گلوبل ویلج
مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
ہم ایک ایسا معاشرہ بن چکے ہیں، کوئی چھوٹا ہے یا بڑا، احساس برتری میں مبتلا ہے۔دوسروں کو اپنے سے چھوٹا سمجھتا ہے، تجاوزات کو ذرا دیکھ لیجیے، کیا تجاوزات کوئی قدرتی آفت ہے۔تجاوزات کے خلاف آپریشن ہوتا رہتا ہے۔ زلزلہ آتا ہے، سیلاب آتا ہے، کوئی قدرتی آفت آ جاتی ہے اس سے نمٹا جاتا ہے۔اس کے بعد سال بعد دو سال بعد پھر سے آفت آ جاتی ہے۔ یہ قدرت کا ایک نظام ہے اس کے آگے آپ بند نہیں باندھ سکتے لیکن نقصانات کو کم کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ تدارک ضرور کر سکتے ہیں۔ لیکن تجاوزات جب بھی ایک مرتبہ ختم کر دی جاتی ہیں اس کے خلاف آپریشن ہوتا ہے تو دوبارہ وہیں پر تجاوزات کس طرح سے پہلے والی شکل میں آ جاتی ہیں۔کہیں نہ کہیں خرابی ہے، نظام میں،جن کے ہاتھوں میں نظام ہے۔ دراصل ہمارے معاشرے میں ایک تو قانون کا ڈر ختم ہو گیا، دوسرا لوگ اپنے آپ کو قانون سے برتر اور بالا سمجھتے ہیں۔ آپ گائوں میں چلے جائیں ، شہر میں آ جائیں آپ کو گلیوں میں تھڑے بنے ہوئے نظر آئیں گے۔ شہر میں جس جگہ پر جس کا دل کرتا ہے ریڑھی لگا لیتا ہے ،ٹھیلا لگا لیتا ہے، اپنی دکان سے چار فٹ آگے تھڑا بنا لیتا ہے۔کروڑوں روپے کوٹھیوں پر لگا دیئے جاتے ہیں لیکن کوٹھی کے آگے جگہ نہیں چھوڑنی۔سڑک کی جگہ پر لان بنا دیئے جاتے ہیں، درخت لگائے جاتے ہیں۔ درخت لگائیں، لان بنائیں لیکن اس کے لیے اپنی جگہ کا استعمال کریں، سرکاری کیوں کر؟
میں نے دنیا کے سو سے زیادہ ملک وزٹ کیے ہیں خصوصی طور پر مغرب میں رہا ہوں۔ برطانیہ میں، امریکہ میں، کینیڈا میں اور دیگر ممالک میں بھی یہ ایک لاء ہے کہ گھر کی دونوں سائیڈوں پر چھ فٹ جگہ چھوڑنی ہے، سامنے پچیس فٹ اور بیک سائیڈ پر 18فٹ۔ اس پچیس فٹ میں جو سامنے آ پ نے جگہ چھوڑی ہوئی ہے اس میں آپ لان بنائیں، پودے لگائیں، درخت لگائیں یہ آپ کی اپنی مرضی ہے۔ کینیڈا رقبے کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ یہاں پر قانون کا جس طرح سے احترام کیا جاتا ہے دیگر مغربی ممالک میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے اگر آپ نے دو منزلہ عمارت بنانی ہے تو تیسری جگہ پر آپ ٹینکی بھی نہیں رکھ سکتے۔قانون کا احترام ہر کوئی کرتا ہے غریب ہے یا امیر ہے۔ لیکن ہمارے ہاں یہ سوچا جاتا ہے کہ قانون کا احترام کرے تو غریب کرے۔اور قانون کا احترام کرنا محکوموں کا کام ہے ہماراکام نہیں ہے۔ہمارے ہاں جس طرح کی فلمیں بنتی رہیں جس کو پنجابی ثقافت کا نام دیا جاتا تھا یہ سارا کچھ ثقافت کے نام پر جہالت کو فروغ دیا گیا۔پولیس کو گریبان سے پکڑ لیا جاتا ہے، اداروں کے خلاف یاوہ گوئی کی جاتی ہے۔امریکہ میں، کینیڈا میں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وردی والے بندے پر کوئی ہاتھ ڈال سکے۔ امریکہ میں تو فوری طور پر جس نے وردی پر ہاتھ ڈالا گولی مار دینے کا حکم ہے۔ لیکن ہمارے ہاں پولیس کے ساتھ جو کچھ ہوتا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ پولیس والے بھی کوئی اچھے کام تو نہیں کرتے لیکن وردی کا ایک احترام ہر معاشرے میں، ہر ملک میں، ہر قوم میں پایا جاتا ہے۔
پاکستان میں کوئی بلڈنگ بنتی ہے تو بلڈنگزلاز کو بالکل وائیلیٹ کرکے رکھ دیا جاتا ہے۔ اس شعبے سے وابستہ افسران گھر بیٹھے نقشے منظور کر دیتے ہیں۔ گھر کے اندر، نقشے کے بعد جس طرح بھی آپ چاہیں اپنی عمارت کو بنا سکتے ہیں لیکن کینیڈا میں خصوصی طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ عمارت کی تعمیر شروع ہوتی ہے ،بنیادوں سے لے کر اس کی تکمیل تک شہری حکومت کے لوگ مانیٹرنگ کرتے ہیں وہ آپ کے گھر کا بار بار وزٹ کریں گے۔ سوئچ لگانا یہ آپ کی مرضی لیکن وہاں پر قانون ہے کہ پانچ فٹ سے نیچے سوئچ نہیں لگے گا تاکہ بچے اس کو ہاتھ نہ لگا سکیں۔اگر ساڑھے چار فٹ پر سوئچ لگانے کا قانون ہے تو ساڑھے چار فٹ سے نہ ایک انچ نیچے نہ اوپر، وہیں پر سوئچ لگے گا اور پھر سیوریج کے لیے دو ڈرین سسٹم ہے۔ایک آپ کے باتھ رو م کا پانی اس کے لیے ڈرین الگ ہے اور دوسرا آپ کے کچن کا پانی اس کے لیے ڈرین الگ سے بنائی جاتی ہے۔
ہمیں اپنے بچوں پر بڑا اعتماد ہے، پتا ہے کہ چھٹی کے روز گروپوں کی صورت میں بچے ویلنگ کرتے ہیں۔ ایک جگہ پر اکٹھے ہوتے ہیں مقابلہ کرتے ہیں۔ والدین کو یہ ہوتا ہے کہ ہمارے بچے بہت اچھے ہیں ایسا کام نہیں کرتے لیکن جب خدانخواستہ لاش یا زخمی ہو کر گھر پہنچتے ہیں تو پھر یہ نہیں کہ اپنے بچے کی غلطی کو تسلیم کریں بلکہ پولیس پر الزام لگایا جاتا ہے کہ پولیس کیا کر رہی ہے ، پولیس نے کیوں نہیں روکا۔سب سے پہلی ذمہ داری تو والدین کی ہے کہ آپ نے گھروں سے بچوں کو موٹرسائیکلوں پر جانے ہی کیوں دیا۔ ویسے بھی ہم ایسی قوم ہیں کہ جس کی یہ خواہش ہے کہ ہمیں کچھ نہ کرنا پڑے ،من و سلوی ہمیں مل جائے۔ قانون پر عمل کرنا ہے تو ہمیں نہ کرنا پڑے، یہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے خودبخود ہو جائے۔ریڑھی والے کو کہا جا ئے کہ اس جگہ پر غیرقانونی طور پر ریڑھی کیوں لگائی ہے تو وہ بھی آپ کے گلے پڑ جائے گا۔رکشے والے سے بات کی جائے تو وہ بھی قانون کو اپنے ہاتھ میں لے گا اور جب سختی کی جاتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ میرے نو بچے ہیں مجھے کیوں تنگ کیا جا رہا ہے اگر آپ کے نو بچے ہیں تو پھر کیا آپ قانون کو ہاتھ میں لے سکتے ہیں۔
قومیں بنتی ہیں ضابطے کے ذریعے ،تعلیم کے ذریعے ،تربیت کے ذریعے، ملک اسی طرح سے ترقی کرتے ہیں۔ کسی ملک کی ترقی اور معیار اس کی ٹریفک سے ظاہر ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں یہ ہوتا ہے کہ ریلوے پھاٹک پر سائیکل والا آیا اس نے ایک لمحے کے لیے بھی ٹرین گزرنے کا انتظا رنہیں کرنا ،سائیکل کندھے پر اٹھایا اور ٹرین گزرنے سے ایک لمحہ پہلے یا ٹرین گزرنے کے فوری بعد سائیکل لے کر گزر گیا۔ کندھے پر سائیکل رکھا ہوا اور دوڑ کر پھاٹک کراس کرنا ہے۔گویا اس کے پاس وقت نہیں ہے آگے جا کر یہ دیکھا گیا کہ بندر کا تماشا وہی بند ہ دیکھ رہا ہوتا ہے ،اتنا اس کے پاس ٹائم ہے۔
تجاوزات صرف آپ کے بازاروں میں ریڑھیوں کی صورت میں ، رکشوں کی صورت میں ،ڈھابوں کی صورت میں ،تھڑوں کی صورت میں، سپیڈبریکر کی صورت میں نہیں بلکہ ہرجگہ پر جہاں پر کسی بھی چیز کاناجائز استعما ل ہوتا ہے، اختیارات کا ناجائز استعمال ہے۔ یہ سرکاری اداروں میں ہے یا انفرادی سطح پر ہے جہاں بھی جو کچھ بھی ناجائز ہوتا ہے یہ تجاوز ہے حد سے تجاوز ہے۔یہ تجاوز پولیس کرتی ہے،بیوروکریسی کرتی ہے یا جو بھی ادارہ کرتا ہے یا انفرادی طور پر کرتا ہے۔وہ اپنے اختیارات سے تجاوز کرتا ہے تو یہ بھی تجاوزات میں آ جاتا ہے۔اس سب کو بدلنے کے لیے ہمیں سوچ بدلنا ہوگی ،ایجوکیشن میں آگے بڑھنا ہوگا، سیاست میں، عدل میں ،ہیلتھ میں ہر جگہ پر تبدیل ہونے اور تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
قارئین!میں بڑے دکھ سے آپ کی توجہ گذشتہ صرف دو ماہ کے دوران لاہور میں ہونے والے درجنوں سانحات کی طرف آپ کی توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں۔جہاں آپ نے یقینا دیکھا، سنا او ر پڑھا ہوگا کہ بارہ تیرہ سال کے کم عمر بچے گھر سے گاڑی لے کر باہر نکل جاتے ہیں۔اور پھر وہ تیز رفتاری کے باعث گاڑی کی سپیڈ پر کنٹرول نہیں رکھ سکتے جس سے روڈ پر موجود دوسری گاڑیاں خطرات کا شکار ہوتی ہیں۔ چند ہفتے قبل بھی ایک تیرہ چودہ سالہ بچے نے ایک دوسری گاڑی کو ٹکر مار کر چھ افراد کی زندگیوں کے چراغ گُل کیے۔جس کے بعد آئی جی پنجاب کی طرف سے ڈرائیونگ لائسنس کی چیکنگ کی سختیاں کی گئیں مگر گذشتہ روز پھر ایک نیا سانحہ رونما ہوا اور ایک بارہ سالہ بچے نے اپنی گاڑی سے موٹرسائیکل رکشے (چنگ چی)کو ٹکر دے ماری ۔خود چنگ چی رکشے کو بھی ایک چودہ سالہ بچہ چلا رہا تھا۔اس حادثے میں بھی اب تک کی اطلاع کے مطابق دو سے زائد جانیں چلی گئی ہیں۔میں وزیراعلیٰ پنجاب اور آئی جی پنجاب سمیت قانون بنانے والے اداروں اور قانون پر عمل کرانے والے اداروں سے اپیل کرتا ہوں کہ ان وحشت ناک حادثات کو روکنے کے لیے کم عمر ڈرائیوروں اور ان کے ورثا کو بھی سزائیں دلوائی جائیں۔کیونکہ وہ کیونکر اپنے کم سن بچوں کو گاڑیاں چلانے کی اجازت دے دیتے ہیں۔اگر گھر سے سختی ہو گی تو بچے یقینا گاڑی لے کر سڑک پر نہیں آ سکیں گے۔لہٰذا قانون کا مذاق اڑانے کی بجائے قانون پر عمل درآمد کروایا جائے۔
کیا تجاوزات ہماری فطرت میں شامل ہے؟
Dec 26, 2023