قائد اعظم ؒ کے افکار و خیالات 


کل بانی پاکستان ؒ کا یوم ولادت حسب روایت پورے جوش ور جذبے سے منایا گیا ۔سیاسی قائدین نے انقلابی تقریروں کے ذریعے قوم کو روزن مستقبل کی نوید سنائی جنہیںسن کو قوم سوچنے پر مجبور ہے کہ آخر پند و نصائح کرنے کا یہ سلسلہ کب تک یوںہی چلتا رہے گا۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم سال کے 365 روز اپنا زیادہ وقت بس ”دن“ہی منانے میں گذار دیتے ہیں ۔ ہماری یہ سوچ وفکر وقت کے ضیاع اور قوم کو حتیٰ کہ خود کو بے وقوف بنانے کے سواکچھ نہیں ۔ بیشک ! فرنگی سامراج اور ہندوو¿ں کی غلامی سے نجات دلا کر قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے برصغیر کے مسلمانوں پر بڑا احسان کیا ہے ورنہ آج بھی ہم فرنگیوں اور ہندوو¿ں کے غلام ہی رہتے ۔قائد کا یوم ولادت اُن اصولوں اور تعلیمات پر کاربند رہنے کے عہد کی تجدید کا دن ہے جو بابائے قوم نے ہمارے لئے متعین فرمائے اور جن کی بدولت قائد مرحوم کی رہنمائی اور قیادت میں ہمیں پاکستان جیسی عظیم اسلامی مملکت حاصل ہوئی ۔ تحریک پاکستان کے دوران قائد اعظمؒ نے ایمان ،تنظیم اور یقین محکم کے رہنماءاصولوں کو اپنا کر آزادی کی نعمت سے مسلمانوں کو سرفراز کیا ۔لیکن ہمارے کوتا ہ اندیش حکمرانوں نے 75برسوں میں قوم کو آزادی کے حقیقی ثمرات تک رسائی سے دور رکھا ۔یہ بھی اللہ کا کرم ہے کہ پاکستان اوراسلام دشمن قوتوں کی سازشوںکے باوجود ایک زندہ ءجاوید حقیقت کی طرح ہمارا یہ وطن ایک اسلامی مملکت کے طور پر دُنیا کے نقشے پر موجود ہے ۔بابائے قوم کی وفات کے بعد پاکستان کو بڑے ہی کٹھن حالات سے گذرنا پڑا ، سیاسی قائدین نے اقتدار کےلئے اور مفاد پرستوں نے اپنے مفاد کی خاطراسے دونوں ہاتھوں سے لوٹا ،سیاستدانوں کی ہوس اقتدار نے ملک کو دولخت کردیا، دوقومی نظریہ کو فراموش کردیا گیا ۔ یہ دن ہمارے لئے ان تمام کارگزاریوں اور کوتاہیوں کاجائزہ لینے کا دن بھی ہے جو ہم نے75برس میں انجام دیں ۔ ایک لمحے کو ہم اپنے اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں تو ہمیں اندازہ ہو جائے گا کہ کیا قائد اعظم ؒ سچ مچ اسی ایمان ، اتحاد اور تنظیم پر یقین رکھتے تھے جس کا مظاہرہ ہم آج عملی زندگی میں کر رہے ہیں۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ کیا بابائے قومؒ واقعی قوم میں اسی نظم و ضبط کے خواہاں تھے جو ہم نے ذاتی اغراض کے حصول کے لئے روا رکھا ہوا ہے اور کیا بانی ءپاکستان ؒکے نزدیک یہی یقین محکم پاکستان کو مضبوط تر اور مستحکم تر بنانے کی ضمانت تھا جس کو اپنا کر ہم پوری قوم کا مذاق اڑاتے رہے ہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ بابائے قوم ؒ کے اصولوں کی منشاءیقینا اس طرز عمل سے مختلف تھی اور نہ یہ طرزِ عمل قائد اعظم ؒ کے افکار و خیالات سے ہم آہنگ ہے کہ جوہر آدمی ذاتی مفادات حاصل کرنے کےلئے روا رکھے ہوئے ہے۔ انسانی زندگی کچھ اصولوں و ضوابط کے تحت ہی گذرتی ہے لیکن ہمارا المیہ ہے کہ ہم اپنے مفاد کے لئے اخلاق و حمیت کی تما م حدیں پار کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے پاکستان مسلم لیگ خود کو پاکستان کی خالق جماعت کہتی ہے ،اورپارٹی قائدین خود کو قائد اعظمؒ کا وارث سمجھتے ہیں ۔ مقام افسوس ہے کہ آج مسلم لیگ میں کئی دھڑوں میں بٹ چکی ہے ۔اور ہر دھڑا خود کو قائد اعظم : کا حقیقی جانشین ہونے کا دعویٰ کر رہا ہے۔یہ لوگ جب اقتدار سے محروم ہوتے ہیں تو جمہوریت کا رونا روتے ہیں لیکن جب اقتدارملتا ہے توسب کچھ بھول جاتا ہے، اپنے ہر غیر جمہوری عمل کو ”جمہوری “کہہ کر قوم کو بے وقوف بنایا جاتا ہے ۔قوم کے ساتھ ساتھ ہمارے حکمران بھی اپنے قائد کے افکار و نظریات کو یکسر فراموش کر چکے ہیں۔جس کی وجہ سے ہم قوموں کی برادری میں اپنا وہ مقام بھی کھو چکے ہیں جو ہماری پہچان تھا ۔یہی وجہ ہے کہ ہم آج زندگی کے اُس دوہرائے پر کھڑے ہیں کہ ہماری زندگیوں میں کہیںبھی قائد کے افکار کا پَر تو نظر نہیں آتا ، قول و فعل میں تضاد اور دیگراں را نصیحت کے مصداق ہم اپنے گریباں میں جھانکنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے ۔ہمیں اپنے قائد ؒسے کوئی شرمندگی بھی محسوس نہیں ہوتی کیونکہ ہم بے حسی کی آخری حدوں کو چھو رہے ہیں ۔وطن عزیز کو قائد کی تعلیمات و افکار کی روشنی میں ایک خوشحال و مستحکم ریاست بنانا ہر اُس شخص کا فرض ہے جو پاکستان میں رہتا ہے اورخلوص ِدل سے سچے اور محب وطن شہری کی طرح پاکستان کی سلامتی پر ایمان رکھتا ہے ۔ بانی پاکستان ؒکا یوم ولادت دیگر امور سے زیادہ اس بات کا متقاضی ہے کہ ہم قائداعظم ؒ کے افکار کو محض پند و نصائح تک محدود نہ رکھیں بلکہ خلوص دل سے آج اس بات کا عہد کریں کہ ہم جہاں اپنی زندگیوں کو قائداعظم ؒ کی تعلیمات ایمان ، نظم و ضبط اور یقین محکم کے اصولوں کی روشنی میں ڈھالنے کی سعی کریں گے وہاں وطن عزیزکو اپنے قائد کے خوابوں کی تعبیر بنانے کےلئے اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں گے ۔ قومی ترقی کے لئے لازم ہے کہ ہم اپنے ذاتی اغراض و مقاصد کے بتوں کو توڑ دیں ، اسی صورت میں ہی ہم دنیا میں ایک باوقار قوم کی طرح اپنی بقاءاور سلامتی کا تحفظ کر سکتے ہیں اور غیر اقوام کا دست نگر بننے سے بچ سکتے ہیں ۔

ای پیپر دی نیشن