شاز کی آواز شاز نامہ "
"مجھے لگتا ہے کہ مکہ سے میری محبت اور کعبہ سے میرا عشق صدیوں پرانا ہے کعبے پہ جب سے پہلی نظر پڑی خود کو بھلا? بیٹھی ہوں پہلی بار پتا چلا کہ دل کی لگن اور روح کی طلب کیا ہوتی ہے مجھے محسوس ہوا کہ کعبہ تْاللہ کو میں پہلے بھی دیکھ چکی ہوں مگر کب کہاں یاد نہیں۔ہاں تصور محبو میں کئی بار حطیم میں نوافل ادا کیے مگر کب کہاں یہ بھی یاد نہیں۔۔۔ مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ مجھے ایسی لگن لگی ہے اتنی محبت اپنے رب سے جسکا مجھے ادراک ہی نہیں تھا روح تو ازل سے اپنے اللہ پاک اپنے خالق مالک کی لگن لگائے بیٹھی ہے تب سے جب اپنے خالق مالک رب کریم نے سب ارواح کو اپنی بارگاہ میں جمع کیا تھا بس تب سے سب ارواح اپنے رب کریم کی محبت اور لگن میں مدہوش ہو گئی تھی۔۔ اب جب سے مرکز محبت کو روبرو پایا بینائی کو یقین نہیں آ رہا کہ رب کریم نے اتنا بڑا کرم کیا ہے کہ روح اپنی محبت کو رب کے گھر کو سامنے دیکھ کر روحانیت کے نور سے جگمگا اٹھی اور پھر کعبے کی عظمتوں برکتوں رحمتوں کی نورانیت کو محسوس کر کے سجدہء شکر میں جھک گئی صحن حرم میں صحن کعبہ کی زمین پر سجدہ ریز ہوتے ہی صدیوں پرانی مٹی کی اس پاکیزہ مہک کو محسوس کرنے لگی اور پھر وقت کی مٹی میں مٹی ہو کر ان لمحات میں زندگی کو محسوس کرنے لگی۔۔ پھر بینائی کو ایک مرکز پر یکجا کر کے کو اتنا دیکھا جتنا دیکھ سکتی تھی اور اتناآنکھوں میں بسایا کہ جتنا بسا سکتی تھی کہ اسکے سوا کچھ یاد ہی نہیں تھا آنکھوں کی پیاس نہیں بْجھتی تھی اور بینائی کی طلب بڑھتی جاتی تھی اور پھر آنکھیں بے ادبی سے بس دیدِ کعبہ میں محو ہوتی مگر کعبہ کی نورانیت کو آنکھیں اہنے اندر زیادہ دیر تلک سمونے کی طاقت نہیں رکھتی تھیں سو تھک کر جھک جاتیں کہ حد ادب کا تقاضا یہی تو تھا۔۔نورانیت بھلا عام بینائی کب دیکھ سکتی ہے اور اپنے اندر نور کو سمو سکتی ہے مگر عشق کی طلب بس دید اور دیدار کے ہیمانے میں سمٹ گئی تھی۔۔ کہ دل بے اختیار کہہ اٹھا لاگی تم سے من کی لگن لگن لاگی تم سے روح کی لگن۔۔ وہ روح جو اپنے رب کی محبت لگن سے عبادت اور ذکر کی نورانیت سے توانا اور روحانی اور نورانی ہوتی ہے اب اس ناتوانِ جاْ کا یہ عالم ہے کہ بے خودی میں عشق حقیقی میں ڈوب کر یہی کہے جاتی ہے کہ جدہر دئکھتی ہوں ادہر تْو ہی تْو ہے"وہ خالق سنتا ہے دیکھتا ہے مسکراتا ہے اور پھر ازلی بے نیازی سے بچوں کی طرح پچکار کر میرا رخ موڑتے ہوئے آئستگی سے کہتا ہے جاؤ میری محبت کی طرف یہ محبت میرے محبوب کی محبت ہے اس کی طرف جاؤ پھر میری طرف آؤ۔۔۔ پھر دل میں سکون کی لہر اترتی ہے اور تبھی محبت اپنا رخ بدلتی ہے نرم رو چلتی ہواوقت ٹہر کر مدینہ کی حدود میں لے آتی ہے اور دل کو قرار ملنے لگتا ہے محبت کی مٹی میں سوندھے پن کی مہک مہکنے لگتی ہے عشق اپنے سر پر سبز رنگ کا عمامہ باندھ لیتا ہے اور روح اپنے سفید نورانی لباس کی نوارانیت کو بڑھتے ہوا محسوس کرنے لگتی ہے۔۔۔ تنب احساسات کی رو اپنا رنگ بدلتی ہے۔۔ نرم روی ٹھنڈک رحمت کا احساس ہونے لگتا ہے اور دل اور روح بے اختیار گنبد خضرا کی نورانیت کو محسوس کرتے ہوئے کہہ اٹھتے ہیں " مدینہ مجھے محبوب ہے۔۔یہ الفاظ کہتے ہوئے مجھے محسوس ہوتا ہے کہ گنبدِ خضرا اور ریاضْ الجنتہ کی زیارت کے بعد بینائی محدود ہو جاتی ہے کہ کہ اسے دیکھنے کے بعد کچھ اور دیکھنے کی حسرت نہیں رہتی "اور پھر میری طلب بس یہ کہتے ہوئے سجدہ ریز ہو گئی کہ عشاق کے لئیے "مکہ میں جنون ہے اور مدینے میں سکون ہے "
شاز ملک فرانس