بدلتا لاہور 

لاہور کو زندہ دلوں کا شہر کہتے ہیں کسی زمانے میں اسے پھولوں اور باغوں کا شہر بھی کہا جاتا تھا یہ وفائوں کا شہر بھی ہے خوشبوؤں کا شہر بھی ہے اور کھلے دل والوں کا شہر بھی جتنی وسعت لاہور کے دل میں ہے شاید ہی دنیا کے کسی شہر میں ہو ایک بار انڈیا کے معروف کامیڈین جسپال بھٹی اور انڈیا ٹائم کی ایڈیٹر لاہور آئی ہوئی تھیں ہم ان کے ساتھ گوالمنڈی فوڈ سٹریٹ میں بیٹھے تھے وہاں گپ شپ کرتے رات کے 2بج گئے جسپال کہنے لگا میں ساری دنیا گھوما ہوں لیکن لاہور جیسی شانتی اپنائیت پوری دنیا میں نہیں اسی طرح کا اظہار معروف کرکٹر بشن سنگھ بیدی بھی کیا کرتا تھا لاہور بلاشبہ روایات، ثقافت کا امین شہر ہے لیکن اس شہر کو تراش کر ہیرا بنانے کا کام وزیر اعلی پنجاب سید محسن نقوی نے سر انجام دیا ہے وہ لاہور کو صیح معنوں میں پہچاننے والے جوہری ہیں جنھوں نے انتہائی مختصر وقت میں اسے چار چاند لگا دیے ہیں ان کے منصوبوں نے لاہور کو بین الاقوامی شہروں کی صف میں لا کھڑا کیا ہے لاہور اب ایک سفارتی شہر بھی بننے جا رہا ہے جہاں اسلام آباد کی طرز پر ڈپلومیٹ انکلیو بن رہا ہے جہاں بین الاقوامی سطح کا بزنس حب بھی بن رہا ہے جس سے لاہور کی قسمت بدلنے والی ہے خاص کر والٹن کے علاقے جسے ہم مشرقی لاہور کہہ سکتے ہیں کے سارے کوڑھ نکال دیے ہیں والٹن روڈ کے ارد گرد کے علاقے صدیوں سے نظرانداز تھے ان علاقوں کو لاوارث سمجھا جاتا تھا نہ وفاق اس پر توجہ دیتا تھا اور ہی صوبہ اس کا والی وارث بنتا تھا گندے نالے نے تو یہاں کاماحول ایسے بنا رکھا تھا جیسے کچرا کنڈی کا ہوتا ہے لاہوریے خصوصی طور پر والٹن روڈ اور پورے مشرقی لاہور کے مکین محسن لاہور سید محسن نقوی کے بے حد مشکور ہیں جنھوں نے یہاں کی دنیا ہی بدل دی ہے 9ارب روپے کی لاگت سے بہت بڑا انڈر گراونڈ سیوریج سسٹم اور والٹن روڈ کی تعمیر سے سارے مسائل حل ہو جائیں گے اور یہ سارا کچھ سوا ماہ میں مکمل ہو جائے گا سنٹرل بزنس ڈسٹرکٹ کے مین بلیوارڈ کی تعمیر اور فلائی اوور بھی 31 جنوری تک مکمل ہونے جا رہا ہے۔ ہمارے دوست معروف سماجی رہنما مقصود حسین نشاط کالونی والیتو ان ترقیاتی منصوبوں کی دوبئی، شنگھائی اور امریکہ کے جدید شہروں سے تشبیہ دیتے ہیں میں سوشل میڈیا پر اکثر ان کے ویڈیو کلپ  اور تحریریں دیکھتا ہوں تو خوشی ہوتی ہے کہ ہم میں صرف تنقید کرنے والے ہی نہیں قدر کرنے والے لوگ بھی موجود ہیں ۔
ہم سمجھتے ہیں کہ سید محسن نقوی کے لاہور میں جاری ترقیاتی منصوبوں جن میں سے بیشتر کی تکمیل مکمل ہو چکی باقی بھی نئے سال کے پہلے ماہ میں مکمل ہو جائیں گے لاہوریوں کے لیے گیم چینجر منصوبے ثابت ہوں گے صرف سنٹرل بزنس ڈسٹرکٹ ہی لاہور کی قسمت بدل دے گا ۔ بس یوں سمجھیں کہ لاہور دنوں میں دوبئی بننے والا ہے سنٹرل بزنس ڈسٹرکٹ کی تکمیل سے روزگار کے وسیع مواقع پیدا ہو رہے ہیں والٹن روڈ کو ایک جدید مین بلیوارڈ سے فیروز پور روڈ کو ملایا جا رہا ہے سنٹرل بزنس ڈسٹرکٹ میں ملکی وبین الاقوامی کمپنیوں کے دفاتر قائم ہو رہے جدید پارکنگ پلازے، ہوٹلز مالز بن رہے ہیں سفارتخانے قائم ہو رہے ہیں ابھی حال ہی میں جو کیولری گراونڈ انڈر پاس اور کیپٹن کرنل شیر علی شہید نشان حیدر فلائی اوور بنا ہے اس سے یہ علاقہ دنیا کے کسی جدید ترین علاقے کانقشہ پیش کر رہا ہے والٹن گلبرگ سے آنے والی ساری ٹریفک اب بغیر کسی رکاوٹ کے ڈیفنس، والٹن روڈ، آراے بازار اور نشاط کالونی بیدیاں روڈ کی طرف جا سکے گی کرنل شیر علی شہید نشان حیدر فلائی اوور کے ساتھ شہدا کی یادگار اور ایک چھوٹا سا خوبصورت پارک بھی تعمیر کیا گیا ہے جو دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے والٹن روڈ اور سی بی ڈی روڈ کی تعمیر کے بعد پورے علاقے کا نقشہ ہی تبدیل ہو جائے گا محسن پنجاب نے ترقی کے منصوبوں کو لاہور تک ہی محدود نہیں رکھا راقم اپنی آنکھوں سے راولپنڈی میں بھی اسی طرح کے ترقیاتی منصوبوں کی تعمیر دیکھ کر آیا ہے لاہور میں ہسپتالوں کی اپ گریڈیشن خصوصی طور پر میو ہسپتال میں میڈیکل ٹاور کی تعمیر جنرل ہسپتال، چلڈرن ہسپتال ،سروسز ہسپتال ودیگر ہسپتالوں میں توسیع کے منصوبے لاہور کے انڈر پاسز کی تزئین وآرائش، ہارٹیکلچر کے منصوبے لاہور کی خوبصورتی کو چار چاند لگا رہے ہیں انھوں نے سرکاری سطح پر لاہور کی ثقافت کو اجاگر کرنے کے لیے جو اقدامات کیے وہ بھی قابل تعریف ہیں اور دلچسپ امر یہ ہے کہ سید محسن نقوی نے گورننس کی جو اعلی اقدار متعارف کروائی ہیں وہ بڑی قابل قدر ہیں میں نے ان کی ورکنگ کا بغور جائزہ لیا ایک تو انھوں نے شب شبا تام جھام والے سارے جھنجھٹ ختم کر دیے ہیں سادگی کی مثال قائم کرتے ہوئے وہ ہر وقت سادہ کپڑوں میں عام آدمی کی طرح رہنا پسند کرتے ہیں میں نے انھیں ہمیشہ عام سی شرٹ جیکٹ اور جینز میں ملبوس دیکھا ہے اور ترقیاتی کاموں کی نگرانی انھیں ایسے کرتے دیکھا ہے  جیسے ذاتی گھر کی تعمیر کروا رہے ہوں۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...