جب یہ امت اپنے دورعروج میں تھی تو اس کے علماءو فقہا کی توجہات کا مرکز یہ ہوتا تھا کہ وہ بیرونی فکری یلغاروں سے اسلامی عقائد کو محفوظ رکھیں۔ علم و عمل کے میدانوں میں کفار کے حملوں کا مقابلہ کریں، دین حق کی پاکیزہ دعوت کو چہار دانگ عالم میں نشر کریں اس دعوت کو دلائل و براہین اور تیغ و سنان ہر دو ذرائع سے غالب رہیں۔ گمراہ فرقوں کی تحریفات کو یہاں در آنے سے روکیں اور دین کے روشن چہرے پر زمانہ گزرنے کے ساتھ جو گرد و غبار
پڑے اسے تن دہی صاف کرتے جائیں تاکہ اللہ کریم نے اپنے دین کی حفاظت کا جو وعدہ کیا ھے اسکی تکمیل میں ان کا بھی حصہ لکھا جاسکے تبھی اس امت کے اہل علم کبھی روم و فارس کے خلاف میدان جہاد میں برسر پیکار نظر آئے، کبھی خوارج کے فتنوں کا علمی و عملی مقابلہ کرنے میں مصروف رھے، کبھی یونانی فلسفے کے زہریلے حملوں سے امت کے عقائد کا تحفظ کیا ،کبھی باطنی فرقے کی سازشوں سے امت کو خبردار کیا کبھی جابر حکمرانوں کے سامنے کلمہ حق کہہ کر اذیتیں سہی اور کبھی تاتاری یلغار تو کبھی صلیبی حملوں کے لئے امت کو خبردار کیا۔ پھر جب امت پر زوال آنا شروع ہوا تو ترجیحات تبدیل ہونے لگیں امت بیرونی خطرات سے منہ پھیر کر داخلی کھینچا تانی اور باہمی اختلاف کا شکار ہوگئی جیسا کہ آجکل دیکھنے میں آرہا ھے۔ شریعت کی حاکمیت قائم کرنے سےزیادہ اپنے اپنے مکتبہ فکر کو غلبہ دلانے کا جذبہ زور پکڑتا گیا نتیجتاامت اپنے داخلی اختلافات میں ایسی الجھی کہ ہر قسم کی بیرونی یلغار کے لئے دروازے چوپٹ کھل گئے اور ان دروازوں پر کوئی دربان، محافظ نگہبان اور پاسبان باقی نہ بچا سوائے اہل علم و اہل درد کی ایک قلیل سی تعداد جو اتنا بڑا محاذ سنبھالنے کیلئے ناکافی تھے اسلئے مغرب نے نہ صرف ہمیں عسکری بلکہ سیاسی طور پر بھی مغلوب کرلیا- مغرب کے متعفن شرکیہ عقائد و
افکار بھی امت میں در آئے۔ اسلام کے بنیادی اصولوں سے متصادم نظریات کو عین اسلام قرار دیا جانے لگا، اسلام کی ایک ایسی تشریح کی جانے لگی جو حاضر و موجود نظام اور غالب تہذیب سے مفاہمت پر مبنی ہو بلکہ اسکی ہر قدر، ہر عقیدے، ہر تصور کو اسلام ہی سے ثابت کرتی ہو، ماضی قریب سے یہی غلامانہ ذہنیت اور زوال پزیر قوموں کا یہی اسلوب ہماری فضا پر راج کررہا ھے اور اسکے خلاف مزاحمت کرنے والی آوازیں کمزور و ناتواں ہوتی چلی گئیں لیکن چونکہ اللہ نے اس دین کی حفاظت کا وعدہ کیا ھے یہ اللہ کا آخری دین ھے اور اسکی اپنی طبیعت میں کفار کی توقع سے کہیں زیادہ بغاوت و مزاحمت کا مادہ اور پلٹنے جھپٹنے کا جذبہ و قوت موجود ھے۔ تاریخ فتن کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ فتنہ جمہوریت تاریخ اسلام ان چند فتنوں میں سے ایک ھے جس کے تھپیڑوں نے امت مسلمہ کے وجود پر دیرپا اثرات چھوڑے ہیں، یہ ایسا تاریک فتنہ ھے کہ جہاں صرف علم کی شمعیں کافی نہی بلکہ نور نبوت کی روشنی سے راہ حق کو تلاش کیا جاسکتا ھے، اللہ کے مقابلے میں اس نظام کو معبود بنانے کا فتنہ، قانون سازی کا حق اللہ کے نظام سے ہٹ کر انہیں دے دینے کا فتنہ، مسلمانوں کو اللہ کی عبادت سے نکال دینا کہ انکو پتہ بھی نہ چلے ، موجیں مارتا فتنہ تاریکی و اندھیروں کا فتنہ جہاں ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہی دیتا کوئی دلیل سمجھ نہی آتی جس کا کفر سے بھرا وجود سراپا بے ضرر اور اسلام سے غیر متصادم نظر آتا ھے۔ سو اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ جمہوریت صرف ایک فتنہ نہی بلکہ فتنوں کو جنم دینے والی متعددی بیماری ھے جو امت مسلمہ کے وجود سے کچھ اس طرح چمٹی ھے جیسے جونک چمٹ جایا کرتی ھے۔