قارئین آپ نے میرے پچھلے کالم ‘‘ شہر منافق کے مکین’’ میں میرے تھنک ٹینک کے رکن شاہ زین کی طرف سے پوچھے گئے سوال کے پہلے حصے کا جواب پڑھ لیا ہو گا۔ اب آتے ہیں اس سوال کے دوسرے حصے کی طرف تو اس میں کوئی دو رائے ہو ہی نہیں سکتی کہ بات وہی معتبر ٹھہرتی ہے جو اپنے اندر کوئی وزن، حقیقت یا دلیل رکھتی ہو۔ پہلے بات کرتے ہیں سیاست کے میدانوں میں جاری الزامات کی ڈرٹی گیم کے پیچھے چھپے عزائم کی تو تمام تر عذر اور توجیہات کے باوجود زمینی حقائق اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ الزامات کی آڑ میں سیاست کے ایک فریق بارے اس وقت جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس ساری ایکسرسائز کا مقصد عوام کی نظروں میں اپنے ہی تراشے اس بت کواب ہیرو سے زیرو بنانا مقصود نظر اتا ہے۔
سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ پاکستان کی سیاست کی تاریخ میں پہلی دفعہ ہونے جا رہا ہے تو جواب بڑا سادہ ہے تاریخ گواہ ہے کہ معتبر جانے والوں کی طرف سے آجکل ایک دفعہ پھر جنکو محترم بنانے کیلئے جو جو فورم اور جو جو حربہ استعمال ہو رہا زیادہ دور کی بات نہیں انہی محترموں کو ماضی قریب میں وہی سب کچھ مجرم گردانے جانے کیلیئے استعمال ہوا۔
اپنے استدلال کی مزید وضاحت کیلیئے راقم کے ذہن میں ایک شعر آ رہا ہے جو کچھ اس طرح ہے کہ ‘‘ ہم دْعا لکھتے رہے وہ دغا پڑھتے رہے اک نقطے نے ہمیں محرم سے مجرم بنا دیا’’۔ واقفان حال اور اہل علم تو یقیناً اس نقطہ کو سمجھتے ہونگے جو پاکستان کی سیاست میں دعا کو دغا اور محرم کو مجرم بنا دیتا ہے لیکن اپنی تمام تر خامیوں اور محرومیوں کے باوجود اس ملک کے سیاستدانوں کو ایک کریڈٹ جاتا ہے کہ ایک طرف ایک پارٹی نے ‘‘ووٹ کو عزت دو’’ اور دوسری طرف دوسری پارٹی نے ‘‘ ہم کوئی غلام ہیں ‘‘ کا نعرہ لگا کر اس ملک کے ایک عام آدمی کو بھی یہ بتا دیا ہے کہ دراصل وہ ایک نقطہ کیا ہے جو پاکستان کی سیاست میں ایک محرم کو مجرم بنا دیتا ہے۔ اس مقام پر فکر کی جستجو کے حامل ذہن اپنے تئیں سوال کر سکتے ہیں کہ کیا چوتھی باری کے امیدواروں کی عقل میں یہ نقطہ نہیں آ رہا کہ کل پھر ہمارے ساتھ بھی یہی کھیل دوبارہ دہرایا نہیں جا سکتا کیونکہ کہتے ہیں دودھ کا جلا چھاچھ سے بھی ڈرتا ہے،
راقم کوئی اتنا بڑا فلاسفر یا اہل فکر نہیں جو ایسے اہم نقطوں کا باریکیوں سے جواب دے سکے۔ ایک ادنی طالبعلم ہونے کے ناطے اسی لیئے یہ خاکسار بیشتر اوقات اپنی معروضات پیش کرنے کیلیئے ادبی اور کتابی حوالاجات کا سہارا لیتا ہے لہٰذا یہاں پر بھی حضرت رومی کی حکایتوں سے جْڑا ایک قصہ منقول کر رہا ہوں۔روائیت کچھ یوں ہے کہ جب حضرت سلیمان کی بادشاہت کا ڈنکا بجا تو سب پرندے اطاعت میں حاضر ہو کر اپنی اپنی حکمت و دانائی بیان کرنے لگے، بات چلتے چلتے جب ہد ہد کی باری آئی تو اس نے کہا بادشاہ میں اپنا ایک ہنر جو شائد سب سے ادنیٰ ہو لیکن خْدا جانے آپکی نظر میں معتبر ٹھہرے، عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جب میں بلندی پر اڑتا ہوں تو پانی کو پتال میں بھی دیکھ لیتا ہوں۔ اس تفصیل کے ساتھ کہ یہ کہاں ہے، کس گہرائی میں ہے، اس کا کیا رنگ ہے اور یہ بھی کہ وہ پانی زمین سے ابل رہا ہے یا پرچا سے رِس رہا ہے۔ حضرت سلیمان نے ہْد ہْد کی بات سنی تو فرمایا کہ آئندہ سے تو ہماری ہمراہی بھی کر اور پیش روی بھی تاکہ تْو ہمارے لیے پانی کا کھوج لگا تا رہے۔
جب کوّے نے سنا کہ ہد ہد کو یہ منصب عطا ہو رہا ہے تو اسے حسد ہوا اور اس نے حضرت سلیمان سے عرض کیا کہ ہد ہد سے یہ پوچھا جائے کہ اگر اس کی نظر اتنی تیز ہوتی ہے تو یہ مٹھی بھر خاک میں اپنے شکار کیلیئے چھپا ہوا پھندا کیوں نہیں دیکھ سکتا اور جال میں کیوں پھنستا ہے۔ حضرت سلیمان نے ہد ہد سے اس عْذر کا جواب مانگا تو ہْد ہْد یوں گویا ہوا اگر خدا کی مشیئت میری عقل کی روشنی کو نہ بجھائے تو میں اڑتے پھندے اور جالے کو دیکھ لوں لیکن المیہ یہ ہے کہ جب میرے پیٹ کی بھوک میری عقل پر غالب آ جاتی ہے تو میری عقل سو جاتی ہے اور میری بینائی میں یہ قوت نہیں رہتی۔
قارئین یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پتال میں چھپے پانی کو دیکھنے کی قوت والے ہد ہد کی طرح ہمارے تمام سیاستدان بھی کمال کی نظر رکھتے ہیں اور ہر چیز کو سمجھتے ہیں لیکن اسے ہماری بدنصیبی کہیئے کہ اقتدار کی بھوک انکی ہر دانائی اور سمجھ پر غالب آ جاتی ہے اور وہ پھر وہاں سے سفر شروع کرتے ہیں جہاں سے یہ رسوا ہو کر نکلے ہوتے ہیں، یہ کوئی آجکل کی بات نہیں ہمارے ملک کی پچھتر سالہ سیاسی تاریخ ایسے المیوں سے بھری پڑی ہے۔ رہا یہ سوال کہ اسکا اب اینڈ رزلٹ کیا ہو گا تو اس ناچیز کی دانست میں آجکل کی سیاست کی وہ ہستی جو گفتار میں یا کردار میں کسی صورت بھٹو کے قریب پھٹک بھی نہیں سکتی حالات کا جبر اسے ایسے انجام اور مقام کی طرف لے جا رہا ہے جہاں تاریخ کو اس دور کے ظلم کی داستانوں کی گویائی کیلیئے ایک اور بھٹو مل جائے گا حالانکہ ستر کی دہائی اس بات کی گواہ ہے کہ اس وقت بھی اگر ایک غیر فطری ا نجینرڈ ایکسرسائز کی بجائے حالات کو فطری سیاسی عمل کے سپرد کیا جاتا اور جبر کی بجائے تدبر اور صبر سے کام لیا جاتا تو شائد یہ نعرہ کہ ‘‘زندہ ہے بھٹو زندہ ہے ‘‘ وہ بھی بھٹو کے جسد خاکی کی طرح تاریخ کے اوراق میں کہیں مدفون ہوتا۔ بس اب یہ بات مقتدرہ کے سوچنے کی ہے کہ کیا ہم بھٹو والی تاریخ ایک بار پھر رقم کرنے جا رہے ہیں اور اگر کوئی ایسی بات ہے تو پھر یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ اس موجودہ دور میں زمینی حقائق کی روشنی میں اسکے کیا ممکنہ اثرات ہو نگے اور یہ بات سیاستدانوں کے سوچنے کی بھی ہے ہم کب تک ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہوتے رہینگے۔
٭…٭…٭