عمل قوم کو دیا تھا اگر ا±س پر عمل کیا ہوتا تو آج پاکستان د±نیا کی “رہنمائی” کر رہا ہوتا۔ آج بھی ہم بابائے قوم کے بتائے گئے اصولوں پر عمل کر کے اور طے کیے گئے خطوط پر چل کر چند سالوں میں ہی اقوام عالم کے رہنما بن سکتے ہیں۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے قیام کے وقت جو تقریر بابائے قوم نے کی تھی وہ تقریر ہی ہمارے معاشی قوت بنے اور پاکستان کے ہر شہری کی م±شکلات کا مسلمہ حل ہے
15 جولائی 1948 کو کراچی میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع پر بانءپاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے اپنے خطاب میں فرمایا:
”میں اشتیاق اور دلچسپی سے معلوم کرتا رہوں گا کہ آپ کی ”مجلسِ تحقیق“ بینکاری کے ایسے طریقے کیونکر وضع کرتی ہے جو معاشرتی اور اقتصادی زندگی کے اسلامی تصورات کے مطابق ہوں۔ مغرب کے معاشی نظام نے انسانیت کے لیے لاینحل مسائل پیدا کر دیے ہیں اور اکثر لوگوں کی یہ رائے ہے کہ مغرب کو اس تباہی سے کوئی معجزہ ہی بچا سکتا ہے۔ مغربی نظام افرادِ انسانی کے مابین انصاف کرنے اور بین الاقوامی میدان میں آویزش اور چپقلش دور کرنے میں ناکام رہا ہے، بلکہ گزشتہ نصف صدی میں ہونے والی دو عظیم جنگوں کی ذمہ داری سراسر مغرب پر عائد ہوتی ہے۔ مغربی دنیا صنعتی قابلیت اور مشینوں کی دولت کے زبردست فوائد رکھنے کے باوجود انسانی تاریخ کے بدترین باطنی بحران میں مبتلا ہے۔اگر ہم نے مغرب کا معاشی نظریہ اور نظام اختیار کیا تو عوام کی پرسکون خوشحالی حاصل کرنے کے اپنے نصب العین میں ہمیں کوئی مدد نہیں ملے گی۔ اپنی تقدیر ہمیں منفرد انداز میں بنانی پڑے گی۔ ہمیں دنیا کے سامنے ایک مثالی معاشی نظام پیش کرنا ہے جو انسانی مساوات اور معاشرتی انصاف کے سچے اسلامی تصورات پر قائم ہو۔
ایسا نظام پیش کر کے گویا ہم مسلمان کی حیثیت میں اپنا فرض سرانجام دیں گے۔ انسانیت کو سچے اور صحیح امن کا پیغام دیں گے۔ صرف ایسا امن ہی انسانیت کو جنگ کی ہولناکی سے بچا سکتا ہے، اور صرف ایسا امن ہی بنی نوع انسان کی خوشی اور خوشحالی کا امین ہو سکتا ہے۔“
ملک کی معیشت کو اسلامی اصولوں پر ا±ستوار کرنے کا ح±کم دیکر قائد اعظم? نے اسلامی فلاحی ریاست کی مضبوط بنیاد رکھی لیکن بدقسمتی سے بابائے قوم کی یہ آخری تقریب ثابت ہوئی اور اس کے بعد ا±ن کی صحت سنبھل نہ سکی۔
ا±متِ م±سلمہ کے اس عظیم لیڈر قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کو د±نیا کی کوئی طاقت شکست نہ دے سکی ماسوائے موت کے ۔ اور بالآخر 11 ستمبر کو بانءپاکستان ( مامور مِن اللہ ) بابائے قوم قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ د±نیا سے رحلت فرما گئے۔ موت چونکہ ح±کم الہی تھی اس لیے “قائدِ اعظم” نے بَسر و چشم ا±س کے آگے سر جھکایا ورنہ د±نیا کی کوئی طاقت ہمارے عظیم قائد کو ج±ھکا نہ سکی ۔۔