فیروز بخت احمد
عشق سے طبیعت نے زیست کا مزہ پایا/ درد کی دوا پائی، درد بے دوا پایا! عالم نوشہ میاں،اسد اللہ خان غالب کا27 دسمبر کو 226 واں یومِ ولادت ہے۔ اپنے قارئین کو غالب کی شاعرانہ کلام، انداز اور عظمت کے حوالہ سے رو بہ رو کرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، پاکستان کے موقر اور معروف روزنامہ نوائے وقت کے میگزین ایڈیٹر خالد بہزاد ہاشمی گاہے بہ گاہے مجھ سے بھی مختلف مواقع پر نوائے وقت کے لئے آرٹیکلز لکھواتے رہتے ہیں، چونکہ ان کی دلچسپی تاریخ، تصوف، ادب، کلچر اور خاص طور پر ہندوستانی تہذیب و ثقافت پر ہے اس لیے وہ ہندوستانی سکالرز، دانشوروں، ادیبوں اور گدی نشینوں سے رابطہ میں رہتے ہیں، غالب کے یوم ولادت پر بھی وہ مسلسل رابطے میں رہے اور میٹر اور تصاویر کے حوالے سے یاد دہانی کراتے رہے جس پر ان کا مشکور ہوں۔ کیونکہ چہار دانگ عالم میں اْردو طبقہ اس بات سے مانوس ہے کیونکہ غالب بلاشبہ تمام زبانوں کے شعراء میں، بقول پروفیسر عقیل احمد، سابق ڈائریکٹر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، دہلی اور مشہور ادیب و محقق، thought content (سوچنے کی صلاحیت) کے اعتبار سے سب سے افضل و برتر تھے۔ اس بات پر عالمی مایہ ناز اْردو داں پروفیسر گوپی چند نارنگ نے بھی مہر لگائی تھی۔ غالب کی عظمت کے تعلّق سے کْچھ اسی طرح سے نوازا ہے اْنہیں، حضرت جوش ملیح آبادی، آنند موہن زتشی گلزار دہلوی، تلوک چند محروم، ہری چند اختر اور کنور مہندر سنگھ بیدی نے! اسکا ثبوت ہمیں ملتا ہے، منشی لال بہاری مشتاق کے خط سے، جنہوں نے لالہ کنہیا لال کے حوالہ سے تحریر کیا ہیکہ 1805 میں جب غالب محض آٹھ ، نو برس کے تھے تو اْنہوں نے ایک مثنوی اپنی پتنگ پر لکھ کر اڑائی تھی، جو کْچھ اس طرح کی تھی، "دوست نے گلے کو میرے ڈور سے باندھ دیا ہے جو/مرضی سے اپنی گھماتا ہے مْجھے وہ,,!" ایک آٹھ سال کے بچّہ سے اس طرز کی شروعات سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ غضب کا دِماغ ہے اْسکا، اتنی کم عمر میں!
کیا غالبِ خستہ کو اپنا مقام ملا یا نہیں، اس پر بھی اْردو سماج میں تقسیم ہے۔ کْچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کو اپنا حق مل گیا، مگر کْچھ کا خیال ہے کہ ایسا نہیں۔ دہلی کے جواں سال شاعر اور زبردست نظامت نواز کا خیال ہے کہ غالب اپنی غیر معمولی ذہانت اور جدا گانہ فکر اور ادبی دانش کی بنیاد پر ہمارے معاشرے کے اجتماعی شعور کا حصہ بن گئے ہیں۔ فنون لطیفہ کا شاید ہی کوئی ایسا شعبہ ہو, جس نے غالب کے کمالات کو ہدیہ تحسین نہ پیش کیا ہو۔۔۔ اب تو عالم یہ ہے کہ غالب پر بات نہ کرنا، غالب کو حوالوں میں نہ لانا علمی، ادبی اور دانشورانہ پس ماندگی تصور کیا جاتا ہے۔ بہرحال بقول شخصے غالب کا تذکرہ بالکل اسی طرح لازمی امر ہے، جس طرح مناسک حج کی ادائیگی میں عرفات کے میدان کا قیام۔
غالب کی یاد میں دہلی میں ایک بین الاقوامی مذاکرہ و مشاعرہ بھی 22, 23 اور 24 دسمبر کو منعقد کیا گیا جسکی نظامت معین شاداب نے کی اور نامور شعراء نے اپنے کلام سے قارئین کو ایوانِ غالب ، دہلی، میں محظوظ کیا، جن میں سیّد تقی عابدی، پروفیسر وسیم بریلوی، رئیس وارثی، جلیل نظامی، امیر مہدی، ڈاکٹر نواز دیوبندی، منصور عثمانی، ش ک نظام، افضل منگلوری، ، متین امروہوی، مسجد دیوبندی، اعجاز پاپولر میرٹھی، اقبال اشہر، وسیم رشید وغیرہ شامل ہیں۔ بقول صدر ایوان غالب صدیق الرحمٰن قدوائی، ایوانِ غالب برسہا برس سے غالب کی خدمت میں لگا ہوا ہے۔
عالمی شہرت یافتہ شاعر جانب نواز دیوبندی کا خیال ہے کہ بلا شبہ، غالب شعراء کے تاج ہیں ، مگر اْنکا خیال ہے کہ غالب کو دا مے در مے قدمے سْخنے وہ مقام ملا ہے، کو اْنکی قسمت تھا۔ یہی نہیں، اْنکی قدر و منزلت اتنی تھی کہ انکے سایہ میں کئی شاعر، جو کسی قیمت اْن سے کم نہیں تھے، نیتاریخ کے اوراق کے نیچے دب گئے۔مثال کے طور پہ مومنؔ، میرؔ اور ذوقؔ کہیں سے کہیں تک غالبؔ سے کم تر اور پیچھے ہرگز نہیں تھے، جسکی گواہی اور بھی کئی محقق حضرات نے دی ہے۔ موجودہ دور میں کْچھ یہی بات جناب نواز دیوبندی پر بھی فائز ہوتی ہے!
غالب کو اْنکا مقام ملا یا نہیں ، یا کتنا ملا، یہ بحث کا موضوع ہو سکتا ہے، مگر غالب کو 1869 میں ان کی وفات کے بعد آج تک برصغیر میں وہ بلندی نہیں ملی ہے،جس طرح اس معاملہ میں برٹش حکومت لائق ستائش ہے کیونکہ اْس نے اپنے تمام شعراء ، ڈراما نویس و ادیبوں کو انکے گھروں کو محفوظ کر میوزیم کی شکل میں محفوظ کیا ہے، چاہے وہ شکسپیئر ہوں، ولیم بلیک ہوں، کیٹس اورشیلے ہوں یا ورڈزورتھ ہوں۔
غالبِ کی قسمت میں ایسا نہ تھا اْنکی قیام گاہ کے ایک حصّہ پر ہیٹر بنانے کا کارخانہ تھا تو دوسرے حصّے میں بلڈنگ مٹیریل فروخت ہوا کرتا تھا۔ ہمارے بچپن میں، حویلی غالب میں کوئلہ کی ٹال ہوا کرتی تھی اور جب ہم گلی قاسم جان سے، اپنے اسکول، "تعلیمی سماجی مرکز" جو کہ بارہ دری شیر افگن (شیر افغان کا بگاڑا ہوا نام) کے اندر ہوتا تھا، جایا کرتے تھے تو دیکھتے تھے کہ کبھی تو کوئی اخباری رپورٹر تو کبھی کْچھ بین الا قوامی اخبارنویس اْسکی فلم بنا رہے ہیں۔ پتہ چلا، یہ تو حویلی غالب ہے۔
یوں تو غالب کی پیدائش سے لے کر آخر زِندگی تک اْن کی کئی رہائش گاہیں تھیں، مگر آخری تو گلی قاسم جان، بلّی ماران، ہی تھی ، جہاں سے اْنکا جسد خاکی اْنکی آخری آرامگاہ، بستی حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء پہ لایا گیا تھا۔ حالانکہ یہ حکومت وقت کا فرض تھا کہ حویلی غالب کو محفوظ کرے، مگر ایسا نہ ہوا۔ راقم الحروف نے متعدد مرتبہ دلّی سرکار و حکومت ہند چلا رہی کانگریس سرکار کو درخواستیں تحریر کریں کہ اْردو و فارسی کے عظیم شاعر کی قیام گاہ کو اْن کے چاہنے والوں کے لئے محفوظ کیا جائے، مگر بے رحم سرکار پر کوئی اثر نہ پڑا۔ بقول غالب،
" ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک!"
تھک ہار کر راقم نے 1996 میں دہلی ہائی کورٹ میں ایک درخواست برائے فلاح عامہ، اپنے دوست اور کہنہ مشق قانون داں، محمّد ا طیب صدیقی کے ذریعہ داخل کی کہ یہاں تقریباً 400 گز کے رقبہ میں، غالب کی یادگار کو قائم کیا جائے اور یہاں غالب کی کتابوں کا چھوٹا سا کْتب خانہ، لائبریری، اْردْو کمپیوٹر سکھانے کا انتظام، چائے کا اسٹال، ٹوائلٹ وغیرہ ہو۔
اِس میں بہت جلدی ایک تاریخی فیصلہ، اللّٰہ بھلا کرے، جسٹس سی ایم نیّر نے دیا کہ غالب دنیا کے جانے مانے شاعر ہیں اور ملک کو اْن پر فخر ہے، لہٰذا اْنکی حویلی کی جگہ اکو وائر کرکے ایک بہترین یادگار قائم کی جائے۔ کورٹ آڈر پر جلد فیصلہ کن کارروائی ہوئی اور اس جگہ ایک یادگار قیام میں آئی. مگر قلق اس بات کا رہا کہ کورٹ نے بجائے 400 گز کے محض 130 گز جگہ دی۔آج اس حویلی غالب کی یہ حالت زار ہے کہ انکے یوم پیدائش اور اْنکی برسی پر یہ اندھیرے میں ڈوبی رہتی ہے! راقم الحروف نے مزار غالب اور مرزا غالب کے طوطی ہند، شیخ محمّد ابراہیم ذوق کے مزارات کو بھی کورٹ کے ذریعے ہی محفوظ کرایا تھا۔ اگر ہم نے غالب کو اسی طرح نظر انداز کیا تو شاید ہم بھی صفحہ ہستی سے مٹا دیئے جائینگے! غالب کو حکومت سے سب سے بڑا ہندوستانی ایوارڈ، یعنی بھارت رتن دینے کی درخواست کی ہے۔(راقم الحروف سابق چانسلر، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی اور بھارت رتن مولانا ابوالکلام آزاد کے چشم وچراغ ہیں )۔